• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ہمارے پاس پاکستان کے عوام کے لیے خوش خبری ہے کہ منہگائی، افراطِ زر میں کمی ہوئی اور معیشت میں استحکام آیا ہے۔‘‘ یہ خوش خبری کسی اور نے نہیں، بلکہ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر، کرسٹالینا جارجیو نے نیویارک میں’’ جیو نیوز ‘‘سے بات کرتے ہوئے دی۔ 

وہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کے اُس اجلاس کی صدارت کر کے کمرے سے باہر آئی تھیں، جس میں پاکستان کے لیے سات ارب ڈالرز قرض کی منظوری دی گئی۔اس قرض کی پہلی قسط1.1 ارب ڈالرز کی صُورت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مل بھی چُکی ہے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے مزید کہا کہ ’’حکومت نے مثبت اصلاحات کی ہیں اور اب پیداوار کا گراف اوپر کی طرف جارہا ہے، جب کہ افراطِ زر نیچے آرہا ہے اور معیشت استحکام کے راستے پر گام زن ہے۔‘‘

وزیرِ اعظم، شہباز شریف نے آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ معاشی اصلاحات کے نفاذ کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔‘‘ اُنہوں نے دوست ممالک کی معاونت پر شُکریہ ادا کیا اور اِس ضمن میں سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کا خاص طور پر ذکر کیا۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ’’ اگر یونہی محنت جاری رہی، تو یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا۔‘‘یاد رہے، پاکستان اب تک مختلف جمہوری اور فوجی ادوار میں20مرتبہ اس ادارے سے رجوع کر چکا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت بھی دو بار اس کے پاس گئی، جس نے بعد میں آئی ایم ایف سے سیاسی بنیادوں پر پروگرام بند کرنے کو بھی کہا۔قرض لینا، خواہ وہ انفرادی ہو یا حکومتی سطح پر، کوئی اچھی بات نہیں ہے، لیکن یہ بھی طے ہے کہ آج کی دنیا میں قرض کے بغیر ترقّی ممکن نہیں۔ اربوں، کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرکے یک مُشت سرمایہ پھنسا دینا، ماہرین کے مطابق ایک نامناسب حکمتِ عملی ہے۔

اس کی مثال پاکستان میں منگلا اور تربیلا ڈیم ہیں، جو ترقّی کے شاہ کار مانے جاتے ہیں۔ تُرکی میں استنبول کا انڈر پاس بھی، جو یورپ اور ایشیا کو ملاتا ہے،قرض ہی سے تعمیر کیا گیا۔ دریائے نیل کا مشہور اسوان ڈیم بھی اِسی طرح بنا۔ موجودہ حالات میں آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر پاکستان کا گزارہ ممکن نہیں کہ ڈیفالٹ کا خطرہ تھا اور اب آئی ایم ایف کی خوش خبری نے دنیا پر واضح کر دیا کہ ڈیفالٹ کا قصّہ ختم ہوچکا ہے۔

آئی ایم ایف نے گزشتہ پروگرام کی آخری قسط کے لیے جس طرح پاکستان سے ناک رگڑوائی، وہ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔’’ہاں، نہ‘‘ کا سلسلہ چھے ماہ تک چلتا رہا اور لگا کہ سب کچھ ختم ہوجائے گا، لیکن اِس مرتبہ یہ نہیں ہوا اور سات ارب ڈالرز کا نیا قرضہ معمول کے طریقۂ کار کے مطابق مل گیا، جو اِس بات کی غمّازی کرتا ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں آئی ایم ایف، دوست ممالک اور دنیا کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ موجودہ حکومت معیشت کے استحکام اور ترقّی کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہے، لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستانی عوام بھی سمجھ چُکے ہیں کہ معاشی ترقّی ہی اُن کے تمام مسائل کا حل ہے۔

دنیا اور آئی ایم ایف کے پیغام سے لگتا ہے کہ پاکستان کا مسئلہ سیاسی نہیں، معاشی ہے اور اس کی توجّہ اسی پر مرکوز رہنی چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مُلک کو جمہوریت کی راہ پر آگے نہیں بڑھنا چاہیے اور حکومت جو غلطیاں ماضی میں کرتی رہی، اُسے دُہرانے کی حماقت کرتی چلی جائے۔ لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مُلک میں ملٹی پارٹی جمہوریت ہے، جس کی ابھی کونپلیں پُھوٹ رہی ہیں۔راستہ طویل، کٹھن اور صبر آزما ہے۔ملٹی پارٹی سسٹم میں جہاں بہت سی آوازیں سُنائی دیتی ہیں، وہیں ایک آواز بلند ترین ہوتی ہے کہ مُلک اور قوم کو اولیت دی جائے، باقی تجربات ہوتے رہیں گے۔

آئین کا نام لے کر ہر وقت عدالتوں کے ذریعے سیاست، مُلک و قوم کے لیے ایک تباہ کُن راستہ ہے، جس سے ہر صُورت گریز کرنا ہوگا۔جمہوریت، احتجاج کا حق تو دیتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ قوم ہر وقت احتجاجی مُوڈ ہی میں رہے۔سڑکیں، اسکول، بازار، کارخانے سب بند اور لوگ رُلتے رہیں۔ایسا مُلک، انتشار کا گڑھ بن جاتا ہے۔

آئی ایم ایف یا دوسرے امدادی ادارے اور دوست ممالک، سیاسی معاملات میں دخل اندازی کا کوئی حق نہیں رکھتے، لیکن اُنہیں یہ تو سوچنے سے کوئی نہیں روک سکتا کہ ہر وقت منہگائی کی دُہائی دینے اور بجلی کے بِلز گلے میں لٹکائے پِھرنے والے لوگ کیا معیشت اور ترقّی کی ابجد سے بھی واقف ہیں اور اُن کی امداد کر کے اپنے سرمائے کو ڈبونا کہاں کی عقل مندی ہے۔ اِس لیے بہتر ہوگا کہ ہم سیاسی اختلافات کے باوجود، ایک سنجیدہ، تعلیم یافتہ اور باشعور قوم کا تاثر مضبوط کریں۔

کیا آئی ایم ایف پروگرام سے عام آدمی کو ریلیف مل سکے گا، یہ سب سے اہم سوال ہے، کیوں کہ عوام گزشتہ کئی برسوں سے منہگائی کی چکّی میں پِس رہے ہیں اور انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ اس مصیبت کا اختتام کب اور کیسے ہوگا۔ منہگائی کے ایسے پے در پے وار ہوئے کہ ان کا حکومتوں، سیاسی جماعتوں، ماہرین، اداروں، اصلاحاتی پیکیجز سب ہی سے اعتبار اُٹھ گیا اور شاید خُود سے بھی۔ عام طور پر لوگ یہی کہتے نظرآتے ہیں کہ’’ اچھائی کی کوئی اُمید نہیں۔‘‘حالیہ دنوں میں جو اعداد وشمار سامنے آئے ہیں اور جن کی تصدیق معتبر عالمی ادارے بھی کرتے ہیں، اُن کے مطابق، منہگائی میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔

افراطِ زر ڈبل ڈیجٹ سے سنگل پر آگیا ہے اور اِسی لیے بینک انٹرسٹ ریٹس میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ روپے کی قدر میں استحکام ہے۔اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ یہ اعداد وشمار عام آدمی کو مذاق لگیں گے، کیوں کہ جب تک وہ مارکیٹ میں منہگائی کم ہوتے نہیں دیکھتا، اپنی تن خواہ میں اپنا بجٹ نہیں بناتا اور بجلی کے بِل کم نہیں ہوتے، اُسے مشکل ہی سے ایسے دعووں پر یقین آئے گا۔

تاہم، اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے عالمی اعتماد کے ساتھ، اندرونِ مُلک بھی استحکام آئے گا، مگر کیسے؟سب سے پہلے تو مارکیٹ میں مثبت رجحانات پیدا ہوں گے، جو کافی عرصے سے ناپید ہیں۔پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دبائو کم ہو گا، جس لیے امپورٹ کی گنجائش پیدا ہوگی اور صنعتی عمل کی رکاوٹیں دُور ہوں گی۔

نیز، پیداوار بڑھنے سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے، جن کی اِس وقت بہت ضرورت ہے کہ نوجوانوں میں مُلک چھوڑ کر جانے کا رجحان ختم ہو۔منہگائی میں ریلیف کے لیے حکومت کو گورنینس میں بہتری کے اقدامات بھی کرنے ہوں گے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں دِکھاوے کے اقدامات اور محض سرکاری سرکلرز بھیج کر ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔ دفاتر میں ایک پیالی چائے کم کرنا، نئے فرنیچر کی خریداری پر پابندی مگر ٹُوٹے صوفوں کی مرمّت کے نام پر لاکھوں روپے اُڑا دینا، چھوٹے ملازمین کے دو کی جگہ ایک یونی فارم جیسے مضحکہ خیز اقدامات اس کی مثالیں ہیں۔

وزیرِ اعظم اور وزراء ایسے کاموں پر بہت خوش ہوتے ہیں اور ان کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے، لیکن شاید اُنھیں اندازہ نہیں کہ ایسے سطحی نوعیت کے اقدامات سے رشوت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ اگر واقعی فضول خرچی بند کرنی ہے، تو پھر دس دس، بیس بیس لاکھ تن خواہ لینے والے ملازمین کی مراعات بند کریں۔

ان کے بچّوں کو سرکاری اسکولز میں پڑھائیں، معلوم کریں، جو ڈاکٹرز اپنی ڈیوٹی پر نہیں آتے، وہ کروڑوں روپے کیسے کماتے ہیں، سرکاری اسپتال خالی کیوں رہتے ہیں، وہاں کی ادویہ کہاں چلی جاتی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق آئی پی پیزسے مذاکرات ہو رہے ہیں اور حکومت کی پوری کوشش ہے کہ اس سے سلسلے میں جو منافع اُنہیں بغیر بجلی دیئے مل رہا تھا، اُسے کم ازکم سطح پر لایا جائے گا۔

ویسے بھی سردی کے مہینوں میں ائیر کنڈیشنرز کا استعمال کم ہوجاتا ہے، اس سے بجلی کی بچت کی مد میں خاطر خواہ فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔مُلک کے طول وعرض میں جس تیزی سے سولر انرجی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے، وہ بھی مُلک کے لیے نیک شگون ہے کہ یہ متبادل انرجی کا سورس ہے، تو دوسری طرف آئی پی پیز کو بے جا دبائو کے ذریعے عوام کو لُوٹنے کھسوٹنے کی جو عادت پڑ چُکی ہے، اُس میں بھی کمی آسکے گی۔

اُنہیں اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اُن کی کُھلی چُھوٹ والا کھیل اب ختم ہونے کو ہے۔ویسے چین جس برق رفتاری سے کم قیمت کے سولر پینلز عالمی مارکیٹ میں لا رہا ہے، وہ خُود ایک انقلاب کی دستک ہے۔ اس کی بہت سی شکلیں ہم نے برطانیہ اور یورپ میں دیکھیں، جہاں کم سورج کے باوجود روشنی سے چلنے والے پینلز مقبول ہو رہے ہیں۔ پاکستان تو پھر بھی آگ برساتے سورج کا گھر ہے۔

دوسرا معاملہ بیرونی فنائنسنگ کا ہے۔ پاکستان کو تقریباً 26 ارب ڈالرز درکار ہیں اور آئی ایم ایف پروگرام سے ان کے حصول میں مدد ملے گی۔ سعودی عرب نے تیل کی مَد میں ڈیڑھ ارب ڈالرز کی وصولی مؤخر کردی ہے۔ غزہ اور لبنان کی کشیدہ صُورتِ حال میں یہ رعایت ملنا کوئی کھیل نہیں۔ اس کے ساتھ ہی سعودیہ مزید دو ارب ڈالرز دے رہا ہے، جن کا تعلق تجارت اور سرمایہ کاری سے ہے۔پاکستان کو3.2ارب ڈالرز کا قرضہ بھی مل رہا ہے۔ دبئی اسلامک بینک سے ایک ارب ڈالرز، ایس سی بی سے60کروڑ ڈالرز اور اسلامی ترقیاتی بینک سے 43کروڑ ڈالرز ملیں گے۔

گزشتہ برسوں میں پاکستانی معیشت منفی میں جارہی تھی اور رواں سال اسے3.5 پر رکھا گیا ہے۔ یہ کوئی اطمینان بخش صُورتِ حال نہیں کہ اسے کم ازکم چھے پرہونا چاہیے، جو2017ء میں تھی۔ بیرونی سرمایہ کاری سے بڑے بڑے منصوبے ممکن ہوسکیں گے، جن میں پن بجلی، آب پاشی اور ٹرانسپورٹ کے منصوبے شامل ہیں۔

اس کے علاوہ آئی ٹی کے شعبے میں بھی کافی کام ہوسکتا ہے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب امریکا میں ترقّی کا سفر شروع کیا گیا، تو موٹر ویز کی تعمیر پر زور دیا گیا، اس سے ایک طرف لوگوں کو روزگار ملا، تو دوسری طرف مال کی جَلد ترسیل ممکن ہوئی، یوں تجارت بڑھی۔پاکستان کے انفرا اسٹرکچر کی بات کریں، تو پنجاب میں بڑا کام ہوا ہے۔ ذرا سی محنت اور مزید سرمائے سے اس میں پھیلائو آسکتا ہے۔ 

ویسے چین کا سی پیک منصوبہ اِسی کے گرد گھومتا ہے، جس کے ہم شراکت دار ہیں۔ موجودہ حکومت کو آئے آٹھ ماہ ہوئے ہیں اور اُسے زیادہ توجّہ احتجاجی مظاہرے ناکام بنانے پر مرکوز کرنی پڑ رہی ہے۔قومی اسمبلی سیاسی اکھاڑا بنی ہوئی ہے۔ ایسے میں کوئی بھی حکومت آئی ایم ایف کے پروگرام کو آخری پروگرام کیسے قرار دے سکتی ہے۔ عوام تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں کہ اُنہیں سوشل میڈیا نے مشین بنا دیا ہے۔

جب چاہا، ذائقہ بدلنے کے لیے کسی کو گالی بَک دی، کون پوچھنے والا ہے۔اے آئی روبوٹ بھی کچھ سمجھ بُوجھ کی صلاحیت رکھتے ہوں گے، کیوں کہ کم ازکم وہ صاف ستھرا جواب تو دیتے ہیں، لیکن ہمارے عوام تو’’ مَیں نہ مانوں‘‘ کی رٹ لگائے بیٹھے ہیں اور ان کا پسندیدہ شغل وِکٹم کارڈ ہے۔عوام کو مُلک و قوم کے ڈوبنے کا تو بہت غم ہے، لیکن وہ ہر اُس اقدام کی حمایت کرتے ہیں، جو اسے مزید دلدل میں پھنسا دے۔

انہیں خود پر اعتماد ہے نہ کوئی اُمید، تو پھر ان پر کون اعتماد کرے گا۔سوال تو یہ بھی ہے کہ کیا مُلک کے اپنے عوام بھی ترقّی کے سفر میں کچھ حصّہ ڈالیں گے۔ بات واضح ہے، اگر انہیں ترقّی کرنی ہے، تو اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور اس کے لیے انہیں کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں، صرف چین، بھارت اور جنوب مشرقی ایشیا ہی پر نظر ڈال لیں۔

ہم قرضوں سے بہت گھبراتے ہیں اور اس کا مذاق بھی اُڑاتے ہیں، لیکن اِس ضمن صرف جاپان ہی کو دیکھ لیں، جس کے قرضے جی ڈی پی سے دُگنے ہیں، وہاں بڑھتی عُمر ایک بڑا مسئلہ بن چُکی ہے۔ تاہم، اُنہوں نے اپنے ترقیاتی منصوبوں کو کم سُود پر بھی اِس طرح مینیج کیا ہوا ہے کہ وہاں ہر مُلک سرمایہ کاری کو اولیت دیتا ہے اور وہ دنیا کی تیسری بڑی اکانومی ہے۔

جاپانی سیدھے آسمان سے نہیں اُترے۔ اُنہوں نے جنگیں دیکھیں، ایٹم بم کے حملے برداشت کیے، غلطیاں کیں، اُن سے سبق سیکھے، منصوبہ بندی کی اور پھر ایک وقت آیا کہ تجارت میں دنیا کی سب سے محترم قوم بنی۔ ایک بات طے ہے کہ وہاں تھوک کے بھاؤ بے عمل اقتصادی اور انقلابی ماہرین نہیں ہیں، بلکہ کروڑوں کام کرنے والے ہاتھ اور سوچنے والے ذہن ہیں۔جنوب مشرقی ایشیا کی ترقّی کا راز یہی جاپانی ماڈل ہے۔

گزشتہ چھے برسوں میں ہم جس منہگائی اور مایوسی کے کرب سے گزرے ہیں، اُس نے یقیناً ہماری یہ خوش فہمی تو دُور کردی ہوگی کہ ہم دنیا کی سب سے افضل، ہنرمند، ذہین اور طاقت وَر قوم ہیں۔ تو کیا اُمید کی ہر شمع بُجھ چُکی ہے؟ نہیں، قطعاً نہیں۔ ہم نے شروع میں پوچھا تھا کہ کیا یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہے، اِس کا جواب بھی ایک سوال ہی میں پوشیدہ ہے۔’’کیا پاکستانی قوم چاہتی ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہو…؟؟