شنگھائی تعاون تنظیم کا 23واں سربراہی اجلاس’’ بخیرو عافیت‘‘ اختتام پذیر ہو گیا ۔ خوش آئند بات ہے کہ جب پاکستان چاروں اطراف سے ’’دہشت گردوں ‘‘ کے نشانے پر ہے اور ’’کشیدہ سیاسی ماحول‘‘ کی وجہ سے ایک بڑی سیاسی جماعت اپنے قائد کی رہائی کیلئے آئے روز’’ڈی چوک ‘‘ پر حملہ آورہو رہی ہے،اس نے ایس سی او کانفرنس کو سبوتاژ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بڑی خبر یہ ہے کہ پاک بھارت وزرائے خارجہ کے درمیان باضابطہ مذاکرات کی میز تو نہ سجی لیکن بھارت کی درخواست پر کھانے کی میزپر جے شنکر اور سینیٹرمحمد اسحاق ڈار کی نشست اکھٹے لگائی گئی وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ سینیٹر محمداسحق ڈار سے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے سائیڈ لائن پر ’’کرکٹ ڈپلو میسی سےدو طرفہ تعلقات ‘‘ پر بات چیت کی ۔اس کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی دونوں ملکوں کے درمیان وزرائے خارجہ کی سطح پر رابطہ کی بحالی ہے جس کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔ ایس سی او اجلاس کی کامیابی کا کریڈٹ نائب وزیر اعظم ووزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحق ڈار کو جاتا ہے جن کی دن رات کی محنت سے کانفرنس کے شاندار انتظامات ہوئے ان کو بوجوہ وزارت خزانہ کا قلمدان نہیں سونپا گیا لیکن انہوں نے سفارتی محاذ پرکامیابی کے جھنڈے ضرور گاڑ دئیے ہیں ۔جب سے پی ٹی آئی سے اقتدار چھناہے اس نے اپنے احتجاج کی منزل ’’ڈی چوک‘‘ بنا لی ہے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے قبل ملائیشیا کے وزیر اعظم نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تووزیر اعلیٰ خیبر پختونخواعلی امین گنڈاپو ر نے اپنا لشکر لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کر دی۔اگلے روز چین کے وزیر اعظم لی چیانگ(جو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کیلئے بھی آئے ہیں) پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے ان کا دورہ اس لحاظ سے غیر معمولی نوعیت کا تھا کہ پاکستان اور چین نے ’’سی پیک 2-ـ‘‘ پر دستخط کرنا تھے پی ٹی آئی نے عمران خان سے ملاقات کی اجازت دینے سے انکار کی آڑ میںڈی چوک میں احتجاج کرنے کی کال دے دی ۔شنگھائی تعاون اجلاس میں 9ممالک کے سربراہان حکومت شرکت کر رہے تھے پی ٹی آئی کی احتجاج کی کال کو چین سمیت ایس سی اوکے رکن ممالک نے درخور اعتنا نہ سمجھا اور بڑے وفود کے ساتھ کانفرنس کو رونق بخشی ۔ قبل ازیں 2014ء میں پی ٹی آئی کے اسی طرز عمل کے باعث چینی صدر کا دورہ منسوخ ہو گیا تھا لیکن اب کی بار حکومت ڈٹ گئی اور ہر قیمت پر کانفرنس کرانے کے عزم کا اظہار کیا،احتجاج کی کال پر پی ٹی آئی کی قیادت بھی خود اختلافات کا شکار ہو گئی اور پھر ’’فیس سیونگ ‘‘ کیلئے ڈاکٹروں کی عمران خان سے ملاقات کی اجازت پر احتجاج کی کال واپس لے لی گئی ۔
2001ء میں شنگھائی میں چین ، روس ، قازقستان، کر غزستان اور تاجکستان پر مشتمل یورشیائی سیا سی ، اقتصادی اور عسکری تعا ون کی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیاتھا ،اسی سال ازبکستان کو بھی اس تنظیم کی رکنیت مل گئی اگر یہ کہا جائےکہ بنیادی طور پر یہ چین ، روس اور روس سے آزاد ہونے والی ریاستوں پر مشتمل کلب تھا تومبالغہ آرائی نہیں ہو گی پاکستان اور بھارت2005ء سے اس تنظیم کے اجلاسوں میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کر رہے تھے پھر 10 سال بعد ان کو بھی رکنیت حاصل ہو گئی اب بیلا روس اور ترکمانستان مبصرین کی صف میں کھڑے ہیں۔ ایس سی او نے ایک اور مبصرملک افغانستان کو بوجوہ کانفرنس میں شرکت کی دعوت نہیں دی۔ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کا خطاب اسی نکتے کے گرد گھومتا رہا جو 22ویں اجلاس کے موقع پر تھا ان کا کہنا تھا کہ ’’امن کا مطلب دہشت گردی و انتہا پسندی کیخلاف سخت رویہ اختیار کرناہے سرحد پار دہشت گردی، انتہا پسندی، علیحدگی پسندی جیسی سرگرمیاں جاری رہیں گی تو تجارت، عوامی سطح پر رابطے کا فروغ مشکل ہو جائے گا‘‘وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنے خطاب میں اشارتاً کنایتاً وہ کچھ کہہ دیا جسکا وہ اپنے پڑوسی ممالک سے تقاضا کر رہے ہیں ان کا کہنا تھا ’’پاکستان خطے میں استحکام چاہتا ہے، افغان سرزمین کا دہشت گردی کیلئے استعمال روکنا ہوگا‘‘ ایس سی او کانفرنس کے اعلامیہ میں ممالک کے درمیان اختلافات اور تنازعات بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ عالمی اتحاد برائے منصفانہ امن، ہم آہنگی اور ترقی کیلئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے قرارداد کی منظوری کی تجویز کو فروغ دیا جائیگا۔ کانفرنس کے حوالے سے جے شنکر کی بھارتی ہائی کمیشن میں ’’مارننگ واک اور سائیڈ لائن‘‘ پرشہباز،اسحق، شنکر غیر رسمی کا زیادہ چرچا رہا، پاکستان میں اگلے سال فروری میں آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی منعقد ہو رہی ہے دونوں اطراف سے اس بارے میں بات چیت کا آغاز ہوانئی دہلی سرکار کے طرز عمل میں تبدیلی آئی ہے کہ نہیں اسلام آباد انتظامیہ کو انتظار ہے۔
پی ٹی آئی نے 15 اکتوبر کا احتجاج تو موخر کر دیالیکن اس نےاگلے روز احتجاج کی ایک نئی کال دے دی ،بیرسٹر گوہر علی خان اور علی امین گنڈا پور 15 اکتوبر کو احتجاج کے حق میں نہیں تھے پی ٹی آئی کے قانونی دماغ حامد علی خان نے بھی 15 اکتوبر کو احتجاج کے فیصلے سے اختلاف کیا ان کی رائے تھی کہ حکومت پی ٹی آئی کارکنان کو سخت سکیورٹی انتظامات کے تحت احتجاج نہیں کرنے دیگی اس سے ہماری جگ ہنسائی ہو گی علی امین گنڈاپور اور حماد اظہر کے درمیان تو تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔کانفرنس ختم ہونے کے بعد کچھ مہمان ابھی اسلام آباد میں ہی تھے صدر مملکت ، وزیر اعظم سمیت پوری حکومت جاتی امرا میں نواز شریف کی جانب سے مولانا فضل الرحمنٰ کے اعزاز میں دی جانے والی ضیافت میں شرکت کیلئے پہنچ گئی کراچی میں مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان آئینی ترمیم کے جن نکات پر اتفاق رائے ہوا ہےاس پر نواز شریف سے بھی مہر تصدیق ثبت کروا لی گئی ۔ وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحق ڈار جو پہلے ہی شنگھائی میلہ لوٹ چکے تھے وہ بھی جاتی امرا مذاکرات جا پہنچے لیکن17اکتوبر کا سورج طلوع ہوا تووہ اسلام آباد میں موجود تھےگویا وہ بیک وقت شنگھائی کانفرنس کے مہمانوں کی تواضع کر رہے تھے اور جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمنٰ کےبدلے ہوئے تیور حکومت کیلئے پریشان کن ہیں اسلام آباد میں پارلیمانی محاذ پر غیر معمولی سرگرمیاں جاری ہیںیہ سطور شائع ہونے تک کوئی بڑانتیجہ نکلنے کا امکان ہے آئینی ترمیم کی منظوری سے موجودہ حکومت کا مستقبل وابستہ ہے۔