سیالکوٹ کے چھوٹے سے گاؤں کے ایک کسان کے گھر پیدا ہونیوالے ڈاکٹر محمد شہباز عالمی ماحولیاتی افق پر ابھرتے ہوئے معیشت دانوں کی فہرست میں تیسری پوزیشن پر براجمان ہوکر پاکستان کیلئے اعزاز بن چکے ہیں۔ جدید معاشیاتی تحقیق انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، اپلائڈ اکنامک ریسرچ سینٹر کراچی یونیورسٹی، گِفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ، کامسیٹ یونیورسٹی لاہور، مونٹیپلربزنس اسکول فرانس میں وزٹنگ اور باقاعدہ تدریس کے دوران اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد آج کل بیجنگ یونیورسٹی چائنہ اور کیمبرج یونیورسٹی برطانیہ سے وابستہ ہیں، ہر سمسٹر کے بعد اور چائنہ یو کے آتے جاتے سال میں دو تین بار پاکستان آتے ہیں، میں کئی سالوں سے انکی صلاحیتوں کی معترف ہوں، گزشتہ دنوں ان سے ملاقات ہوئی تو انکی تحقیقی کامیابیوں کی کہانی سنکر خوشی بھی ہوئی اور افسوس بھی کہ ہم اپنی دھرتی کے ہیروں کی صلاحیتوں سے استفادہ کیوں نہیں کرتے۔ انکی کئی شہرہ آفاق تخلیقات انرجی اکنامکس,ریسورسز پالیسی اور انرجی پالیسی اور مشہور زمانہ جرنلز میں مسلسل چھپنے والے مضامین کے پیش نظر فرانس میں 2016 ء میں Center for Energy and Sustainable Development کی چیئر انکے سپرد کی گئی۔ کیمبرج یونیورسٹی میں فیلو شپ حاصل ہونے کے بعد 2019ء میں پروفیسر ڈینیل لورنٹ کیساتھ اپنی پہلی کتاب ’’انرجی اینڈ انوائرمینٹل اسٹرٹیجیز ان دا ایرا آف گلوبلائزیشن‘‘شائع کی اور پھر ایک سلسلہ چل نکلا۔ اپنے تحقیقی کام کی بدولت 2019ءمیں ترک صدر کی طرف سے ’’سائنٹسٹ آف دا ائیر‘‘ کے علاوہ ، Dozce University ترکی کی طرف سے ’’معروف سائنسدان‘‘ اور ترکی کے یولووا شہر کے میئر کی طرف سے ’’ماحولیاتی تحقیقاتی تحفظ میں ممتاز اسکالر‘‘ ایوارڈ سے نوازے جاچکے ہیں۔ انرجی اکنامکس اور اکنامک ماڈلنگ کے حوالے سے کئی کانفرنسوں میں بطور کی نوٹ اسپیکر نئے نکات اٹھانے کے باعث نمایاں ہوئے۔ سائپرس، ترکی اور چین میں 2018ء میں ماحولیات، فنانس گلوبلائزیشن معاشی عدم استحکام اور معاشی ترقی کےحوالے سے انکے خیالات کو قومی پالیسی کا حصہ بنایا گیا ۔بطور ماہر معاشیات کئی ممالک کی حکومتوں اور نجی اداروں کے ساتھ پروجیکٹس کرچکے ہیں۔ ایک دنیا انکے کام کی جدیدیت، نئی بصیرت اور منفرد زاویہ نگاہ کو سراہتی ہے۔ دنیا کے اہم محققین نے ماحولیاتی تحقیق، اقتصادی ترقی، غربت و عدم برابری اور مالی استحکام کے موضوعات کے حوالے سے اپنے مقالہ جات میں انکے تحقیقاتی کام کا حوالہ دیا ہے۔ ماحولیاتی اورڈیویلپمنٹ اکنامکس کے شعبے میں انکی تحقیق نے عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی اور اس پر قابو پانے کے ہدف کو حاصل کرنیکی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اقتصادی ترقی کے حوالے سے، پروفیسر صاحب کی تحقیق نے ڈیویلپمنٹ اکنامکس اور توانائی کے استعمال کے اثرات کے حوالے سے جو نکتہ اٹھایا وہ کسی بھی قوم کی پیداوار اور خوشحالی کو بڑھانے میں اہمیت کا حامل ہے انکی تحقیق کے عملیت کا بین الاقوامی ثبوت ان کی تحقیقاتی اشاعتوں کے 743,34حوالوں سے ہوتا ہے، Clarivate نے 2020ء میں انکی تحقیق کو ’’ہائیلی سائٹڈ ریسرچ‘‘ قرار دیا تھا، جبکہ 2021ء میں انہیں ’’ہائیلی سائٹڈ ریسرچر‘‘ کا اعزاز دیا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد شہباز اپنے شعبے سے جنون کی حد تک منسلک ہیں اور یہی جنون انکی پاکستان کی ترقی کی خواہش میں بھی پایا جاتا ہے۔بین الاقوامی ماحولیاتی منظر نامہ کیساتھ ساتھ چین یورپ اور مشرق وسطیٰ کی معیشت کیساتھ انکی گہری جڑت کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ ماحولیاتی مسائل اور صنعتی پسماندگی کے حوالے سے ماحولیاتی تبدیلیوں اور معاشی بحران کی گہرائیوں کو سمجھے اور انکی عالمی شہرت یافتہ تصانیف سے استفادہ حاصل کرے۔ دنیا ہمارے قابل لوگوں کی تحقیق کو اپنا کر فوائد حاصل کر رہی ہے جبکہ ہمارا رویہ بالکل مایوس کن ہے اس وقت دیکھا جائے تو دنیا کے بیشتر ممالک میں قابل ترین پاکستانی مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ کیا یہ اچھا ہو کہ پاکستان اپنے ان بیٹوں اور بیٹیوں کو ملکی ترقی میں مشاورت اور معاونت کیلئے اعزاز بخشے۔ ڈاکٹر شہباز جیسے لوگوں کو اعزاز یے اور عہدوں کی پروا نہیں صرف ملک کی خدمت کا پلیٹ فارم چاہئے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب قدرت ایک چھوٹے سے پسماندہ علاقے سے کسی کو عالمی سطح کی شخصیت بنا دیتی ہے تو وہ کوئی عام فرد نہیں خاص ہستی ہوتی ہے۔