• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنگ میل عبور، قوم کو مبارک، شہباز، بلاول، عدلیہ کے لیے سیاہ دن، بیرسٹر گوہر، حکومت اور اپوزیشن میں تقسیم روک دی، فضل الرحمان

اسلام آباد (ایجنسیاں، ٹی وی رپورٹ) وزیراعظم محمد شہباز شریف اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری پر قوم کو مبارکباد دی، وزیراعظم نے کہا کہ معاشی استحکام کے بعد آئین اور قانون کی حکمرانی کا ایک سنگ میل عبور ہوا، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ آئینی ترمیم ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ہے، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ترمیم کا پہلا مسودہ سانپ تھا، دستور کا چہرہ مسخ کرنے کے عمل کا حصہ نہیں بنے، آج آئین اور عدلیہ کیلئے سیاہ دن ہے، تحریک انصاف متحد ہے، کوئی فارورڈ بلاک نہیں بنا، سینیٹر علی ظفر نے کہا ترمیم جمہوریت پر بڑا دھبہ ہے، اتفاق رائے نہیں ہوگا تو آئین اپنی موت ہی مر جائے گا، عمر ایوب نے کہا حکومت ترمیم کی منظوری پردیگر لوگوں کے ساتھ نامعلوم افراد کا بھی شکریہ ادا کرے، مولانا فضل الرحمن نے کہا ہم نےمجموعی طور پر کالے سانپ کے دانت توڑ دیئے، زہر نکال دیاہے،لمبا عرصہ نمائش کیلئے نہیں گزارا، جو بل ہم نے مسترد کیا اسکو تبدیل کردیا گیا ہے،یہاں جھگڑا شخصیات کے حوالے سے ہے، ایک جج سے حکمراں پارٹی دوسرے سے حزب اختلاف گھبرا رہی ہے،میں آئینی ترمیم کے معاملے حکومت اور اپوزیشن کو تقسیم ہونے سے بچایا،وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آج کا دن تاریخ ساز ہے، میثاق جمہوریت پر عمل ہو رہا ہے، علامہ ناصر عباس نے کہا پہلی بار ترمیم تیزی سے کروانے کی کوشش کی گئی جس سے شکوک و شبہات پیدا ہوئے، فیصل سبزواری نے کہا آئینی ترامیم اسی لئے کہ عدلیہ ، انصاف کا نظام مزید بہتر ہو۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کابینہ نے عوامی فلاح کے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ملکی مفاد میں فیصلہ کیا، اللہ کے فضل و کرم سے ملک میں معاشی استحکام آیا، پاکستان کی خوشحالی اور ملکی حالات کی بہتری کیلئے کابینہ نے بہترین فیصلہ کیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 26ویں آئینی ترامیم میں کوئی متنازع نکتہ نہیں،مولانا فضل الرحمن کا جتنا شکریہ ادا کرو ں وہ کم ہے، جے یو آئی نے آئینی ترامیم کے مسودے پر بہت محنت کی۔جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نےمیڈیا سے گفتگو میں مزید کہا پی ٹی آئی کو متن پر اعتراض نہیں، آئین قوم کا ہوتا ہے، ہم نے مل کر محنت کی لیکن ایک پارٹی کی اپنی کوشش ہوتی ہے، ترمیم کیلئے کسی پارٹی پر جبر نہیں کرسکتے۔ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھاکہ سینیارٹی کے ساتھ کارکردگی کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اپنے11ممبران کے رابطے میں نہ ہونے کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ 3سے 4ممبر ہمارے رابطے میں نہیں ہیں، ہم نے ایسا نہیں کہا کہ ہمارے ممبر حکومت کو ووٹ دیں گے۔26 ویں آئینی ترمیم کیلئے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلال بھٹو نے کہا کہ اس آئین میں کچھ ترامیم سو فی صد اتفاق رائے سے منظور کی گئی ہیں، پی ٹی آئی سے کہوں گا کہ کم از کم مولانا فضل الرحمان کی ترامیم کو متفقہ طور پر منظور کریں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدلیہ ہے، ہم نے اٹھاون ٹو بی کا اختیار صدر سے واپس لیا تو عدالت نے وہ اختیار اپنے پاس رکھ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جسٹس افتخار چوہدری نے پوری اٹھارھویں ترمیم کو اٹھا کر پھینکنے کی دھمکی دی، اس لیے بلیک میلنگ میں آکر انیسویں ترمیم کرنی پڑی۔ الجہاد کیس کے تحت جج لگانے کا اختیار ججوں نے اپنے پاس رکھ لیا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالت کی تجویز سب سے پہلے قائداعظم محمد علی جناح نے گول میز کانفرنس میں دی تھی، جسٹس دراب پٹیل افتخار چوہدری کی طرح پی سی او جج نہیں تھے، ان ہی جسٹس دراب پٹیل نے انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی بنیاد رکھی اور آئینی عدالت کی تجویز دی جس میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی ہو۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں جھگڑا شخصیات کے حوالے سے ہے، ایک جج سے حکمراں پارٹی دوسرے سے حزب اختلاف کی پارٹیاں گھبرا رہی ہے۔ میری تنقید کےبدلے تنقید نہیں، تعریف کے بدلے تعریف ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری پر بلاول بھٹو، نواز شریف، شہباز شریف اور ایوان میں بیٹھےلوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ان کاوشوں میں تحریک انصاف بھی ہمارے ساتھ تھی، پہلے مسودے اور آج کی ترمیم میں بہت بڑا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی قاعدے قانون سے جلسے کرتا ہے تو اسے اجازت ہونی چاہیے، بانی پی ٹی آئی پر ہونے والی سختیوں کی مذمت کرتا ہوں، کل میں سختیوں کے معاملے پر نوازشریف، زرداری کے ساتھ کھڑا تھا آج میں اس حوالے سے عمران خان کے ساتھ کھڑا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آئینی اصلاحات لائی جائیں عدالتی نظام ٹھیک کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم میں بہت بڑا فیصلہ ہو رہا ہے کہ 2028کے بعد ملک میں سودی نظام ختم ہو جائے گا، یہ بہت بڑا شرف ہے جو پارلیمنٹ کو حاصل ہو رہا ہے، شریعت کورٹ ایک سال میں فیصلے کی پابند ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت آئین کے متبادل ہے نہ قانون کے متبادل ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کہا تھا آئینی ترمیم کو شخصیات کے تنازع میں یرغمال نہ بنایا جائے۔جمہوری سفر میں مشکل پیش آئے گی تو اس سے رہنما ئی حاصل کریں گے۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بلاشبہ آج ایک تاریخ ساز دن ہے، اس ایوان کے علم میں ہے کہ 2006 میں ایک تاریخ ساز معاہدہ ہوا جسے میثاق جمہوریت کے نام سے جانا جاتا ہے، اس معاہدے پر شہیر محترمہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کیے، اس پر بشمول تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور بھی بہت سے سیاسی رہنماؤں کے دستخط تھے۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے کہا کہ دھاندلی سے بنی حکومت ترمیم نہیں کرسکتی، پارلیمنٹ کی تذلیل ہوئی ہے، پارلیمنٹ کو کمزور کیا گیا، پارلیمانی کمیٹی کو مس یوز کیا گیا ہے،دراصل ان کے عزائم تھے کہ جوڈیشری کو ختم کرو، یہ ترمیم کل کیوں نہیں ہوسکتا، 31اکتوبر کو کیوں نہیں ہوسکتا، مسودہ کسی نے بھیجا اسمبلی میں اس پر رنگ و روغن کیا گیا، پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ وزیر قانون کو بھی معلوم نہیں تھا کہ مسودہ کیا ہے، اس پروسس میں ہمارے ارکان کو زدوکوب کیا گیا، مبارک زیب یہاں ہیں انہیں لاپتا کہ یہاں لایا گیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئینی ترمیم ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ہے، ووٹ کو عزت جج نہیںپارلیمنٹ دیتی ہے، یہی ووٹ کو عزت دینا ہے، سارا جھگڑا یہ ہے کہ ایک گروپ کا عدلیہ پر گرفت کمزور نہ ہو، ہم 17لوگوں سے پاور لے کر منتخب لوگوں کو دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ عزت سے گھر جارہے ہیں، فائز عیسیٰ نے عدلیہ کی عزت بحال کی، ملک میں سب سے پہلے آئین پر ڈاکا 1958میں مارا گیا، قاسم سوری نے آدھے گھنٹے میں 54بل پاس کیے، باتیں کرتے ہیں ماضی کی، اگر ماضی یاد رکھے تو انسان کو شرم بھی آتی ہے، حیا آتی ہے۔ قبل ازیں سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ قوم کی رضا مندی کے بغیر بننے والا آئین ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے،آئین قوم کو متحد کرنے کیلئے بنایا جاتا ہے جو عوام کی رضا مندی اور اتفاق رائے سے بنایا جاتا ہے،قوم کی رضامندی سے نہ بننے والا آئین ملک و قوم کو نقصان پہنچاتا ہے، 1962 کا آئین مسلط کیا تھا اسی لیے 8 سال میں ختم ہوگیا۔1956 میں ہم نے آئین بنایا، اس پر پوری قوم کا اتفاق نہیں تھا، آئین قوم کو اکٹھا کرتا ہے، یہ سوشل کنٹیکٹ ہے۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ سینیٹر علامہ راجا ناصر عباس نے مزید کہا مولانا فضل الرحمان نے بربادیوں کے امکانات کم کردیئے ،کسی بھی کام کی نیت سب سے اہم ہوتی ہے، آئین کے اندر ترمیم پالیمنٹ کا حق ہے، آئینی ترمیم ظلم کر کے، لوگوں کو اغوا کرکے کی جائے تو یہ کونسی ترمیم ہے؟ اگر کسی پر دباؤ ہے تو ہمیں اُس کا دفاع کرنا چاہیے۔علامہ راجا ناصر عباس نے یہ بھی کہا کہ ہم آپس میں بیٹھ سکتے ہیں، ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں، اعتماد کرتے ہیں، ہم چیخ رہے ہیں لوگوں کو اٹھایا جارہا ہے، کوئی نہیں سنتا۔ جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مولانا عطا الرحمن نے مزید کہا کہ 26ویں ترمیم کا ہم نے بغور مطالعہ کیا، جو اس سانپ کے دانت تھے جے یو آئی نے توڑ دیے،ہم اس کو ووٹ بھی دیں گے، اس ترمیم میں جو کمی رہ گئی ہے اسے بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے،ملک کو آج تک کسی نے بچایا ہے تو اس آئین نے بچایا ہے، آج اگر پارلیمنٹ محفوظ ہے تو اس آئین کی وجہ سے ہے۔

اہم خبریں سے مزید