• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھی سوچا کرتا تھا کہ ہم پاکستانی زمانے میں کتنا پیچھے رہ گئے ہیں اہل یورپ اور امریکہ والے چاند تک پہنچ گئے نئی کہکشائیں تلاش کرلیں، کئی سیارچوں کو دام میں لے آئے مگر ہمارا ’’ککڑ‘‘ ابھی تک بنیرے پر کھڑا ہے حتیٰ کہ اس نے اتنے عرصے میں رنگ تک نہیں بدلا وہی چٹے کا چٹا۔ لیکن جب سے ملائیشیا کا MH370مسافر طیارہ اچانک پراسرار طور سے غائب ہوا ہے انسانی المیہ اپنی جگہ مگر اس بات کا اطمینان ہوگیا ہے کہ مغرب اور امریکہ کی حالت بھی اندر سے ہمارے جیسی ہے اب تو امریکہ کے خلاف ببکے لگانے کو دل کرتا ہے،سوچتا ہوں کسی روز نیویارک جاکر کہوں اوئے امریکہ باہر آ۔حیرت ہے...مغربی آسٹریلیا کے سمندر میں سیٹلائٹ اور انسانی کھلی آنکھ سے دیکھے جانے والے 100سے زائد ملبے کے ٹکڑوں کی نشاندہی پر کئی ترقی یافتہ ملکوں نے تلاش میں دوڑ لگائی مگر حاصل وصول کچھ نہ ہوا۔ تحقیقی ماہرین کی جانب سے پیش کئے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق جہاز آبنائے ملاکہ کی طرف گم ہوا ہے لیکن ایک ہفتہ تک اس کی تلاش بحیرہ جنوبی چین میں ہوتی رہی یعنی کھوتہ مویا کھاریاں تے سوگ وزیر آباد۔ طیارے کی تلاش کی عالمی کوششوں کے سربراہ آسٹریلوی ایئر چیف مارشل اینکس ہوسٹن نے کہا ہے کہ بحرہند میں آسٹریلوی بحری جہاز اوشن شیلڈ کو طیارے کے بلیک بکس کے ملتے جلتے سگنل ملے ہیں سگنلز کی گہرائی 4500 میٹر ہے،سراغ رسانی کے جدید ترین آلات سے لیس برطانوی بحری جہاز HMS ایکوائس علاقے میں پہنچ گیا ہے ادھر چین کے اس بحری جہاز کو دوبارہ بلیک بکس کے سگنل ملے ہیں آٹھ مارچ 2014ء کو 239مسافروں سمیت ملائیشیا کے اس گمشدہ طیارے کے بارے میں مزید افسوسناک خبر یہ ہے کہ ایک ماہ کے بعد ریکارڈ بیٹری کمزور پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ بات ایک ریکارڈ بیٹری کی نہیں پوری مہذب دنیا کمزور پڑ گئی ہے دنیا کی ویٹو پاورز کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے دنیا پر حکمرانی کا خواب لے کر اٹھنے والا امریکہ کے ہاتھ پائوں پھول رہے ہیں اسی مہینے امریکی صدر اوباما کوالالمپور کے دورے پر جارہے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑ جائے گا یہ وقت آنیاں جانیاں دکھانے کا نہیں 239انسانی قیمتی جانوں کا مسئلہ ہے ان 239 مسافروں سے جڑے سیکڑوں خاندانوں کے ہزاروں عزیز و اقارب کی آہ و بکا کی بات ہے، اس ساری مایوس کن صورت حال اور اقوام عالم کی ’’نکٹی‘‘ کے باوجود ملائیشیا کے وزیر ٹرانسپورٹ حشام الدین حسین نے ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ دنیا میں کرشمے ہوتے رہتے ہیں انہیں امید ہے کہ ملائیشیاکے طیارے کے مسافر زندہ ہیں انہوں نے ملائیشیا کے دو کروڑ لوگوں سے دعا کی اپیل کی ہے۔دعا دراصل ایک ایسی عبادت ہے جو اللہ پاک کو بہت پسند ہے، دعا کے تین پہلو ہوتے ہیں یا تو قبول ہوتی ہے یا آخرت کے لئے ذخیرہ کرلی جاتی ہے یا مصیبت کو ٹال دیتی ہے مگر دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔
کراچی میں ہمارے ایک سسرالی عزیز ہیں وہ آج کل دعائوں کے سہارے برزخ میں زندگی کررہے ہیں ان کی کہانی دلچسپ بھی ہے اور پرملال بھی۔ وہ سرکاری ملازم تھے کسی ذمہ دار عہدے پر بھی تھے ریٹائرمنٹ پر کافی روپیہ انہیں ملا تو پتہ نہیں ایک ساتھ اتنی رقم دیکھ کر خوشی سے یا پھر ان کی آئی ہوئی تھی کہ اچانک وہ فوت ہو گئے، وفات کے کچھ دنوں بعد اپنی بیگم کے خواب میں آئے بیگم نے پوچھا کہو کیسے گزر رہی ہے موصوف نے کہا گزر تو قدرے ٹھیک ہی ہورہی یہاں بھی زندگی کے ہنگامے ہیں البتہ جب روزانہ الگ سے ایک لائن لگتی ہے جو دنیا میں نماز نہیں پڑھتے تھے ان کی تو اس لائن میں خود کو کھڑا دیکھ کر بہت شرم آتی ہے تم کچھ کرونا تاکہ میں اس شرمندگی سے بچ جائوں‘‘۔
بیگم صاحبہ نے صبح علاقے کے امام سے جاکر خواب بیان کیا مولوی صاحب نے کہا کوئی بات نہیں ان کی بارہ سال سے لے کر وفات تک کے دنوں کی نماز کا حساب کرکے فدیہ ادا کردیں مرنے والے پر قبر کی منزلیں آسان ہو جائیں گی۔ بیگم نے حساب لگوایا تو مولوی صاحب نے پانچ کے بجائے روزانہ چھ نمازوں کے حساب سے رقم کا تخمینہ لگایا امام صاحب نے کہا کہ ’’وتر‘‘ نماز عشاء کا حصہ نہیں ہے بلکہ الگ سے ایک نماز ہے جو رات پچھلے پہر تہجد سے پہلے پڑھی جاتی ہے اور یہ چھٹی نماز ہے خیر مولوی صاحب نے جمع تفریق کرکے اتنی رقم بناکر دے دی کہ جتنے روپے مرنے والے کو ریٹائرمنٹ پر ملے تھے اب اگر گھر والے نماز نہ پڑھنے کا تاوان مولوی صاحب کو دیتے ہیں تو خود بے گھر ہو جاتے ہیں اگر اپنی بے خانمائی بچائیں تو مرنے والا قطار میں کھڑا دکھائی دیتا ہے لہٰذا گھر والوں نے ایک اور مولوی صاحب سے مشورہ کیا اور اپنی مشکل بتائی تو ان مولوی صاحب نے کہا کہ اگر وسائل نہ ہوں تو کوئی بات نہیں اسلام دین فطرت ہے آشتی کا پرچارک ہے جبر اسے بالکل بھی پسند نہیں لہٰذا آپ سب گھر والے ان کے لئے دعا کرتے رہا کریں تاکہ اللہ پاک مرنے والے کی مشکلیں آسان فرمائے یوں ہمارا وہ سسرالی عزیز دعائوں کے سہارے برزخ گزار رہا ہے البتہ اتنی تبدیلی ضرور آگئی ہے کہ مرنے والے کے لواحقین سارے کے سارے نمازی ہو گئے ہیں چھ چھ سات سات نمازیں پڑھی جارہی ہوتی ہیں حتیٰ کہ اشراق اور چاشت بھی شروع کر دی گئی ہیں! بس شرمندگی کی اس ایک قطارے کے خوف نے سارا گھر نمازی کردیا ہے۔
تازہ ترین