• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر کار26ویں آئینی ترمیم دونوں ایوانوں، سینٹ اور قومی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت سے منظور ہوگئی جیسا کہ گزشتہ کالم میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ 21اکتوبر کویہ ترمیم منظور ہوجائے گی۔اس آئینی ترمیم کے حق میں سینٹ سے65اور قومی اسمبلی سے225ووٹ آئے۔ یقیناً یہ حکمران اتحاد کی بڑی کامیابی ہے لیکن اس کامیابی میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام کے علاوہ سوائے پی ٹی آئی کے دیگر حامی جماعتوں اور آزاد اراکین بھی شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس ترمیم کو منظور کرانے میں بلاول بھٹو زرداری کا اہم کردار ہے۔ انکے علاوہ مولانا فضل الرحمان کا بھی اس حوالے سے مثبت کردار ہمیشہ یادرکھا جائے گا۔اس ترمیم میں2028ءتک سود کے خاتمہ کرنے کی شق شامل کرا کے مولانا فضل الرحمان نے اپنے والد مولانا مفتی محمود علیہ رحمۃ کی یاد تازہ کردی۔ 1973ءکے آئین کے بانیوں میں انکے والد مرحوم ومغفور کااہم کردار تھا جو تاریخ میں آج بھی زندہ ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس ترمیم کے حوالے سے جو کردار ادا کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ رہے گا۔

وزیر اعظم شہباز شریف کا بھی اس آئینی ترمیم میں اہم کردار اس لچک اور مفاہمت کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس ترمیم کی کسی شق کو ذاتی مفاد یا انا کا مسئلہ نہیں بنایا بلکہ مفاہمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سب کی رضامندی اور باہمی اتفاق کو اولیت دی۔عوام کواس ترمیم سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ ہزاروں مقدمات جو کئی سالوں سے سماعت اور فیصل ہونے کے منتظر تھے اور عام لوگوں کی سنوائی کے بجائے سیاستدانوں اور بڑے لوگوں کے مقدمات کی تو صرف درخواست صبح دینے پر دوپہر کو سماعت ہوجاتی تھی ، اس تفریق اور امتیاز سے نجات مل جائے گی اور انصاف کیلئے سالہا سال سے ترستے عام آدمی کی بھی باری آئے گی۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ اس ترمیم سے اعلیٰ عدلیہ کے اختیارات کم ہوجائیں گے حقیقت یہ ہے کہ اس ترمیم سے عدلیہ کی غیر ضروری ذمہ داریوں اور بوجھ میں کمی آئے گی۔ سیاسی، آئینی اور غیر ضروری درخواستوںاورمقدمات کے بجائے عدلیہ عام آدمی کو انصاف دینے میں زیادہ وقت دے سکے گی اور اس طرح نہ صرف130نمبر والا الزام ختم ہوگا بلکہ معزز جج صاحبان کی نیک نامی ہوگی اور تیرا حج میرا جج والا چکر بھی ختم ہوجائیگا ۔

سینٹ میں تمام اراکین نے نہ صرف اہم کردار ادا کیا بلکہ اچھی تقاریر بھی کیں لیکن اگر ایمل ولی خان کی تقریر کو بہترین کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ انہوں نے پاکستانی عوام کے پاک فوج اور دفاعی اداروں کے بارے میں جذبات کی زبردست ترجمانی کی۔ ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ پی ٹی آئی جماعت نہیں بلکہ ایک فرد ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت اور مرضی کے بغیر پی ٹی آئی کا کوئی ’’رہنما‘‘ ایک قدم بھی آگے پیچھے نہیں کرسکتا ورنہ وہ پھر کسی کا لحاظ نہیں کرتے جس کا تازہ مظاہرہ جیل ذرائع کے مطابق دوتین دن قبل دیکھا گیا ۔ وہ الگ بات ہے کہ ملاقات میں جو ہدایات بانی کی طرف سے ملتی ہیں، ڈانٹ ڈپٹ ہوتی ہے یا بانی جو رہائی کیلئے بے تاب ہیں اپنی رہائی پر زور دیتے ہیں باہر آکر میڈیا کو کچھ اور سنایا جاتا ہے ۔ ایمل ولی خان نے اپنے خطاب میں اپنے پر دادا اور دادا مرحوم کا جوذکر کیا ہے وہ ایسی حقیقت ہے جس سے سب واقف ہیں اور وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ان کے پر دادا خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان نے توزندگی کا نصف سے زیادہ حصہ قیدوبند میں گزارا تھا اسی طرح ان کے دادا خان عبدالولی خان کی زندگی جہد مسلسل کانام ہے۔ ایمل ولی خان کا گھرانہ بلاشبہ ایک سیاسی یونیورسٹی کادرجہ رکھتا ہے۔ انہوں نے نومئی کو دفاعی تنصیبات اور سرکاری ونجی املاک کو جلانے اور نقصان پہنچانے والوں کو سخت ترین سزا دینے کا پر زور مطالبہ کیا۔

بلاول بھٹو زرداری نے ایک نوجوان سیاستدان کے طور پر جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سے نظر آتا ہے کہ وہ مستقبل کے بڑے اور کامیاب سیاستدان کے طور پر نظر آئیں گے۔ غیب کا علم تو خدا جانتا ہے لیکن آج ہم علم الاعداد کے حوالے سے چند باتیں عرض کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ علم الاعداد کے مطابق مستقبل میں پیپلز پارٹی سب سے بڑی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی اور الیکشن جب بھی ہوئے تو اس کے نتیجے میں بلاول بھٹو زرداری ملک کے وزیر اعظم ہونگے۔ پی ٹی آئی دودھڑوں میں تقسیم ہوتی نظر آرہی ہے، پنجاب میں بالخصوص اور باقی صوبوں میں بالعموم پی ٹی آئی کے بہت سارے لوگ پیپلز پارٹی میںشامل ہونگے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ(ن) کے لوگ پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام میں شامل ہونگے۔ جب بھی الیکشن ہونگے صوبہ کے پی کے میں جے یو آئی اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور جےیو آئی کی اتحادی اور مضبوط حکومتیں قائم ہونگی ۔ جے یو آئی کو وفاق میں بھی اہم حصہ ملے گا۔ کے پی کے میں جے یو آئی کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی بھی حکومت میں شامل ہوگی۔ پنجاب میں چند غیر سیاسی اور کاروباری شخصیات کو بھی آئندہ حکومت میں اہم عہدے ملیں گے اسی طرح وفاق میں بھی نمائندگی ہوگی۔ مسلم لیگ(ن) کا مستقبل بہت محدود نظر آرہا ہے۔ یہ جماعت صرف پنجاب تک محدود ہوتی نظر آرہی ہے اور بمشکل چند نشستیں حاصل کرسکے گی۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی مضبوط گرفت اور روشن مستقبل نظر آرہا ہے۔اس تمام تناظر میں مستقبل میں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا اہم کردار ہوسکتا ہے۔ پی ٹی آئی کا مستقبل کچھ خاص نظر نہیں آرہا اور ن لوگ بھی ایک جماعت ہی نظر آرہی ہے جس کا حکومتی حوالے سے کوئی خاص کردار نہیں ہوگا۔ علم الاعداد کے مطابق پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ساتھ زیادہ چلتا نظر نہیں آرہا اور مستقبل قریب میں بڑی تبدیلیاں ہوتی نظر آرہی ہیں۔

تازہ ترین