• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر مملکت آصف علی زرداری کی منظوری کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہےاور وہ ہفتے کے روز ایوان صدر میں منعقدہ تقریب میں حلف اٹھائیں گے۔ قبل ازیں ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں آج جمعہ 25اکتوبر کو ساڑھے دس بجے الوداعی ریفرنس ہورہا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ جمعرات کو عمرے کے لئے روانہ ہوگئے۔ جہاں تک 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری اور نئے چیف جسٹس کی نامزدگی و تقرر کا تعلق ہے، سندھ اسمبلی نے بدھ کو اپنے اجلاس میں 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں کثرت رائے سے قراردا د منظور کی۔ وکلا برادری کی طرف سے آنے والے متعدد بیانات بھی اس باب میں خیرمقدم کا تاثر نمایاں کرتے ہیں۔ نئے چیف جسٹس کو جن حالات میں کام کرنا ہیں، ان میں مقدمات کی سماعت کے لئے علیحدہ بنچوں کے قیام، ججوں کی مطلوب تعداد اور آئینی پیکیج میںبعض امور کی نظراندازی سمیت کئی پیچیدگیاں ہیں جن کے سلجھائو کی ضرورت ہوگی۔ 26ویں آئینی ترمیم کا ایک مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ سیاسی و آئینی مقدمات کے علیحدہ فیصلے کے طریق کار سے دیگر مقدمات سننے کیلئے مناسب وقت دستیاب ہوگا۔ اس طرح عام نوعیت کے معاملات میں جلد دادرسی کی امید کی جاسکتی ہے۔ ایک خبر کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد آئینی بنچوں کو ٹرانسفر کرنے کا عمل شروع کردیا جائیگا۔ سپریم کورٹ اور پانچوں ہائیکورٹس کی آئینی درخواستوں، پٹیشنز کے فیصلے آئینی بنچ کرینگے۔اس طرح 20لاکھ سے زائد کیسوں کے سائلین کو کم وقت میں انصاف کی فراہمی مممکن ہوگی۔ اس امید کا ایک سبب ہائیکورٹوں کے ججوں کی کارکردگی کا جوڈیشل کمیشن کی طرف سے وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہنے کا عمل بھی ہوسکتا ہے۔ سوموٹو کیس، فرمائشی درخواستوں رٹ پٹیشن میں با ل کی کھال نکالی جاتی ہے جن سے خاندانی وراثت، زمینوں کے جھگڑے کئی کئی عشروں تک فیصلوں کے منتظر رہے ہیں۔ اس معاملے کا ایک پہلو یاالجھن یہ ہے کہ جب تک آئینی اور دیگر مقدمات کی سماعت کے طریق کار میں تفریق کا مسئلہ پوری طرح واضح نہیں ہوگایہ سوال آئے روز سامنے آتا رہے گا کہ کیس عام بنچ سنے یا اسے آئینی بنچ کے روبرو پیش کیا جائے۔ بہت سے عوامی حقوق بنیادی آئینی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں، ا نکی سماعت کے لئے درست بنچ کے بر وقت تعین پر توجہ دینی ہوگی۔ ماہرین قانون کی طرف سے آئینی پیکیج کی مسودہ سازی میں بعض ایسے امور کی نشاندہی کی گئی ہے جو الجھائو کا سبب بن سکتے ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ آئین میں 27ویں ترمیم معرض التوا میں ڈال دی گئی جس کے لئے 26ویں ترمیم کے حوالے سے سامنے آنے والی ضرورتوں کو ملحوظ رکھا جاسکتا ہے۔ آئین سازی اور قانون سازی ایک مسلسل عمل ہےجو معاشرتی تبدیلی کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ آج کے سائنسی دور میں جہاں ہر روز نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں وہاں نئے مسائل بھی پیدا ہورہے ہیں جن کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ عدالتوں میں مقدمات کے جلد فیصلوں کے لئے علیحدہ بنچوں کی تدبیر کی اپنی اہمیت ہے۔ مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی پریشان کن تعداد اس بات کی متقاضی ہے کہ ان کے تنازعات و اختلافات کے فیصلوں سمیت دادرسی کے سستے اور بلاقیمت طریقے بھی وضع کئے جائیں۔ بالخصوص عائلی نوعیت کے معاملات لوکل گورنمنٹ کی سب سے چھوٹی سطح پر طے کرنے کا نظام موجود ہو۔ اس باب میں پہلے سے موجود بعض منصوبوں کو بروئے کار لاکر بھی مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ہمارے سماجی نظام کی پرانی روایتوں جرگہ، پنچایت، ثالثی، مصالحتی عدالتوں کے طریقوں سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین