پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور سے کوئی اختلاف نہیں، میں ان کا مداح ہوں۔
’جیو نیوز‘ کے مارننگ شو ’جیو پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے شیر افضل مروت نے کہا کہ میرا کسی سے اختلاف نہیں ہوتا، لوگ خواہ مخواہ میرے پیچھے لگ جاتے ہیں، تو انہیں جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ علی امین گنڈاپور کے بہت سے اقدامات کی تعریف کی ہے، وہ وزیرِ اعلیٰ ہیں، احتجاج میں ان کے کردار کا ن لیگ اور دیگر جماعتیں ناجائز فائدہ اٹھاتی ہیں۔
شیر افضل کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتیں کہتی ہیں کہ صوبے نے مرکز پر چڑھائی کر دی اور سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے، احتجاج میں علی امین کے بجائے قیادت کو آگے کریں گے، ہم گنڈاپور کی سپورٹ سے مستفید ہو سکتے ہیں، ان کے احتجاج کو جواز بنا کر گورنر راج کے لیے بھی راستہ ہموار ہو سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے پلیٹ فارم سے پہلے بھی احتجاج کامیاب رہے ہیں، احتجاج، احتجاج کمیٹی کے سپرد ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ میں نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف آواز اٹھائی تو کہا گیا ہمیں ان پر اعتماد ہے، یہ پارٹی مؤقف نہیں، شیرانی صاحب کے ساتھ اتحاد کے موقع کو ضائع کیا گیا، 8 فروری کو مینڈیٹ چوری ہوا، کوئی کارروائی نہ کر سکے، بس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ گئے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما نے کہا کہ ضمنی انتخابات میں ہم تقریباً تمام نشستیں ہار گئے، فارم 47 کا استعمال ہوا، دھاندلی ہوئی، ہماری کارکردگی صرف عوام کے آگے رونے پیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں تھی۔
شیر افضل کا مزید کہنا ہے کہ ہمارے 11 ایم این اے اور 2 سینیٹر ہم سے الگ ہو گئے یا ٹوٹ گئے، یہ ہماری ناکامی تھی، ورنہ یہ آئینی ترمیم کہاں سے ہوتی، ابھی تک ہم کسی سیاسی پارٹی کو اپنے مؤقف پر احتجاج کے لیے قائل نہیں کر سکے، اس وقت شور شرابہ دیکھنے کو ملتا ہے جب سینیٹ کی نشستیں پوری کرنی ہوتی ہیں، یا سازشیں یا پھر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا ہوتی ہیں، بہرحال یہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ خان صاحب سے ملوں گا، ان سے پہلے بھی کہا تھا کہ احتجاج کمیٹی بنا دیں، کور کمیٹی ہے، جس کے 70 سے 80 ممبران ہیں، وہاں کہاں سے اتفاقِ رائے ہو گا؟ اس کمیٹی سے زیادہ ضرورت پارٹی کے اندر جو ذاتی اختلافات ہیں انہیں ختم کرنے کی ہے، خان کے بعد ہماری کوئی سیکنڈ لیڈر شپ نہیں ہے۔