پاکستان کے دورے پر آئے عالمی مبلغ مسلسل خبروں کی زد میں ہیں۔آخری تجزیے میں موصوف کی وجہ ء شہرت حافظہ ہی تھا۔ ایک لمحے میں نہ صرف اپنی بلکہ دوسرے مذاہب کی کتابوں سے بھی حوالہ پیش کر دینا۔ باقی جو ان کا طرزِ فکر ہے، اس میں اور ملّا عمر کی سوچ میں کیا فرق ہے۔ فرق اگر ہے تو یہ کہ وہ تلوار اٹھانے کے قابل نہیں۔ آج کل جو اقوالِ زریں البتہ ان کی زبانِ مبارک سے ادا ہو رہے ہیں، ان کی وجہ سے ملحدین کیلئے ہمارا مذاق اڑانا بے حد آسان ہو گیا ہے۔
ان دو ہفتوں میں کون سا کارنامہ انہوں نے سرانجام نہیں دیا۔ خواجہ سرا ؤں کیلئے ”چھکا“ کا لفظ استعمال کیا، جس پر سوال پوچھنے والی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ شادی نہ کرنے اور تنہا زندگی گزارنے والیوں کو انہوں نے پبلک پراپرٹی اور بازاری عورتیں قرار دیا۔ایک گھسا پٹا استدلال پیش کیا کہ ریپ کرنے والے کے ساتھ ریپ ہونے والی بھی ذمے دار ہے۔ ایک خاتون اینکر بیچاری دوپٹہ لے کر ان سے گفتگو کر رہی تھی۔ فرمایا: میک اپ کی ہوئی خاتون اینکر کو جو مرد بیس منٹ دیکھتا رہے اور پھر بھی اس کے دماغ میں ہلچل نہ ہو تو اسے علاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی ملحوظ نہیں رکھا کہ اس وقت وہ ایک خاتون اینکر سے ہی بات کر رہے ہیں۔ اخلاق کا تقاضا یہ ہوتاہے کہ اگر ایک شخص کوئی گناہ کر بھی رہا ہے مگر وہ آپ کی بات توجہ سے سن رہا ہے تو آپ پہلے ہی قدم پر اسے سزائے موت نہ سنا دیں۔ اس کے بعد اصلاح کی کون سی گنجائش باقی رہے گی۔
ان کا طرزِ عمل کہیں سے بھی ایک عالمی مبلغ کا طرز عمل نہیں تھا۔ مثلاً یتیم لڑکیاں اگر بالغ بھی تھیں تو انہیں صرف شیلڈ دینے کا کہا گیا تھا اور وہ بھی سب کی موجودگی میں۔ ان کا ردّعمل ایسا تھا، جیسے انہیں بالغ خواتین کے ساتھ کسی اندھیرے کمرے میں بند کر دیا گیا ہو۔ دنیا بھر میں ایسے لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔ ہر قسم کی خواتین سے واسطہ پڑتا ہے۔ جس مبلغ کو فیشن ایبل عورت دیکھ کر دورہ پڑ جائے، وہ کیا اسے دین کی طرف بلائے گا؟ یہ طرزِ عمل سفید داڑھی والے ادھیڑ عمر اور بال بچے دار مبلغ کا نہیں بلکہ کسی کنوارے لونڈے کا سا تھا۔
افسوس اس بات کا ہے کہ شریعت کو مبلغین نے تلوار بنا لیا ہے، جس سے صرف گردنیں کاٹی جا سکتی ہیں۔ ایک اور بیچاری خاتون نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ میں شوبز سے تعلق رکھتی ہو ں۔پہلے میں دین سے دور بلکہ ملحد ہو گئی تھی۔ آپ کی وجہ سے رفتہ رفتہ ہدایت کی طرف لوٹ آئی ہوں۔ سوال کرنے والی کا لباس بتا رہا تھا کہ ہنوز وہ شوبز سے تعلق رکھتی ہے۔ مبلغ صاحب نے فرمایا: بہن کہہ رہی ہے کہ پہلے میں شوبز میں تھی، گمراہ تھی، اب آپ کی وجہ سے ہدایت ملی ہے اور شوبز چھوڑ دیا ہے۔اس نے یہ کب کہا؟ وہ تو یہ کہہ رہی ہے کہ میں خدا کی طرف پلٹ آئی ہوں مگر ہوں ہنوز شوبز میں ہی۔ دعوت کے تمام تقاضے نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے یہ واضح کر ڈالا کہ وہ کاہے کا ہدایت یافتہ جو شوبز میں ہو؛ حالانکہ انہیں کہنا صرف یہ چاہئے تھا کہ ہماری بہن ہدایت کی طرف لوٹ رہی ہے۔خدا اسے اس راستے پر آگے سے آگے لے جائے۔کچھ سال پہلے ایک مبلغ نے جب یزید کو ہدایت یافتہ ثابت کرنے کی کوشش کی، اسی دن پردہ اتر گیا تھا۔ جس کے دل میں غمِ حسینؓ نہ ہو وہ کاہے کا مسلمان۔ لطیفہ تو یہ ہے کہ ملحد کہیں خطاب کرنے آتے ہیں تو عورتوں کے سامنے کھڑے ہو کر پورے اعتماد سے گفتگو کر کے چلے جاتے ہیں۔ ادھر دوسری طرف ہمارے مذہبی نابغے، جن کی پوری زندگیاں نماز، روزے، اذکار اور اپنے نفس کا گلا گھونٹنے میں گزرتی ہیں، خواتین کو دیکھ کربے ہوش ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو پوری دنیا کا سفر کرنا ہوتاہے۔ اگر کبھی کسی ہوٹل کی لفٹ میں اکیلے کسی حسین اور طرح دار خاتون کے ساتھ دو منٹ بتانا پڑ جائیں تو شاید لاش ہی باہر نکلے۔
یہی ہمارا المیہ ہے۔ مبلغین کا حال تورا بورا میں روپوش یاجوج ماجوج کا سا ہے، جن کے نزدیک ان کے علاوہ سب گمراہ ہیں۔ یا پھر وہ ہیں، جو دوسروں کو توکل کا درس دیتے دیتے خود بے تحاشا امیر ہو چکے ہیں۔ اکثر مریدوں کی کثرت کے بعد اس ذہنیت کا شکار ہو جاتے ہیں کہ شریعت میں جو مرضی لکھا ہو، حق وہی ہے، جو ہماری زبان سے ادا ہو۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بالآخر ان کی ذات کے تضاد معاشرے کے سامنے کھل جاتے ہیں۔ یہ جو آپ کے سامنے عالمی مبلغ کے تضاد اس کی اپنی زبان سے کھل رہے ہیں، یہ درحقیقت خدا کے اسی اصول پر عمل ہو رہا ہے۔ کسی بھی شخص کی اصل اور ظاہرمیں اگر تضاد ہوگا تووہ ظاہر ہو کر رہے گا۔ ہاں البتہ اگر اللہ کسی کو ڈھانپے رکھے تو اسے کون روک سکتا ہے۔
ہمارے مبلغین کا المیہ البتہ یہی ہے کہ اپنے زمانے کو وہ سمجھ نہ پائے۔ ان کی مانیں تو اپنے اپنے مصلے لے کر آپ ریگستان کی طرف نکل جائیں۔ یا وہ ہیں، جنہوں نے اس کا م کو کاروبار بنایا اور اپنی دولت میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ کیا۔ میرے جیسا ایک عام گناہگار حیرت زدہ ہےکہ
خداوند ایہ تیرے سادہ دل بندے کدھرجائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے، سلطانی بھی عیاری