• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دانیال حسن چغتائی ، کہروڑ پکا، لیّہ

علاّمہ اقبال صرف شاعر ہی نہیں، ایک عظیم المرتبت مفکّر اور بلند پایہ فلسفی بھی تھے۔ اور شاعر بھی ایسے نہیں کہ جن کے ہاں رومان پروری، نام نہاد عشق و عاشقی کا عُنصر اس درجہ غالب ہو کہ ذہن زمینی حقائق اور سنگلاخ سچّائیوں ہی سے منہ موڑ لے۔ انہوں نے فکر و فن کی دُوئی کو ایک نا قابلِ تقسیم اکائی میں تبدیل کیا اور ادب برائے ادب کی تخیّلاتی دُنیا سے کنارہ کشی اختیار کی۔ 

وہ ایک ایسے شاعر تھے کہ جن کے ہاں ادب وسیع تر اسلامی و سماجی مقاصد کی تکمیل کا مستحکم ذریعہ تھا، جو نہ صرف انسان کے جمالیاتی ذوق کو تسکین فراہم کرتا تھا بلکہ اس کے عقل و وجدان، فکر و خیال اور سماجی و معاشرتی تصوّرات پر بھی ہمہ گیر طور پر اثر انداز ہوتا تھا۔ اقبالؒ جہاں بڑے شاعر تھے، وہیں اسلامی و ملّی درد رکھنے والے، قومی غیرت و حمیّت سے سرشار سچّے اور پکّے مسلمان بھی تھے۔ انہوں نے اُمّتِ مسلمہ کا اجتماعی شعور بیدار کرنے، اُسے فراموش ماضی کی یاد دہانی کروانے اور ’’خیر امم‘‘ کے مطلوبہ منصب پر لا کھڑا کرنے کے لیے پیمبرانہ مقاصد کے تحت شاعری کے ہتھیار سے کام لیا۔

علاّمہ اقبال کی تعلیم و تربیت ایسے دینی ماحول میں ہوئی تھی کہ اسلام، انبیاءؑ، صلحاء، صوفیاء اور علمائے کرام سے محبّت ایّامِ طفولیت ہی میں خمیر میں رَچ بس گئی تھی، حب کہ عشقِ نبویﷺ توگویا اُن کی شریانوں میں خُون بن کر گردش کرتا تھا۔ بخاری اور مسلم کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا کہ جب تک کہ میری محبّت تمہارے دل میں اولاد، والدین اور پورے انسانی کُنبے کی محبّت سے بڑھ کر نہ ہو۔‘‘ 

مذکورہ حدیث پیشِ نظر رکھتے ہوئے علاّمہ اقبال حُبِّ نبویﷺ اور عشقِ رسولﷺ کو ایمان کی بنیاد و اساس تصوّر کرتے تھے۔ آپﷺ کا نام زبان پر آتے یا سماعتوں سے ٹکراتے ہی اُن کے احساس و شعور میں گویا سوز و گداز کی برقی لہر دوڑ جاتی۔ اس موقعے پر وہ تفکّرات کی لا محدود دُنیا میں کھو جاتے، آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ ذکرِ نبوی ﷺکیا چھڑتا کہ شاعرِ مشرق پر ایک رِقّت سی طاری ہو جاتی اور وہ چند ثانیوں میں بے قابو اور بے تاب ہو جاتے۔

علاّمہ اقبال کی حضور ﷺ سے والہانہ عقیدت کا یہ عالم تھا کہ پنجاب کے ایک صاحبِ ثروت کی شان دار کوٹھی کے مخملیں بستر پر محوِ استراحت نہیں ہوئے اور پوری رات ایک کرسی پر بیٹھ کر روتے سِسکتے یہ کہتے ہوئے گزار دی کہ ’’جن رسولِ پاک ﷺکی جوتیوں کے صدقے، آج ہم کو یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے، اُنہوں نے بوریے پر سو کر زندگی گزار دی تھی۔‘‘ 

اگر چہ انہیں مدینہ منوّرہ اور روضۂ مطہرہ کی زیارت نصیب نہ ہو سکی اور مقدراتِ خداوندی کے تحت فریضۂ حج کی ادائی کی سبیل بھی موت تک نہ نکل سکی، لیکن سر زمینِ حجاز اور مدینہ منوّرہ کی زیارت کی تمنّا دل کے رگ و ریشے میں اس قدر پیوست تھی کہ گھنٹوں روضۂ نبویؐ کی سُنہری جالیوں کے تصوّر اور مکّہ و مدینہ کی سنگ ریزوادیوں کے تخیّل میں گزار دیتے تھے، جب کہ عُمر کے آخری حصّے میں جب شدید بیماری کے سبب اُن کے اعصاب کم زور ہو گئے تھے، تو یہ ایمانی آرزو اور زیادہ بڑھ گئی تھی۔

گرچہ شاعری کے دوام کے لیے عشق و محبّت کا عُنصربھی ضروری ہے کہ اسی ہی سے کسی فکر اور فلسفے کو آنچ ملتی ہے، لیکن اس عشق و محبّت کی کوئی انتہا ، کوئی خاص سمت۔ دُنیائے آب و گِل کا وجود، محبّت ہی کا رہینِ منت ہے۔ کیا انسان اور کیا حیوان، سبھی محبّت و عشق کی مقدّس زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ 

رُوئے ارضی کا ذرّہ ذرّہ عشق و محبّت کا منبع اور مرکز ہے کہ اگر عشق و محبّت کے پاکیزہ عناصر سے رُوئے ارضی خالی ہو جائے، تو دُنیا تاریکی و ظلمت، حیوانیت اور درندگی کی آماج گاہ بن جائے۔ یہ الگ بات ہے کہ عشق کے کئی مدارج ہیں اور اختلافِ مدارج ہی محبّت اور عشق کے تصوّرات کے حسن و قبح کا تعیّن کرتا ہے۔

سو، علاّمہ اقبال، عشق رسولﷺ کی دولت کو دُنیا و آخرت کی کام یابی کا مدار کہتے تھے۔ ایک بار کسی ملعون نے آپ کی محفل میں شانِ اقدسﷺ میں گستاخانہ الفاظ ادا کیے، تو آپ نے نہ صرف اسے اُسی موقعے پر سخت سُست کہا بلکہ تنبیہہ کے طور پر محفل سے بھی نکلوا دیا کہ حُبِّ نبویﷺ کا تقاضا یہی تھا۔ 

اقبال اپنے عمیق مطالعے اور مبنی بر تجزیہ مشاہدے کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اُمّتِ مسلمہ کی زبوں حالی اور اس کی مذہبی و سماجی مشکلات کے حل کی کلید ذاتِ نبویﷺ اور اسوئہ رسولﷺ میں پوشیدہ ہے۔ علاّمہ اقبال عموماً کسی مصیبت و پریشانی کے وقت درِ نبویؐ پر اپنی جبینِ نیاز خم کرکے آپﷺ کے تصوّر ہی سے اپنے مشامِ جان کو معطّر کرتے۔ آپ حضور رسالتِ مابﷺ کے درِ دولت پر اپنا دُکھڑا سُناتے اور بے کلی و بے چینی کا سامان تلاش کرتے۔ 

’’بانگ ِدرا‘‘ کی نظم، ’’خطاب بہ نوجوانانِ اسلام‘‘ میں انہوں نے مسلمان نوجوانوں کو انہی اسلامی خطوط پر غور وفکر کرنے اور انہیں اپنے بُھولے ہوئے ماضی کو یاد کرنے کی تلقین کی ہے کہ اسی طرح اُمّتِ مسلمہ کے درد کا مداوا کیا اور اُسے زندگانی کی پُرخار وادیوں سے بہ آسانی نکالا جاسکتا ہے۔ وہ ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں خدائی وعدے کی یاد دہانی کرواتے ہوئے یوں نغمہ سرا ہیں کہ ؎کی محمد ؐسے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں…یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید