• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی قوم کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کے ججوں کے باہمی تعلقات نارمل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان ججوں کی آپس میں لڑائیوں نے پوری دنیا میں پاکستان کا تماشا بنا رکھا تھا۔ ججوں کی آپس میں لڑائیاں کوئی نئی بات نہیں۔ دنیا بھر میں جج بھی آپس میں اسی طرح لڑتے ہیں جس طرح سیاستدان اور صحافی آپس میں لڑتے ہیں لیکن تماشا یہ تھا کہ پاکستان کے سیاستدان اور صحافی بغیر کسی شرم اور جھجک کے ’’تیرا جج اور میرا جج‘‘ کی لڑائی میں مصروف تھے۔ مختلف سیاستدان ججوں کے نام لیکر ان پر تنقید کرتے رہے اور نام لیکر انکی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے۔ میں نے بطور اخبار نویس سید افضل ظلہ، نسیم حسن شاہ، سجاد علی شاہ، سعید الزمان صدیقی، افتخار محمد چوہدری اور ثاقب نثار کو بطور چیف جسٹس بہت قریب سے دیکھا ہے۔ میں 1997ء میں سپریم کورٹ پر حملے کا عینی شاہد ہوں اور حملے پر تنقید کرنے کی پاداش میں مجھے ایک اخبار کی ایڈیٹر شپ بھی چھوڑنی پڑی۔ ایک اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی برطرفی پر تنقید کا نتیجہ پابندی کی صورت میں نکلا۔ جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک پابندی کا شکار ہوا تو میں نے سڑکوں پر کیپٹل ٹاک شروع کر دیا۔ صحافیانہ سرگرمی نے مزاحمت کا رنگ اختیار کیا تو افتخار محمد چوہدری کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ پہلی دفعہ پتہ چلا کہ جج صاحبان بھی سیاستدانوں اور صحافیوں کیساتھ نجی گفتگو میں ویسی ہی باتیں کرتے ہیں جیسی باتیں دوسرے کرتے ہیں۔ افتخار محمد چوہدری نے اپنی بحالی کے بعد جس طرح کھلم کھلا سیاست میں مداخلت شروع کی اس سے بہت مایوسی ہوئی۔ فیصلہ کرلیا کہ آئندہ کسی جج کیلئے اپنی نوکری کو دائو پر نہیں لگانا۔ یہ فیصلہ قائم نہ رہ سکا۔ عمران خان کی حکومت نے قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کیا تو محسوس ہوا کہ یہ غلط ہو رہا ہے اور ایک دفعہ پھر ہم نے اپنےقلم کو تلوار بنا کر قاضی صاحب کا دفاع شروع کردیا۔ بہت لوگوں نے سمجھایا کہ قاضی صاحب کا دفاع نہ کرو کیونکہ یہ تو افتخار محمد چوہدری سے بھی بڑا سیاستدان ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ جب براہ راست بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے تو انکی تقرری کیخلاف ساجدترین نے ایک درخواست دائر کی تھی۔ قاضی صاحب نے اس درخواست کا سامنا کرنے کی بجائے کچھ وکلا اور سیاستدانوں کو بیچ میں ڈالا۔ ساجد ترین کاتعلق بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سے ہے۔ ان سے کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرا دینگے۔ اس یقین دہانی پر ساجد ترین نے اپنی درخواست واپس لے لی۔ ایک اور درخواست ریاض راہی نے دائر کی تھی۔ یہ واپس نہ ہوئی اور سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر ہوگئی۔ 2018ء میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس درخواست پر سماعت شروع کی تو ایک دفعہ پھر قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں سفارشیں کرانی شروع کر دیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب میڈیا کمیشن کیس کی سماعتیں جاری تھیں اور بطور درخواست گزار مجھے عدالت میں جسٹس ثاقب نثار کے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ مجھے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے سفارش کروا کے کام نکلوا لیا ہے تم بھی سفارش کروا کے جان چھڑا لو کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ عدالت تمہیں غیر ضروری معاملات میں الجھا رہی ہے۔ میں نے یہ مشورہ نظر انداز کر دیا اور صورتحال ایسی بنی کہ ایک دفعہ پھر مجھے استعفیٰ دینا پڑ گیا لیکن قاضی فائز عیسیٰ نے اپنا کام کروا لیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے انکے خلاف درخواست کو مسترد کردیا۔ میں جسٹس ثاقب نثار صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ آج یہ بات لکھ رہا ہوں لیکن جن دو صاحبان نے ان سے قاضی فائز عیسیٰ کی سفارش کی تھی انکے نام ثاقب نثار کو ضرور بتا دینے چاہئیں۔ شاید ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس اپنے ایک ساتھی جج کومشکل سے نکالا تاکہ ججوں میں اتحاد و اتفاق قائم ہو۔ اب قاضی فائز عیسیٰ مانیں یا نہ مانیں انکی مشکلات کا دور ثاقب نثار کے جانے کے بعد شروع ہوا۔ قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس نے سپریم کورٹ کے ججوں کوتقسیم کردیا۔ عمر عطا بندیال کے دور میں جج صاحبان کی لڑائیاں عام ہوئیں اور قاضی فائز عیسیٰ کے ایک سال میں لڑائی اتنی بڑھی کہ جج صاحبان نے صحافیوں کے ذریعہ ایک دوسرے پر حملے شروع کردیئے۔ شروع شروع میں جسٹس منصور علی شاہ کو قاضی فائز عیسیٰ کا اتحادی سمجھا جا تا تھا لیکن پھر وہ قاضی صاحب کے مخالف گروپ میں چلے گئے۔ منصور علی شاہ سینئر ترین جج تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ کے بعد انہیں چیف جسٹس بننا تھا۔ میری ناچیز رائے میں انکا راستہ 26 ویں آئینی ترمیم نے نہیں بلکہ تحریک انصاف نے روکا ہے۔ تحریک انصاف نے 26ویں آئینی ترمیم کے ابتدائی مسودے کو مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے تبدیل کرایا۔ تحریک انصاف نئے چیف جسٹس کی تقرری کیلئے 12رکنی پارلیمانی کمیٹی پر بھی راضی ہوگئی۔ آخر میں تحریک انصاف نے 26ویں ترمیم کی مخالفت کر دی لیکن پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت پر راضی ہوگئی۔ تحریک انصاف اور جے یو آئی کا خیال تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کیساتھ ملکر 12رکنی پارلیمانی کمیٹی میں سات یا آٹھ ووٹوں سے منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنوالیں گی۔ آخری وقت پرتحریک انصاف نے کمیٹی کابائیکاٹ کردیا۔ پیپلز پارٹی نے دیکھا کہ تحریک انصاف کمیٹی سے نکل گئی ہے اور ووٹ کم پڑ گئے ہیں تو انہوں نے مسلم لیگ ن کو ناراض کرنا مناسب نہ سمجھا اورجسٹس یحییٰ آفریدی پر اتفاق کرلیا۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس بننے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو شامل کرلیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نئے چیف جسٹس آئین و قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کے مقدمے میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا موقف پسند نہیں آیا تھا۔ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی کیونکہ اس نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ تحریک انصاف کے وکلا نے نئے چیف جسٹس کی تقرری کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے لیکن وہ بھول گئے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے تحریک انصاف کے 103کارکنوں اور رہنمائوں پر 9 مئی 2023ء کے واقعات میں آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کی مخالفت کی تھی۔ بہرحال قاضی فائز عیسیٰ کی رخصتی کیساتھ ہی نواز شریف بھی بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ انکی بیرون ملک روانگی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم اتنی جلدی نہیں آئے گی۔ حکومتی ذرائع کا کہناہے کہ نواز شریف جلد واپس آ جائینگے اور 27 ویں آئینی ترمیم وہ نواز شریف کے بغیر بھی منظور کرا سکتے ہیں۔ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ بلاول صاحب نے بتا دیا کہ 26 ویں ترمیم قاضی فائز عیسیٰ کی وجہ سے منظور ہوئی۔ 27ویں ترمیم کیلئے نئے چیف جسٹس کی سیاسی خدمات میسر نہیں ہیں۔ بہتر ہے ریاستی اداروں کو سیاست میں مزید نہ الجھائیں۔

تازہ ترین