حالات نے اچانک پلٹا کھایا اور چشم زدن میں بشریٰ بی بی کی ضمانت منظور ہوگئی اور انہیں کسی تردد کے بغیر رہا کردیا گیااور پھر اگلے روز ہی بانی پی-ٹی-آئی کی دو گرفتار بہنوں کو بھی ضمانت پر رہا کردیا گیا۔نظریۂ سازش پر یقین رکھنے والے سیاسی کارکن ہر سیاسی فیصلے پر اپنی ذاتی منفی یا مثبت رائے قائم کرنا اور اس پر غلط یا صحیح سوچ مسلط کرنا اپنی سیاسی دانشوری تصور کرتے ہوئے ہیں اسی سلسلے میں گزشتہ ہفتے کے دوران بڑے واقعات رونما ہوئے، ایک بشری بی بی کی رہائی اور دوسرا وفاقی دارالحکومت سنگجانی پولیس اسٹیشن کی حدود میں پاکستان تحریک انصاف سےوابستہ قیدیوں کی تین قیدی وینوں پر مبینہ طور پر چھڑانے کےلئے حملہ کردیا۔یہ دونوں واقعات سازش کے نظریہ کی نذر ہو رہا ہے۔دونوں اطراف کے سیاسی دانشور انتہائی بے شرمی کے ساتھ سوشل میڈیا کا اپنا اپنا جھوٹ سچ پھیلانے کی کوششوں میں مشغول ہیں۔ایک سیاسی گروپ جو حکومتی پارٹی سے لگاؤ رکھتا ہے، بشریٰ بی بی کی رہائی کو شک کی نظر سے دیکھتا ہے اور اسے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل قرار دے رہا ہے اور اس کا ماننا ہے یہ پاکستان تحریک انصاف کو گروپوں میں تقسیم کرنے اور پرانے اور نئے رہنماؤں کو علیحدہ علیحدہ کرنا اس مبینہ ڈیل کا بنیادی مقصد ہے جس کے آثار بشریٰ بی بی کی رہائی کے فوراً بعد پی-ٹی-آئی وکلاء تنظیم میں شدید اختلافات کی صورت میں سامنے آنے لگے ہیں جبکہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخواء علی امین گنڈاپور کے باغیانہ رویے میں واضح تبدیلی کسی ان دیکھی قوت کی اطاعت قبول کرنے کی جانب اشارہ ہے۔ اگرچہ بشریٰ بی بی نے باقاعدہ طورپر سیاسی سرگرمیوں کا آغاز نہیں کیا لیکن تاثر یہی ہے کہ اس مقصد کے لئے’’محفوظ مقام‘‘پر پہنچ چکی ہیں۔ گزشتہ جمعہ کے روز پیش آنے والے قیدیوں کی پرزن وینز پر حملے کےواقعہ پر تحریک انصاف کی قیادت نےابتدائی طورپرحسب عادت اعتراضات اٹھائے اور اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کی بھرپور تردید کی لیکن رفتہ رفتہ خاموشی طاری ہوگئی جس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پولیس پرزنر وینز حملہ کیس کے پیچھے ایسے کرداروں کی تلاش میں ہے جن کے ہاتھ میں حملہ آوروں کا ریموٹ کنٹرول ہے، پولیس کا دعویٰ ہے حملہ کے منصوبہ سازوں کو جلد بے نقاب کیا جائے گا-اسلام آباد پولیس نے تحریک انصاف کے 82 قیدیوں کے خلاف طے شدہ پیشگی منصوبہ بندی کے تحت فرار کی کوشش کے الزامات میں دہشتگردی کے دو دفعات سمیت تعزیرات پاکستان کے 12دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کردیا ہے- اس سلسلے میں تھانہ سنگجانی پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر کی مدعیت میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ (ایف-آئی-آر) درج کر لی گئی ہے۔جمعہ کی رات تاخیر سے درج کی جانے والی ایف آئی آر نمبر 813/24 میں انسداد دہشتگردی کی دفعات 7 اور(I) 21 اور آرمز اینڈ ایمونیشن کی دفعہ کے علاوہ تعزیرات پاکستان کی دفعات324/353/186/427/440/24/ 109/148/149 کے تحت مقدمہ درج کرکے قیدی وینوں میں سوار تمام 82 قیدیوں کو فرار کی سازش میں شریک قرار دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ D چوک میں پرتشدد مظاہرے میں گرفتار تحریک انصاف ان 82 کارکنوں کو جمعہ کے روز جب تھانہ سیکرٹریٹ کے علاقہ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تو اس موقع پر قیدیوں کی پراسرار سرگرمیاں دیکھی گئیں جو فرار کی سازش کا حصہ تھا۔ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پیشی کے دوران ان قیدیوں نے ہم مشورہ ہوکر فرار کی منصوبہ بندی کی تھی۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے یہ قیدی تین پرزنر وینز میں بھرپور سیکیورٹی کے اسکواڈ میں اٹک جیل منتقل کرنےکے لئے روانہ ہوئے اور جب سنگجانی ٹول پلازہ کے قریب پہنچا تو وہاں پہلے سے گھات لگائے بیٹھے مسلح افراد نے فائرنگ شروع کردیا اور پولیس سے مزاحمت کرتے ہوئے ملزمان کو چھڑوا لیا۔حملہ آوروں نے آہنی راڈوں سے پرزنر وینوں کے تالے توڑے اور قیدیوں کو باہر نکال لیا اور حملہ آوروں اور قیدیوں نے مل کرپولیس پر پتھرائوشروع کردیا۔اس دوران تین پولیس اہلکار، سب انسپکٹر محمد رمضان اور کانسٹیبلز عبدالحمید اور منصف زخمی ہوئے۔ پولیس نے فرار ہونے والے بیشتر قیدیوں کو گرفتار کرلیا جبکہ باقی مفروروں کی گرفتاری کےلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ایف-آئی-آر میں بتایا گیا ہے کہ پولیس نے چارحملہ آوروں کو موقع سے گرفتارکرلیاہے جن کی شناخت مراد علی ولد لیاقت علی سکنہ لوئر دیر، وحیدظفرخان سکنہ لال قلعہ لوئر دیر، ملک محمد ارشد ولدمحمد سردار سکنہ لال قلعہ لوئر دیر اور عبدالوہاب ولد غلام حکیم سکنہ محلہ باغ کورونہ نوشہرہ معلوم ہوئی ملزموں کے قبضہ سے خودکار آتشی اسلحہ برآمد کیا گیا ہے۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ منصوبہ سازوں کے کھرے پختونخواہ کے اقتدار کے ایوانوں تک جاتے ہیں۔دوسری جانب انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد نے واقعہ کے بعد دعویٰ کیا تھاکہ پولیس نے تمام قیدیوں کو گرفتار کرکے مفرور کی کوشش کو ناکام بنا دیا ہےجبکہ ایف-آئی-آر میں کہا گیا ہے کہ مفرور قیدیوں کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جارہے ہیں۔