• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعلیٰ عدالتوں میںجب کوئی وکیل جج تعینات ہو جاتا ہے تو پھر وہ انسان نہیں رہتا دیوتا بن جاتا ہے۔نو آبادیاتی عدالتی نظام میں منصف کے منصب پر براجمان شخص کو محض بے پناہ اختیارات ہی حاصل نہیں ہوتے بلکہ مقدمات کی سماعت کے دوران ان عالی مرتبت جج صاحبان کوہر لحظہ باور کروایا جاتا ہے کہ آپ مرجعِ خلائق ہیں۔ درخواست گزاروں کی نمائندگی کرنے والے وکلا ء صاحبان التجائیہ انداز میں اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں ،دلائل دیتے ہوئے مائی لارڈ! (میرے آقا) اور یور لارڈ شپ (آپ کی حاکمیت) جیسے القابات سے مخاطب کرتے ہیں ،لفظ چبا کر، سوچ سمجھ کر بولتے ہیں کہ کہیں بے ادبی کا گمان ہونے پر قابل صد احترام جج صاحب توہین عدالت کی فرد جرم نہ عائد کر دیں۔ جب عدالت لگتی ہے تو شلوار قمیض، شیروانی اور جناح کیپ میں ملبوس ایک خادم، عزت مآب جج صاحب کے تشریف رکھنے سے پہلے کرسی کو ہلاتے ہوئے گویا آگاہ کرتا ہے کہ باادب، ظلِ الٰہی مسند نشین ہوا چاہتے ہیں اور جب عدالت برخاست ہونے پر جج صاحب کے جانے کا وقت ہوتا ہے تو ان کے کھڑے ہونے سے پہلے یہی باوردی خدمت گار نشست کو پیچھے کھینچنے کیلئے موجود رہتا ہے تاکہ صاحب کو کسی قسم کی زحمت نہ ہو۔ پاکستان کا دستور کہتا ہے کہ سب شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ کسی ایک شخص کو دوسرے پر کسی قسم کی کوئی برتری حاصل نہیں لیکن عدالت میں صرف مسند انصاف پر متمکن شخص کی تعظیم ہی لازم ہوتی ہے، سائل تو کیا ان کی نمائندگی کرنے والے وکلا ء کی بھی کوئی عزت نہیں ہوتی۔

مجھے ایک عرصہ سے یہ جاننے کی جستجو تھی کہ کیا دیگر ممالک کے عدالتی نظام میں بھی اس طرح کی حرکات پائی جاتی ہیں؟ معلوم ہوا کہ دنیا بھرمیں مقامی روایات کے مطابق جج صاحبان کو ادب اور احترام سے بلایا جاتا ہے مثال کے طور پر آسٹریلیا میں ’’یور آنر‘‘ یعنی عزت مآب کی اصطلا ح مستعمل ہے۔ برازیل میں ’’یور ایکسی لینسی‘‘ کہا جاتا ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں میں الگ الگ روایات ہیں، کہیں جج صاحب کہا جاتا ہے تو کہیں ’’یور آنر‘‘ کہہ کر کام چلایا جاتا ہے۔ ’’مائی لارڈ‘‘ کہنے کا سلسلہ ان ممالک میں رائج ہے جو برطانوی استعمار کی قید سے آزاد ہوئے۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی اسی نوعیت کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ 2006ء میں بار کونسل آف انڈیا نے ایک قرارداد منظور کی کہ عدالتوں میں جج صاحبان کیلئے ’’مائی لارڈ‘‘ یا پھر ’’لارڈ شپ‘‘ کی اصطلاحات استعمال نہ کی جائیں کیونکہ یہ نو آبادیاتی دور کی باقیات ہیں۔ کہا گیا کہ ’’یور آنر، سر یا پھر اس کے متبادل تعظیمی الفاظ پر انحصار کیا جائے۔ یہ قرارداد بھارت میں وکلاء کی تمام نمائندہ تنظیموں کو بھجوائی گئی۔ اس کی روشنی میں پنجاب اور ہریانہ کی بار کونسلوں نے یہ قرادادیں منظور کیں۔ بعد ازاں 2014ء میں بھارتی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ عدالتوں میں جج صاحبان کیلئے ’’مائی لارڈ‘‘ اور ’’یور لارڈ شپ‘‘ جیسے القابات جو عہد غلامی کی یاد دلاتے ہیں اور انسانی وقار کے منافی ہیں، ان کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے لیکن بھارتی سپریم کورٹ نے اس درخواست کو منفی استدعا قرار دیا اور یہ کہتے ہوئے پٹیشن خارج کردی کہ ان اصطلاحات کا استعمال لازمی نہیں ہے۔ بہر حال 14جولائی 2019ء کو راجستھان ہائیکورٹ کے جج صاحبان نے فل کورٹ اجلاس کے بعد یہ سرکلر جاری کیا کہ دستور میں سب شہریوں کو تفویض کیے گئے یکساں حقوق کی روشنی میں متفقہ طور پر کیے گئے فیصلے کے بعد عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلا ء صاحبان سے درخواست کی جاتی ہے کہ ججوں کو ’’مائی لارڈ‘‘ اور ’’یور لارڈ شپ‘‘ جیسے القابات سے نہ نوازا جائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ بعد ازاں بھارت میں اعلیٰ عدلیہ کے کئی جج صاحبان نے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی۔ مثال کے طور پر نومبر 2023ء میں نیو دہلی میں سپریم کورٹ کے دو رُکنی بنچ میں شامل ایک جج جسٹس PS Narasimha نے ’’مائی لارڈ‘‘ کہنے پر وکیل کو ٹوک دیا اور کہا کہ آپ بیشک میری آدھی تنخواہ لے لیں مگر مجھے مائی لارڈ نہ کہیں ۔

پاکستان میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کچھ مواقع پر بھری عدالت میں یہ بات کہنے کی جرات کی۔ انہوں نے نہ صرف مقدمات کی سماعت کے دوران وکلا کو ٹوکا بلکہ واضح طور پر ہدایت کی کہ ججو ں کو مائی لارڈ نہ کہا جائے لیکن جب جج صاحبان مقدمات کی سماعت کے دوران ساتھی جج صاحبان کیلئے اس طرح کے الفاظ استعمال کر رہے ہوں، تحریری فیصلوں میں ’’مائی لارڈ‘‘ اور ’’یور لارڈ شپ‘‘ جیسی اصطلاحات کی تکرار دکھائی دے تو پھر وکلاء اس طرز عمل کی تقلید کیوں نہ کریں۔

چیف جسٹس یحییٰ آفریدی عدالتی اصلاحات کے پہلے مرحلے پر اگر ان نوآبادیاتی علامات اور نشانیوں سے جان چھڑوا لیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ سپریم کورٹ میں کام کر رہے تمام ملازمین کو جوڈیشل الائونس دیا جاتا ہے، اگر آپ سپریم کورٹ کے ڈرائیور کی تنخواہ جان لیں تو حیران رہ جائیں۔ پرکشش تنخواہوں اور مراعات کے باوجود جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں کس طرح تین تنخواہیں بطور اعزازیہ دینے کی روایت ڈالی گئی، یہ تفصیل قاضی فائز عیسیٰ کے پرائیویٹ سیکریٹری ڈاکٹر مشتاق احمد بیان کر چکے ہیں۔ یقیناً وہ باوردی خدمت گار جو جج صاحبان کی کرسیاں آگے اور پیچھے کرنے پر مامور ہیں، انہیں بھی جوڈیشل الائونس کے ساتھ ساتھ اعزازیہ دیا جاتا ہو گا۔ اگر ان دربانوں کی اسامیاں ہی ختم کر دی جائیں تو قوم کے کروڑوں روپے بچائے جا سکتے ہیں اور آخری بات، یہ مژدہ جانفزا سنایا گیا ہے کہ زیر التوا مقدمات ختم کرنے کیلئے جسٹس منصور علی شاہ کا منیجمنٹ پلان منظورکر لیا گیا ہے۔ تکلف برطرف، جسٹس ثاقب نثار کے الداعی ریفرینس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تھا، میں بھی میاں صاحب کی طرح ایک ڈیم بنانا چاہتا ہوں، زیر التوا مقدمات کے خلاف ڈیم۔ قاضی فائز عیسیٰ نے بھی یہ بھاری پتھر اُٹھانے کی کوشش کی تھی تو اب کیسے یقیں کر لیں۔ تاجور نجیب آبادی کے بقول :

نہ میں بدلا، نہ وہ بدلے، نہ دل کی آرزو بدلی

میں کیوں کر اعتبار انقلاب ناتواں کرلوں

تازہ ترین