• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایرانی سنیما کی ’’نئی لہر‘‘ کے بانیوں میں سے ایک داریوش مہر جوئی اور اُن کی مصنّفہ اہلیہ، واحدہ محمدی کو اکتوبر 2023ء میں تہران میں چاقو کے پے درپے وار کر کے قتل کر دیا گیا اور یوں ایرانی سنیما کا ایک طویل باب اختتام پذیر ہو گیا۔ مہر جوئی کی فلم ’’گاؤ‘‘ (گائے) عالمی سنیما کی بہترین فلمز میں شمار ہوتی ہے اور کوئی بھی فلم بین 1969ء میں ریلیز ہونے والی یہ کلاسک مووی دیکھے بغیر سنیما کا شائق ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ 

تاہم، زیرِ نظر مضمون میں ہم قتل کے اسباب کی بہ جائے اس بات کا ذکر کریں گے کہ مہر جوئی نے کن حالات میں اپنی زندگی کی بہترین فلمز تخلیق کیں، کن کن لوگوں سے فیض حاصل کیا اور پھر کیسے دیگر فلم سازوں کو متاثر کیا۔

1950ء کے عشرے میں مشرقِ وسطیٰ میں قوم پرستی کی تحاریک اُبھر رہی تھی اور کئی ممالک میں برسرِ اقتدار حُکم ران اپنی بالا دستی خطرے میں محسوس کر رہے تھے۔ مصر میں جمال عبدالنّاصر، ایران میں مصدّق، عراق میں عبدالکریم قاسم اور شام میں صلاح جدید اور حافظ الاسد سمیت دیگر بہت سے رہ نُما ان قوم پرستی کی تحریکوں کے قائد تھے۔ 

ایران میں رضا شاہ پہلوی کے اختیارات کم کرنے کی ایک کوشش ناکام ہو چُکی تھی اور 1960ء کے عشرے میں ایران میں تمام اختلافی آوازوں کو دبانے کا عمل عروج پر پہنچ چُکا تھا۔ اسی عشرے میں داریوش مہر جوئی فلمی اکھاڑے میں اُترے، جب کہ ان سے قبل 1920ء سے 1940ء تک کے درمیانی عرصے میں ایران میں کم از کم ایک درجن ایسی شخصیات جنم لے چُکی تھیں کہ جن کو آگے چل کر ایرانی فنونِ لطیفہ، ثقافت، ادب اور سیاست میں اہم کردار ادا کرنا تھا۔ 

مثال کے طور پر ابراہیم گلستان1922ء میں پیدا ہوئے اور نوجوانی ہی میں بائیں بازو کی سرگرمیوں میں شامل ہو گئے۔ اُنہوں نے 1957ء میں ایران کا پہلا فلم اسٹوڈیو قائم کیا، جس نے 1960ء کے عشرے میں ایرانی سنیما کی نئی لہر کی راہ ہم وار کی۔ عزّت اللہ انتظامی نے 1924ء میں آنکھ کھولی اور وہ بھی ایران کے نمایاں ترین اداکاروں میں شامل ہوئے۔ انہوں نے فلم، ’’گاؤ‘‘ میں بھی بہتری کردار نگاری کی۔ فخری خوروش 1929ء میں پیدا ہوئیں اور انہوں نے بھی نئی لہر کی فلمز میں خود کو خوب منوایا۔ 

علی شریعتی کی ولادت 1933ء میں ہوئی، جنہوں نے آنے والے عشروں میں اپنی شان دار تحاریر سے ایران کے سیاسی و سماجی عمل کو غالباً سب سے زیادہ متاثر کیا۔ فروغ فرخ زاد اور جمشید مشائخی 1934ء میں اس دُنیا میں آئے۔ 

فرخ زاد محض 20سال کی عُمر ہی میں ایران کی نمایاں شاعرہ بن چُکی تھیں، جب کہ مشائخی بھی ایک بڑے اداکار کے طور پر اُبھرے۔ علی نصیر یان اور غلام حسين ساعدی بھی 1930ء کے عشرے کے وسط میں پیدا ہوئے۔ نصیر یان معروف اداکار و مصنّف کے طور پر سامنے آئے،جب کہ ساعدی نے بہترین افسانہ نگار کے طور پر اپنا مقام بنایا۔

بہروز وثوقی، ہژیر داریوش اور داریوش مہر جوئی 1930ء کے عشرے کے اواخر میں اس دُنیا میں آئے، جب کہ عباس کیا رستمی، مسعود کیمیائی، ناصر تقوی، رضا اصلافی، سہراب شہید ثالث اور ہمایوں ارشادی 1940ء کے عشرے کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر نے ایرانی سینما کی نئی لہر کے آغاز اور ارتقا میں کسی نہ کسی طرح اپنا حق ادا کیا۔

1961 ء میں فروغ فرخ زاد نے گلستان کے ساتھ اپنی فن کا رانہ زندگی کا آغاز کیا اور ایک دستاویزی فلم کینیڈا کے ہدایت کار، بیو برٹ ایکٹوئن کے ساتھ مل کر بنائی، جس میں چار ممالک میں شادی کی رسومات فلم بند کی گئیں۔ 1963ء میں ایرانی سینما کی نئی لہر کی ابتدائی علامات ظاہر ہوئیں، جن کا اظہار دو شان دار فلموں سے ہوا۔ پہلی فلم ’’خانہ سیاہ است‘‘ (مکان سیاہ ہے) کی ہدایت کار فروغ فرخ زاد تھیں اور اُن کے ساتھی، گلستان فلم ساز تھے۔

دوسری فلم، ’’جِلد مار‘‘ (سانپ کی کھال) تھی، جس میں ہژیر داریوش نے ڈی ایچ لارنس کے ناول، ’’لیڈی چیٹر لِیز لور‘‘ کی کہانی کو استعمال کیا۔ فلم، ’’خانہ سیاہ است‘‘ شمالی ایران کی ایک جذامی کالونی کی کہانی ہے۔ یہ فروغ فرخ زاد کی ہدایت کاری میں بننے والی واحد فلم ہے، جو شاہِ ایران کے ماتحت جذام زدہ سماج کی علامتی عکّاسی کرتی ہے۔ ’’جِلد مار‘‘ میں فخری خوروش نے ایک ڈھلتی عُمر کی خاتون کا کردار نبھایا ہے۔ اس فلم میں عمومی میلو ڈراما سے ہٹ کر کہانی دکھائی گئی ہے۔ 

یاد رہے کہ شاہ کے دَور میں میلو ڈراما ایرانی حکومت کا پسندیدہ ذریعۂ ابلاغ تھا، جس کے ذریعے ایک خوش حال اور خوش باش ایران کی تصویر کشی کی جاتی تھی ۔ ’’جِلد مار‘‘ میں بڑے لطیف انداز اور نفیس پیرائے میں کہانی کو برتنے کا نیا اسلوب متعارف کروایا گیا، جس سے ناظرین کو تنقیدی سوچ استعمال کر کے سماج کے جمود پر سوال اُٹھانے کی ترغیب دی گئی۔’’خانہ سیاہ است‘‘ اور ’’جِلد مار‘‘ دونوں ہی تجرباتی اور نسبتاً کم دورانیے کی فلمیں تھیں، جنہوں نے ایرانی فلم بینوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ 

پھر 1964ء میں ابراہیم گلستان کی فلم، ’’خِشت و آئینہ‘‘ (اینٹ اور آئینہ) نے پورے ایران میں ایک ہل چل سی مچا دی۔ یہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی کہانی ہے، جسے گاڑی کی پچھلی نشست سے ایک نوزائیدہ بچّہ ملتا ہے، جسے ایک جوان خاتون مسافر ٹیکسی میں چھوڑ جاتی ہے۔ اس فلم کے ذریعے ہمیں 1960ء کے ایران کو سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ اس فلم کا آخری منظر، جس میں لاوارث بچّوں سے بھرا ایک یتیم خانہ دکھایا گیا ہے، خاصا متاثر کُن ہے۔

فروغ فرخ زاد اور گلستان ایک دوسرے کے معاون تھے اور شاید ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے، مگر بدقسمتی سے فرخ زاد 1967ء میں ایک کار حادثے میں چل بسیں، جس کے بعد گلستان جذباتی طور پر ٹوٹ پھوٹ گئے اور پھر کوئی قابلِ ذکر فلم نہ بنا سکے۔ 1960ء کے عشرے کے اواخر میں دو مزید ہدايت کار منظرِ عام پر آئے، جنہوں نے نئی لہر کو آگے بڑھایا۔ یہ تھے، مسعود کیمیائی اور داریوش مہر جوئی۔ 

مسعود کیمیائی نے بہروز وثوقی اور جمشید مشائخی کے ساتھ مل کر ’’قیصر‘‘ نامی فلم بنائی۔ اس فلم کی کہانی غیرت کے نام پر قتل کے گرد گھومتی ہے، جس میں قیصر (بہروز) اپنی بہن کی آبروریزی اور خود کُشی کا انتقام لیتا ہے۔ یہ مووی الفریڈ ہچکاک کی فلم، ’’سائیکو‘‘ کی یاد دلاتی ہے۔ 1969ء میں ریلیز ہونے والی سب سے منفرد فلم، ’’گاؤ‘‘ تھی، جس کے ہدایت کار داریوش مہر جوئی تھے۔ 

اس فلم نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر خاصی پذیرائی حاصل کی۔ چوں کہ شاہِ ایران کے دَور میں اظہارِ رائے کے ضمن میں خاصا محتاط رہنے کی ضرورت تھی، لہٰذا مہر جوئی نے ایک علامتی ناٹک سے ایک شاہ کار تخلیق کیا۔ اس کی کہانی ساعدی کے ایک افسانے سے ماخوذ ہے اور اس فلم میں عزّت اللہ انتظامی، علی نصیریان اور جمشید مشائخی نے شان دار کردار نگاری کی ۔ فلم، ’’گاؤ‘‘ کی کہانی ایک گائے کے گرد گھومتی ہے، جو ایک دُور دراز گائوں کے مکین، مشت حسن نامی ایک کسان کی ملکیت ہے۔ 

وہ اپنی گائے سے گہری اُنسیت رکھتا ہے، جو اس کا واحد اثاثہ ہے اور گاؤں کی اکلوتی گائے بھی، جو اہلِ دیہہ کی دودھ کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ گاؤں میں زیادہ تر بوڑھی خواتین رہتی ہیں۔ ایک مرتبہ حسن کسی کام کے سلسلے میں کچھ روز کے لیے گاؤں سے باہر جاتا ہے، تو گاؤں والوں کو اچانک پتا چلتا ہے کہ اُس کی گائے پُر اسرار طور پر مَر چکی ہے۔ وہ گائے کو دفن کردیتے ہیں اور واپسی پر حسن کو بتاتے ہیں کہ وہ کہیں بھاگ گئی ہے۔ یہ خبر سُن کر حسن کو شدید صدمہ پہنچتا ہے اور وہ باڑے میں جاکر عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ 

پھر وہ مستقلاً باڑے ہی میں رہنے لگتا ہے اور رفتہ رفتہ گائے کی شناخت اختیار کر لیتا ہے۔ پھر جب گائوں کے مکین اُسے اسپتال لے جانے لگتے ہیں، تو وہ خود کُشی کرلیتا ہے۔اس فلم کی تیاری کے لیے ایرانی حکومت نے بھی کچھ مالی معاونت فراہم کی تھی، کیوں کہ شاہِ ایران اس کے ذریعے خوش حال دیہی زندگی کی عکّاسی کرنا چاہتا تھا، مگر منفی عکّاسی کی پاداش میں اس فلم پر پابندی لگا دی گئی۔ 

گرچہ ’’گائو‘‘ میں پہلوی خاندان پر تنقيد کی گئی تھی، لیکن جب اسے بین الاقوامی پذیرائی ملی، تو حکومت کو دوبارہ اس کی نمائش کی اجازت دینا پڑی۔ یہ فلم ایرانی سنیما میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فلم میں مردہ گائے کو مردہ بادشاہت کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جسے شاہِ ایران کسی طور بھی چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا۔ 

مہر جوئی نے ’’گاؤ‘‘ میں عوامی جذبات کی ترجمانی کے لیے تقریباً وہی طریقہ استعمال کیا، جو اس سے تقریباً نصف صدی قبل جرمن ہدایت کار، ایف ڈبلیو مرناؤ نے اپنی فلم، ’’دی لاسٹ لاف‘‘ یا آخری ہنسی میں استعمال کیا تھا۔

فلم، ’’گاؤ‘‘ کے بعد نئی لہر کی مزید فلمیں سامنے آئیں۔ مثال کے طور پر 1970ء میں مہر جوئی نے ’’آقائے ھلو‘‘ اور 1971ء میں ناصر تقوی نے فلم، ’’رہائی‘‘ بنائی۔ ’’آقائے ھلو‘‘ میں علی نصیر یان نے ایک ایسے دیہاتی کا کردار نبھایا ہے کہ جو اپنا گھر بسانے کی خاطر تہران جاتا ہے، مگر وہاں اس کا واسطہ دھوکے بازوں سے پڑتا ہے۔ ’’رہائی‘‘ بھی ایک کم وسائل سے بنائی جانے والی فلم ہے، جس میں ایک مچھیرا لڑکا چھوٹی سی مچھلی پکڑ کر اسے قید کر دیتا ہے، مگر جب خُود اسے ایک کمرے میں بند کردیا جاتا ہے، تو اسے آزادانہ نقل و حرکت کی اہمیت کا احساس ہوتا ہے، جس پر وہ مچھلی کو واپس سمندر میں چھوڑ دیتا ہے۔ 

یاد رہے کہ یہ وہ دَور تھا کہ جب شاہِ ایران کے خفیہ ادارے شہریوں کو پکڑ کر غائب کر دیتے تھے۔ 1972ء میں مہر جوئی نے فلم، ’’پُستچی‘‘ (ڈاکیا) بنائی، جو انیسویں صدی کے ایک جرمن ڈرامے، وائزیک سے ماخوذ تھی۔ 

اس فلم میں نصیریان نے ایک ڈاکیے کا کردار ادا کیا ہے کہ جو نامرد ہے اور اسے قرض اُتارنے کے لیے دو دو ملازمتیں بھی کرنا پڑتی ہیں۔ ڈاکیے کو جب ایک نوجوان سے اپنی بیوی کے روابط کا علم ہوتا ہے، تو وہ طیش میں آکر اُسے قتل کردیتا ہے۔ یہ مہر جوئی کی دوسری فلم تھی کہ جس پر عارضی طور پر پابندی عائد کی گئی۔ اس فلم نے ایرانی امراء اور افسر شاہی سمیت پورے نظام کی نا اہلی اور بدعنوانی کا پردہ فاش کیا۔

1970ء کے عشرے کے اوائل ہی میں ایران میں ایک اور ہدایت کار، سہراب شہید ثالث بھی اُبھرے، جنہوں نے بہت کم وسائل سے ایک شان دار فلم بنائی، جس کا نام تھا، ’’طبيعت بے جان۔‘‘ 1974ء میں پیش کی جانے والی اس فلم میں ریلوے پھاٹک کے قریب رہنے والے ایک کم زور و ناتواں گھرانے کی عکّاسی کی گئی ہے۔ 

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ پھاٹک کا چوکی دار اس مقام پر 33برس سے فرائض انجام دے رہا ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ 1974ء میں شاہِ ایران کو بھی تخت پر بیٹھے پورے33سال ہو گئے تھے اور شاہ کی طرح یہ گیٹ کیپر بھی ریٹائرمنٹ یا ملازمت سے سبک دوشی پر آمادہ نہیں۔ 1970ء کے عشرے کے وسط تک علی شریعتی ایرانی سماج پر ایک دوسرے پہلو سے اثر انداز ہو رہے تھے۔ انہیں ’’انقلابی شیعہ‘‘ اور ’’مارکس‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ وہ اپنی تحاریر و تقاریر سے ایرانی عوام کے ایک بڑے حلقے کو متاثر کر رہے تھے اور جمود کو للکار رہے تھے اور کئی ہدایت کاروں نے ایرانی سنیما کی نئی لہر کے دوران اُن کے اثرات قبول کیے۔ 

ان میں رضا اصلانی بھی شامل تھے، جنہوں نے 1976 ء میں ’’شطرنج باد‘‘ (ہوا کی شطرنج) نامی فلم بنائی۔ اس فلم میں بھی علامتی طور پر شاہِ ایران کی سفّاک حکومت کو نشانہ بنایا گیا تھا، جو عوام سے زیادہ اپنے اثاثوں اور وراثت کے لیے فکر مند تھی۔ یہ فلم صرف ایک ہی مرتبہ نمائش کے لیے پیش کی جا سکی اور پھر اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ تاہم، عشروں بعد یہ فلم کہیں سے برآمد ہوئی، تو بحالی کے بعد اس کی دوبارہ نمائش ہوئی۔

1978ء میں مہر جوئی کی نئی فلم، ’’دائرہ مینا‘‘ نمائش کے لیے پیش کی گئی، جس میں ایرانی سماج کی مایوس کُن تصویر پیش کی گئی۔ مہر جوئی نے اس فلم کی کہانی حقیقی واقعات سے اخذ کی تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک پس ماندہ علاقے کا رہائشی نوجوان اپنے قریب المرگ باپ کو شہر کے اسپتال میں لے جاتا ہے، جہاں علاج خاصا منہگا ہے اور یہاں ایک بے ضمیر ڈاکٹر اُسے رقم کے بندوبست کے لیے خون کی بوتلوں کی غیر قانونی خرید و فروخت پر اُکساتا ہے۔

اس فلم میں حقیقت نگاری اور علامتی اظہار دونوں سے کام لیا گیا ہے اور دکھایا ہے کہ کیسے پورا ایرانی سماج ہی بدعنوانی کا شکار ہے۔ 1979ء میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا، تو نئی لہر بھی اپنے اختتام کو پہنچی اور پھر 1981ء میں مہر جوئی اپنے خاندان کے ساتھ فرانس منتقل ہو گئے، جہاں چند سال قیام پذیر رہنے کے بعد دوبارہ وطن واپسی پر انہوں نے کئی بہترین فلمیں بنائیں۔ 1987ء میں انہوں نے فلم، ’’اجارہ نشین ہا‘‘ (کرائے دار) بنائی ۔ 

یہ فلم ایک مخدوش عمارت کی کہانی پر مشتمل ہے، جو ایرانی سماج کی علامت ہے۔ 1990ء میں انہوں نے فلم، ’’ہامون‘‘ بنائی، جو ایک ایسے نوجوان جوڑے کی کہانی ہے کہ جو اپنی آرزوئیں بکھرنے پر نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ 

پھر 1997ء میں فلم، ’’لیلیٰ‘‘بنائی، جو ایک بانجھ عورت کے گرد گھومتی ہے، جس کی ساس اُسے اپنے شوہر کی دوسری شادی کروانے پر مجبور کرتی ہے۔ 1998ء میں ’’درخت گلابی‘‘ (ناشپاتی کا درخت) نامی فلم بنائی اور 2000ء کے عشرے میں ایک درجن سے زائد فلمز تخلیق کیں۔ گو کہ ایرانی سنیما کی نئی لہر 1980ء میں تقریباً اختتام پذیر ہو گئی، لیکن اسلامی انقلاب کے بعد بھی کئی شان دار فلمز تخلیق کی گئیں اور مہر جوئی غالباً اس لہر کے آخری عَلم بردار تھے۔