بات چیت: فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ
دنیا بھر میں جیلوں کو تربیت گاہ قرار دیا جاتا ہے۔ لینن سے جواہر لال نہرو، گرامچی سے نیلسن منڈیلا اور فیض سے حبیب جالب تک، سب نے دورانِ اسیری بہت کچھ سیکھا، یہاں تک کہ شاہ کار کتب بھی لکھیں۔ دراصل اسیری، قیدِ تنہائی میں اکثر باشعور لوگوں کو اپنی غلطیوں پر نظرِ ثانی کرنے اور ایک نئے جذبے کے ساتھ جدوجہدِ زندگی دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملتا ہے، جب کہ دوسری جانب، جیلوں کو جرائم کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں سنگین جرائم میں ملوّث عادی مجرم دیگر قیدیوں کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں۔ بعض اوقات معمولی جرم میں گرفتار ہونے والا معاشرے کے لیے مزید خطرناک ہو کر باہر نکلتا ہے۔
اِسی طرح جیلوں میں ہونے والی کرپشن بھی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔بہرکیف، گزشتہ دنوں آئی جی جیل خانہ جات، بلوچستان، ملک شجاع الدّین کاسی کے ساتھ ایک نشست میں اُن کے کیرئیر، تجربے کی روشنی میں جیلوں کی صورتِ حال سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔
س: کس عُہدے سے کیریئر کا آغاز کیا اور کہاں کہاں پوسٹنگ رہی؟
ج: مَیں نے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں پورے صوبے میں ٹاپ کیا اور کیرئیر کا آغاز ہی 1987ء میں بطور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کیا۔مختلف حیثیتوں میں کوئٹہ، مچھ، خضدار، سبّی کی جیلوں میں فرائض انجام دئیے اور اب دوسری مرتبہ آئی جی جیل خانہ جات کے طور پر کام کر رہا ہوں۔
س: آپ نے قیدیوں اور عملے کے مسائل کے حل کے لیے کیا اقدامات کیے؟
ج: بلوچستان میں 11جیلیں ہیں، جن میں پانچ سینٹرل اور چھے ڈسٹرکٹ جیل ہیں۔ مچھ، خضدار، گڈانی، مستونگ اور ژوب میں سینٹرل جیلز ہیں، جب کہ کوئٹہ، سبّی، ڈیرہ مُراد جمالی، لورالائی، تُربت اور نوشکی میں ڈسٹرکٹ جیلز ہیں۔ اِن جیلوں میں 3000سے زائد قیدی ہیں اور کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں ہماری کوئی ایسی جیل نہیں، جہاں گنجائش سے زائد قیدی ہوں، حالاں کہ مُلک میں کئی ایسی جیلیں ہیں، جہاں قیدی گنجائش نہ ہونے کے باعث شفٹس میں سوتے ہیں۔
ہمیں جیلوں میں اصلاحاتی عمل کے لیے وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی اور وزارتِ داخلہ کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ مَیں جیلوں کا اچانک دَورہ کر کے قیدیوں اور عملے کے مسائل کا جائزہ لیتا رہتا ہوں۔ میری پوری کوشش ہے کہ جیل مینوئل پر عمل درآمد کروایا جائے اور قیدیوں کو وسائل میں رہتے ہوئے ہر ممکن سہولتیں فراہم کی جائیں کہ وہ بھی بہرحال انسان تو ہیں اور بطور انسان، ہمیں اُن کی تمام بنیادی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔
س: سندھ سے تعلق رکھنے والے سابق آئی جی جیل خانہ جات، عثمان صدیقی نے محکمے میں انقلابی اقدامات کیے،کیا یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے؟
ج: مَیں عثمان غنی صدیقی کا معترف ہوں اور اُنہیں خراجِ تحسین بھی پیش کرتا ہوں کہ اُنھوں نے محدود وسائل کے باوجود مسائل کے حل کے لیے جامع حکمتِ عملی مرتّب کی۔اِس ضمن میں اُنہوں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے مخیّر افراد، خاص طور پر فلاحی تنظیموں سے رابطہ کیا۔
ایک فلاحی تنظیم، ایس ڈبلیو جی سوشل ویلفیئر کی مدد سے صوبے کی تمام جیلوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب کیے گئے، جو ایک گھنٹے میں دس ہزار لیٹر پانی صاف اور اُسے ٹھنڈا کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔ نیز، اُنھوں نے روٹی پکانے کے جدید پلانٹس بھی لگوائے۔
س: قیدیوں کو ملنے والے کھانے کا معیار کیسا ہوتا ہے اور حکومت کی جانب سے جو رقم ملتی ہے، کیا اس سے قیدیوں کے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں؟
ج: موجودہ فنڈز میں ایک قیدی کے لیے یومیہ 96روپے مختص کیے گئے ہیں، جب کہ جوڈیشل لاک اَپ کے قیدیوں کے لیے یہ رقم تقریباً 318روپے بنتی ہے۔ اِس رقم سے خشک راشن لایا جاتا ہے اور پھر کھانا تیار کر کے قیدیوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ موجودہ منہگائی کے تناسب سے 96روپے میں تو ایک وقت کا ناشتا بھی نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال، ہم نے قیدیوں کے یومیہ اخراجات میں اضافے کی درخواست ارسال کر رکھی ہے، جس کی جَلد منظوری کی اُمید بھی ہے۔ علاوہ ازیں، بیمار قیدیوں کو پرہیزی کھانا درکار ہوتا ہے، تو اُنہیں ڈاکٹر کی اجازت کے بعد اپنے طور پر کھانا تیار کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
س: ایسے قیدی جو جرمانے کی عدم ادائی کے باعث سزا بھگتنے پر مجبور ہیں، اُن کے حوالے سے آپ نے کیا اقدامات کیے؟
ج: جرمانوں کی ادائی کے حوالے سے وفاقی، صوبائی کمیٹیز قائم ہیں اور اس کا ایک قانونی طریقۂ کار ہے، جس کی پابندی ضروری ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ کوئی ایسا میکنزم بنایا جائے، جس کے ذریعے جو لوگ جرمانے کے باعث اضافی سزا بُھگتتے ہیں، وہ رہا ہو کر اپنے پیاروں میں جا سکیں۔
کئی جیلوں میں ایسے قیدی موجود ہیں، جو مختلف نوعیت کے جرمانوں کی عدم ادائی کے باعث سزائیں بُھگت رہے ہیں۔ ماضی میں غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے جرمانے کی رقم ادا کر کے بڑی تعداد میں قیدیوں کو رہائی بھی دِلوائی گئی۔
س: اب پرائیوٹ تعلیم کا سلسلہ تو ختم ہو چُکا، ایسے میں قیدیوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟
ج: تعلیم یا مختلف کورسز کے بعد سزا میں رعایت مل جاتی ہے، اِسی وجہ سے قیدی پڑھنے لکھنے میں کافی دل چسپی بھی لیتے ہیں۔حال ہی میں پرائیوٹ تعلیمی سلسلہ ختم کردیا گیا، لیکن ہمارے پاس علّامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کا آپشن بھی ہے۔ سیمسٹر سسٹم ہونے کی وجہ سے بھی قیدیوں کو مشکلات درپیش ہیں، کیوں کہ سیمسٹر کے دَوران قیدی رہا بھی ہو جاتے ہیں۔ نیز، ہم قیدیوں کو مختلف ہنر بھی سِکھا رہے ہیں تاکہ رہائی کے بعد اُنھیں معاشی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اِس ضمن میں ہم نے اپنے عملے کو محکمۂ محنت و افرادی قوّت سے تربیت دِلوائی ہے تاکہ وہ قیدیوں کو کوئی نہ کوئی ہنر سِکھا سکیں۔ کمپیوٹر پروگرامنگ کے ساتھ پلمبرنگ، الیکٹریشن اور موبائل فون ریپیئرنگ جیسے کورسز کروائے جا رہے ہیں۔ ہماری یہ بھی کوشش ہے کہ قیدیوں کی جانب سے بنائی گئی اشیاء مختلف نمائشوں میں رکھی جائیں تاکہ اِس سے اُنھیں کچھ آمدنی بھی ہو سکے۔
س: بچّوں کو بڑی عُمر کے قیدیوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے یا اُن کی الگ بیرکس ہیں؟
ج: صوبے کی تمام جیلوں میں خواتین اور نو عُمر قیدیوں کے لیے الگ بیرکس ہیں۔ نوعُمروں کو بڑی عُمر کے قیدیوں سے دُور رکھا جاتا ہے۔ اِسی طرح خواتین کی بھی علیٰحدہ بیرکس ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہے کہ جیل کا تصوّر سزا خانوں یا عقوبت خانوں کی بجائے، اصلاح خانوں کے طور پر ہو۔ اِسی بنا پر ہم تمام قیدیوں، خاص طور پر نوعُمر قیدیوں کی ایسی تربیت کر رہے ہیں کہ وہ رہائی کے بعد اپنے خاندان یا معاشرے کے لیے آسانی کا سبب بنیں۔
ڈسٹرکٹ جیل، کوئٹہ میں قید بچّوں کا کمپیوٹر اور موبائل فونز کی جانب زیادہ رجحان ہے اور وہ ان سے متعلق کورسز بھی کر رہے ہیں۔ ہر بیرک کے باہر مسجد ہے، جہاں باقاعدہ پیش امام نماز پڑھاتے ہیں، جب کہ پیش امام کی رخصت کی صُورت میں قیدی بھی باجماعت نماز پڑھواتے ہیں، جب کہ دیگر مذاہب کے قیدیوں کے لیے بھی انتظامات کیے گئے ہیں اور اُنہیں اپنے مذاہب کے مطابق عبادت کی مکمل آزادی ہے۔
س: قیدیوں کو کارآمد شہری بنانے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
ج: جیلوں کی حالت بہتر بنانے کے بعد ہمارے سامنے سب سے بڑا چیلنج قیدیوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانا ہی ہے تاکہ وہ رہائی کے بعد اپنی بقیہ زندگی پُرامن اور مفید شہری کے طور پر گزار سکیں۔ہم نے سب سے پہلے تو قیدیوں کی ذہنی صحت کے حوالے سے کام کیا۔
اس کے لیے مختلف کھیلوں یا باغ بانی جیسی سرگرمیاں شروع کیں تاکہ وہ چاق چوبند رہیں۔ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بھی ذہنی صحت سے متعلق آگہی دی جا رہی ہے۔ ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان، شاہد خان آفریدی کے تعاون سے ایک فُٹ بال گراؤنڈ بنایا ہے، جس کے لیے اُنھوں نے 70لاکھ روپے دئیے تھے۔
یوں بلوچستان مُلک کا پہلا صوبہ ہے، جس کی کسی جیل میں گراؤنڈ بنایا گیا ہے۔ اس میدان میں فُٹ بال کے علاوہ والی بال اور دیگر کھیل بھی کھیلے جا سکتے ہیں۔ جیل میں کئی خالی مقامات پر باغ بانی بھی شروع کروائی گئی ہے، جہاں قیدی مختلف پودے، سبزیاں وغیرہ اُگاتے ہیں۔جمعے اور ہفتے کے دن اُنھیں آرٹ ورک سِکھایا جاتا ہے،جب کہ میوزک کلاسز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ پھر لائبریری کو فعال کیا گیا ہے، جس میں مختلف تنظیموں کی جانب سے کتب فراہم کی گئیں۔
س: قیدیوں کو علاج معالجے کی سہولتیں کس حد تک میسّر ہیں؟کوئٹہ جیل میں ایڈز پھیلنے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، اِن میں کس حد تک صداقت ہے؟
ج: کوئٹہ سمیت مختلف اضلاع کی جیلوں میں ڈاکٹرز اور دیگر طبّی عملہ 24گھنٹے موجود رہتا ہے۔ جیل لیبارٹریز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔’’ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام‘‘ کی جانب سے تمام جیلوں میں انسدادِ یرقان ویکسی نیشن مکمل کرلی گئی ہے، جب کہ ہیپاٹائٹس کے تدارک کے لیے اسکریننگ، ویکسی نیشن اور علاج معالجے کے دیگر اقدمات کو بھی نتیجہ خیز بنایا جا رہا ہے۔
پھر معمول کے علاج معالجے کے ساتھ قیدیوں کی نفسیاتی کاؤنسلنگ اور ٹیلی میڈیسن بھی ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔تاہم، قیدیوں کے تناسب سے ڈاکٹرز کی تعیّناتی سے علاج معالجے کی مزید بہتر سہولتیں فراہم ہوسکتی ہیں۔ کوئٹہ جیل میں آنے والے قیدیوں کی باقاعدہ بلڈ ٹیسٹ اسکریننگ کی جاتی ہے اور چند قیدیوں میں ایڈز وائرس کی تصدیق بھی ہوئی تھی، تو اُنھیں دوسرے قیدیوں سے علیٰحدہ کر کے علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔
س: قیدیوں کی خُودکُشیوں کی خبریں بھی سامنے رہتی آتی ہیں، ان کی کیا وجوہ ہیں؟
ج: کسی کو خواہ جتنی بھی سہولتیں فراہم کر دی جائیں، مگر قید کاٹنا آسان کام نہیں۔ جیل کے ماحول میں اکثر قیدی ڈیپریشن ہی کا شکار رہتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں، جو سزائے موت یا طویل سزا کے باعث مایوس ہو جاتے ہیں، تو خُودکُشی کر لیتے ہیں۔ مچھ جیل میں اکّا دکّا واقعات ضرور رونما ہوئے ہیں، لیکن انہیں سوشل میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔
س: قیدیوں سے ملاقات کا نظام سہل بنایا گیا ہے یا ماضی کی طرح پیچیدہ سسٹم برقرار ہے؟
ج: قیدیوں سے ملاقات کا عمل سہل کر دیا گیا ہے کہ اب ہر روز کسی نہ کسی رشتے دار سے ملاقات کی جا سکتی ہے۔ملاقاتی اپنا اصل شناختی کارڈ دِکھا کر کمپیوٹرائزڈ سسٹم میں ان لسٹ ہو جاتا ہے۔ پھر اُسے پرچی پرنٹ کر کے دی جاتی ہے۔
اس طرح ملاقاتیوں کا مکمل ڈیٹا بھی کمپیوٹرائزڈ ہوگیا ہے۔ہم نے وسیع اور ہوا دار کمروں پر مشتمل انتظار گاہ کو نئی کرسیوں اور دیگر سہولتوں سے آراستہ کیا ہے، جہاں پُرسکون ماحول میں قیدیوں سے ملاقات کی جا سکتی ہے، جب کہ اُن کے لیے لایا گیا سامان چیکنگ کے بعد متعلقہ قیدی تک بحفاطت پہنچا دیا جاتا ہے۔نیز، ہم اسکرینز نصب کرنے پر بھی غور کر رہے ہیں، جہاں ورچوئل انداز میں قیدی اپنے عزیز و اقارب سے گفتگو کر سکیں گے۔
س: کیا آپ جیل عملے کے لیے بھی کچھ کر رہے ہیں؟
ج: ان کے لیے میرے دفتر اور گھر کے دروازے24گھنٹے کُھلے ہیں۔ٹرانسفر، پوسٹنگ سمیت جتنے بھی مسائل ہیں، اُنہیں ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ صوبے میں سیکیوریٹی فورسز کے اہل کاروں کو خصوصی الائونسز مل رہے ہیں، جن سے ہمارے محکمے کے افسران اور جوان محروم ہیں، حالاں کہ پولیس اور دیگر ادارے تو کچھ دنوں تک ہی ملزمان کو سنبھالتے ہیں، باقی سارا کام تو محکمہ جیل خانہ جات ہی کرتا ہے۔
اکثر اوقات خطرناک قیدیوں کی جانب سے عملے کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی ملتی ہیں، اس کے علاوہ ہمارا اسٹاف مسلسل ڈیوٹی پر رہتا ہے، حتیٰ کہ عیدین پر بھی چُھٹّی نہیں ہوتی۔ اگر جیل خانہ جات کے ملازمین کی تن خواہیں اور سروس اسٹرکچر پنجاب طرز پر استوار کر دیا جائے، تو ان کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
س: کیا آپ جیل ملازمین کو فورس کا درجہ دینے کے مطالبے سے متفق ہیں؟
ج: پولیس سمیت مختلف محکموں سے بھی محکمہ جیل خانہ جات میں آئی جیز تعیّنات کیے جاتے ہیں، حالاں کہ جیل مینوئل کے مطابق آئی جی کا تعلق صرف جیل خانہ جات ہی سے ہونا چاہیے۔
اِس حوالے سے ہم نے عدلیہ سے بھی رجوع کیا، جس نے جیل خانہ جات کے ملازمین کے حق میں فیصلہ دیا۔جیل خانہ جات ملازمین کا سارا کام فورسز طرز ہی پر ہے۔ آج کل تعلیم یافتہ نوجوانوں کی اکثریت سِول سروس کی طرف مائل ہو رہی ہے، تو اِس محکمے کی مختلف کیڈر کی اسامیوں کو مزید پُرکشش کر کے نوجوانوں کو اِس جانب راغب کیا جا سکتا ہے۔
س: کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: میرا یہی پیغام ہے کہ بابائے قوم کے فرمان کے مطابق کام، کام اور صرف کام پر اپنی توجّہ مرکوز رکھیں۔ موجودہ دَور مقابلے کا دَور ہے اور اس میں پڑھے لکھے، باصلاحیت نوجوانوں کے لیے بہت زیادہ مواقع ہیں۔
نوجوان محنت، دِل جمعی سے تعلیم حاصل کریں، تو مقابلے کے امتحانات میں حصّہ لے کر اعلیٰ سرکاری پوزیشنز تک پہنچ کے کہیں بہتر انداز میں مُلک و قوم کی خدمت کر سکتے ہیں۔ یاد رکھیں، دیانت داری وہ خُوبی ہے، جس کے ذریعے آپ دنیا و آخرت دونوں میں سُرخ رُو ہو سکتے ہیں ۔