پوری دنیا کے بھٹکے ہوئے آہووں کو سوئے حرم جانے والا رستہ دِکھانا اسلامی تحریکوں کا مقصد و نصب العین ہے اور اِس مقصد کے حصول کے لیے سارا سال مختلف سرگرمیوں کے بعد، منعقد ہونے والا سالانہ مرکزی کنونشن، تحریک میں ایک نئی رُوح پھونک دیتا ہے اور کینیڈا اور دیگر مغربی ممالک میں ہونے والے کنونشنز کی آن بان ہی الگ ہوتی ہے۔
خالص مغربی ماحول میں اسلامی تشخّص کے ساتھ دعوتی پروگرامز، ایمان کو نیا رنگ، نئی تازگی دیتے ہیں اور وطن سے دُور، اپنے وطن کی جھلکیاں بھی دِکھاتے ہیں۔ اِس سال بارہ، تیرہ اکتوبر کو کینیڈا کے شہر، ٹورنٹو کے انٹرنیشنل کنونشن سینٹر میں’’ اکنا کینیڈا‘‘ کا دو روزہ کنونشن منعقد ہوا۔
اکتوبر کا مہینہ کینیڈا میں خُوب صُورت خزاں کا موسم ہوتا ہے۔ ہر طرف پیلے زرد، عنّابی پتّوں سے لدے پیڑ حَسین منظر پیش کرتے ہیں۔ سرد موسم کی ابتدا تھی، لیکن موسم خوش گوار تھا۔ کینیڈا میں بدلتے موسم کی شوخیاں سوئیٹر اور کوٹ کے بغیر رہنے نہیں دیتیں۔ کنونشن میں شرکت کے لیے کینیڈا کے مختلف شہروں اور صوبوں سے ایک دن پہلے ہی لوگ پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔
11 اکتوبر، جمعے کی رات افتتاحی سیشن تھا۔ ایک بہت بڑے ہال میں ایک طرف مَردوں اور کچھ فاصلے پر عورتوں کی راؤنڈ ٹیبل کی شکل میں نشستیں تھیں۔ہم وہاں پہنچے، تو نمازِ عشاء کی جماعت کے لیے صف بندی ہو رہی تھی اور محمود و ایاز ربّ کے حضور سجدہ ریز ہو رہے تھے۔ ڈنر ہو چُکا تھا، پھر بھی محبّت اور گرم جوشی سے استقبال کرنے والوں نے میز پر کھانا سجا دیا۔ اِس موقعے پر کئی افراد سے ملاقاتیں ہوئیں۔الفلاح اسلامک سینٹر میں خواتین کے قیام کا انتظام تھا، تو کنونشن سینٹر سے آدھے گھنٹے کا فاصلہ میزبان خواتین کی گاڑیوں میں طے ہوا۔
یہاں مقیم نوّے فی صد خواتین گاڑی خود ڈرائیو کرتی ہیں کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں۔ گاڑی سے اُترے، تو رات گہری ہو رہی تھی اور سرد ہوائیں اٹکھیلیاں کر رہی تھیں۔الفلاح اسلامک سینٹر کی مسجد میں خواتین کے لیے مختص الگ اور خاصے بڑے حصّے میں اُن کے قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ امریکا اور کینیڈا سمیت سارے یورپ کی مساجد میں خواتین کا پورشن یہاں کا خوش نُما امتیاز ہے۔ خودکار ہیٹر کی وجہ سے اندر کا ٹمپریچر مناسب اور سونے کے لیے مسجد کے نرم قالین تھے۔ رفاقتوں کی تجدید، محبّت بَھری ملاقاتوں اور ہلکے ہلکے قہقہوں کا دل آویز منظر تھا۔
ایک طرف ازکی کمال، حریم آصف اور دیگر بچیاں اگلے دن کے’’Young Muslims ‘‘ پروگرام میں دینے کے لیے تحائف پیک کر رہی تھیں۔فجر کی اذان بہت قریب سے سُنی اور نماز باجماعت میں شرکت ہوئی۔ برابر کے کمرے میں کھانے کی میزیں لگی تھیں اور گرما گرم پاکستانی روایتی ناشتا سجا تھا۔پوریاں، پراٹھے، آلو کی ترکاری، انڈوں کے آملیٹ، تازہ پھل اسٹرا بیری، انناس اور گرم چائے۔
ساڑھے نو بجے کنونشن سینٹر لے جانے والی بس آگئی، جو بچّوں کی اسکول بس تھی اور پاکستانی نژاد خاتون بڑے اعتماد سے اُسے چلا رہی تھیں۔ ٹورنٹو کے اس کنونشن سینٹر میں بیک وقت ہزاروں افراد کی گنجائش ہے۔مرکزی ہال کے علاوہ کُھلی جگہ کو بڑے، موٹے پَردوں کے ذریعے چھوٹے ہالز میں تقسیم کیا گیا تھا، جن میں بیک وقت مختلف پروگرامز ہو رہے تھے۔
کنونشن سینٹر میں داخلے کی فیس پچاس ڈالر تھی۔ وہاں داخل ہوتے ہی سامنے رنگ برنگی اشیا سے سجے اسٹال تھے۔ پاکستان، عرب اور فلسطین کی مصنوعات، خُوش بُوئیں، زیتون، اسکارف، شال، تربوز والے بیجز، عبایا، کپڑے اور جیولری وغیرہ۔قیمتیں مناسب تھیں اور خریدو فروخت جاری تھی۔
مرکزی کنونشن ہال میں پروگرامز کے علاوہ گروپس کی صُورت مختلف موضوعات پر ورکشاپس بھی تھیں۔اکنا کنونشن کا بنیادی خیال’’ Unity of Ummah‘‘ تھا، جس پر مختلف مکتبہ ہائے فکر اور اپنے اپنے دائرے میں دعوت و تربیت کا فریضہ سرانجام دینے والے اسلامک اسکالرز نے زبردست گفتگو کی اور فقہی اختلافات نظرانداز کرتے ہوئے اُمّت کی یک جائی پر زور دیا۔مرکزی ہال میں مختلف اوقات میں شیخ عبدالرحمٰن، شیخ مدنی اور دیگر مسلم اسکالرز نے کنونشن کے تھیم پر خطاب کیا۔
ورکشاپس کے موضوعات میں شادی، خاندان کی بقا، دماغی صحت، خواتین، سیلف کیئر، بچّوں کی اسکولنگ، بچّوں کو درپیش چیلنجز اور والدین کی ذمّے داریاں وغیرہ شامل تھے۔ خواتین اسپیکرز میں ڈاکٹر ماریہ ہاشمی، سمیرا افضال، حمیرا جلیل، تیمیہ زبیر اور ڈاکٹر جویریہ سعید کے نام نمایاں تھے۔مرکزی ہال میں پروگرام کا آغاز خُوب صُورت تلاوتِ کلامِ پاک اور اس کے ترجمے سے ہوا۔
تلاوت کے بعد اعلان ہوا کہ اب قومی ترانہ پڑھا جائے گا، تو برابر میں بیٹھی سائرہ لیاقت نے کہا۔’’ دل سنبھالیے گا، پاک سر زمین نہیں پڑھا جائے گا۔‘‘ہم ہنس دیئے۔ نو دس سال کے بچّوں نے’’ او کینیڈا…‘‘بچپنے کے شوق سے پڑھا اور وہاں موجود بڑوں نے اُن کا ساتھ دیا۔ ہم نے سوچا’’ہر مُلک مُلکِ ماست کہ مُلکِ خدائے ماست۔‘‘ایک ہال میں’’اکنا خواتین‘‘ کے زیرِ اہتمام’’الضحیٰ انسٹی ٹیوٹ‘‘ کے تحت ہونے والے دوسالہ قرآن و حدیث کورس کی تکمیل کی پُروقار تقریب ہو رہی تھی۔
ہر عُمر کی خواتین گریجویشن کا مخصوص اسکارف پہنے، دمکتے چہروں کے ساتھ اسناد لے رہی تھیں۔ اِن خواتین گریجویٹس نے اسٹیج پر آکر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔الضحیٰ کی استاد صبا نجیب، اکنا خواتین کی مرکزی صدر فارحہ کمال اور شیخ عبدالرحمٰن نے اپنے خطاب میں علم کی اہمیت اور حصولِ علم کے فضائل پر رشنی ڈالی اور شرکاء کو مبارک باد دی۔
کنونشن کا ایک خاص ایونٹ’’matrimonial maching ‘‘کا پروگرام تھا اور اس کی رجسٹریشن فیس 120ڈالر تھی۔نوجوان لڑکے، لڑکیاں اور اُن کے والدین مناسب رشتوں کی تلاش کے لیے موجود تھے۔ ہال کے اِس حصّے کو پھولوں سے بہت خُوب صُورتی سے سجایا گیا تھا۔ ثمینہ ضیا اِس پروگرام کی روحِ رواں تھیں اور اندیشہ ہائے دُور دراز سے بے نیاز ایک اچھے کام کے آغاز کے لیے پُر امید بھی۔
کنونشن سینٹر کے بیچ میں باجماعت نماز کی جگہ تھی، جہاں اذان، اقامت اور جماعت کے ایمان افروز مناظر تھے۔ کھانا خود خرید کر کھانا تھا۔ عربی، مصری، عراقی شوراما، کنافہ، کباب اور چاول، حیدرآبادی دَم بریانی، چکن تکّے، چاؤمِن، سموسے، چائے، کافی اور سونے پہ سہاگا چھولے کی چاٹ اور پانی پوری بھی موجود تھی۔
مرکزی ہال میں’’اکنا ریلیف‘‘ کی ایک مختصر ویڈیو رپورٹ پیش کی گئی اور اِس دوران مالی وسائل کے لیے فنڈنگ بھی ہوئی۔ اسٹیج اناؤنسمینٹ نوجوان بچّے بچیوں کے سپرد تھی، جن میں ٹورنٹو یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم ہمارے نواسے بھی شامل تھے۔نوجوان بچّوں، بچیوں کی اناؤنسمنٹ، اُن کا پُرعزم لہجہ اور توانا آواز اُمّتِ مسلمہ کے اچھے، شان دار مستقبل کی نوید دے رہی تھی۔
یہ اکنا کے ذمّے داران اور رہنماؤں کے وژن کی آئینہ دار بھی تھی۔ مغربی ممالک میں اسلامی اسکالرز کے بہت گہرے اثرات ہیں اور ان اسکالرز کا دعوت و تربیت کے ضمن میں اہم کردار بھی ہے۔نیز، ان کا وہاں مقیم ہر مُلک اور ہر عُمر کے لوگوں سے گہرا تعلق بھی ہے، جس کا اندازہ اُن کے بھرپور استقبال سے بھی ہوا۔ یہاں مسلم اسکالرز کا سلیبریٹیز کی طرح خیرمقدم ہوتا ہے اور ہزاروں کا مجمع مکمل خاموشی کے ساتھ اُنہیں سُنتا ہے۔
ممتاز اسکالر، یاسر قاضی کا انتہائی والہانہ استقبال ہوا۔ ہال میں چار ہزار سے زاید افراد کی گنجائش تھی اور وہ کھچا کھچ بَھرا ہوا تھا۔یاسر قاضی مسلم اُمّہ کو سیاسی بے داری کا سبق دے رہے تھے۔ شیر کی طرح گرج دار آواز، فلسطین اور غزہ کی دل خراش حقیقت کے پس منظر میں اُٹھنے اور کچھ کرنے کا جذبہ سمندر کی طرح موجزن تھا۔
یاسر قاضی نے مغرب میں آزادئ رائے کی اہمیت کو سمجھنے اور مغرب سے مکالمے پر زور دیا۔ اکنا کے مرکزی صدر اعجاز طاہر کی تقریر، شرکاء کے شُکریے اور دُعا پر کنونشن اپنے اختتام کو پہنچا اور اگلے سفر کے لیے ایمان اور جذبے کا زادِ راہ لیے سب اپنے اپنے ٹھکانوں کی طرف روانہ ہوئے۔
اِس کنونشن میں ایک خاص بات یہ ہوئی کہ انٹر کالج اور میڈیکل کی کچھ پرانی دوستوں سے نعمتِ غیر مترقبہ کے طور پر ملاقات ہوگئی اور سال کے بیش تر حصّوں میں برف سے ڈھکے کینیڈا کے سب سے بڑے شہر میں علّامہ اقبال کا یہ شعر حقیقت بن کر سامنے آتا رہا۔؎مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری…تھمتا نہ تھا، کسی سے سیلِ رواں ہمارا۔‘‘