میں چسکا پارٹی سے بہت دور صرف اور صرف پاکستان کے عشق میں گرفتار یہ سوچتا ہوں کہ آخر ہمارے ملک کو ٹھیک چلتے چلتے اچانک بریکیں کیوں لگ جاتی ہیں؟ جب بھی ملکی ترقی کیلئے حالات ساز گار محسوس ہوتے ہیں وقت کے حکمران ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، ایک صفحہ اچانک سے کیوں پھٹ جاتاہے۔ کون ہے جو اس صفحے پر سنہری حروف لکھنے کی بجائے سیاہی پھیر دیتا ہے۔ سازشی لوگوں کا کام ہی سازشیں کرنا ہے۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر اقتدار کی کرسی سے اتارنے کی یہ روش دہائیوں پرانی ہے۔ ہم ایک دوسرے میں اچھائیاں تلاش کرنے کی بجائے کیڑے نکالنے میں لگے رہتے ہیں کیا ہی اچھا ہوکہ ہم یہ روش چھوڑ کر اس ملک کی خاطر، دہشت گردی کے خلاف اورمعاشی ترقی و سیاسی استحکام کی خاطر ایک ہو جائیں۔ ہم نے تو جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ ہر بُرے کام کا ملبہ اسٹیبلشمنٹ پرڈال دینا ہے۔ عدالتی فیصلے حق میں آئیں یا مخالفت میں ان پر سیاسی طوفان کے نام پر معاشی بحران پیدا کرنا تو جیسے ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ہماری سیاست سازش پر چمکتی ڈوبتی ہے۔ آپ خیبر سے کراچی تک کےحالات حاضرہ پر گفتگو کرلیںایک سے بڑھ کرایک ارسطو ملے گا۔ امن و امان، معاشی ترقی،سیاسی و سماجی امور پر گفتگو ہو تو دلیل کے سامنے ایک ہی رٹ لگائی جاتی ہے کہ سب کچھ اُن کا کیا دھرا ہے۔ اپنے گریبان میں کوئی نہیں جھانکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں پاکستان کی سیاست اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیوں کے سہارے ہی چلتی رہی ہے، پیپلز پارٹی ہو، ن لیگ یا پی ٹی آئی ان کی حکومتوں کا آنا جانا، اسٹیبلشمنٹ کا مرہون منت رہاتو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کا اپنا کردار کیا رہا۔ قصور وار کون ہے؟ آج تحریک انصاف والے انتخابی نتائج پر رونا پیٹنا کر رہے ہیں تو گزشتہ کل ن لیگ یہی سیاپا کرتی پائی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر چڑھائے گئے، کالعدم ٹی ٹی پی کے ہاتھوں بے نظیر بھٹو شہید ہو گئیں۔ سیاست دانوں نے وقت گزرنے کے ساتھ کوئی سبق کیوں نہ سیکھا۔ دو بڑے سیاسی مخالف میثاق جمہوریت کے نام پر ایک ہو گئے تھے۔ یہ اسی میثاق کا نتیجہ ہے کہ آج اچھی بُری ہی سہی جمہوریت تمام تر اختلافات کے باوجود رینگ رہی ہے۔ اب یہ فیصلہ تو عوام اور سیاست دانوں نے کرنا ہے کہ ان کٹھن حالات میں ایک طرف دہشت گردی کا اژدھا منہ کھولے کھڑا ہے،دوسری طرف معیشت کی رُکتی سانسیں تھوڑی بہت چلنے لگی ہیں تو ایسا کیا رویہ اپنایا جائے کہ سانپ بھی مر جائے، لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور پاکستان کے خلاف دشمن کی تمام اندرونی و بیرونی سازشیں ناکام بنا دی جائیں۔ لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کی گاڑی میں سوار سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر حملہ، نواز شریف کی آمد پر گھیراؤ اور نعرے بازی، غیر ملکی شہریت رکھنے والے چند نام نہاد پاکستانی اور کچھ.... آخر کس کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ مادر پدر آزادی کے نام پر یہ گلو بٹ کس کے کہنے پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ چند پونڈوں کے عوض سوشل میڈیا پر اوچھی حرکتیں کرنے والے یہ ”پونڈے“ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی ان حرکتوں سے وہ قیدی نمبر 804 کو رہا کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے تو یاد رکھیں کہ وہ الٹا اُس کی بیڑیوں میں وٹے ڈال رہے ہیں۔ وہ آج جو کر رہے ہیں کل ان کے لیڈر کو بھی یہ بھگتنا پڑ سکتا ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ خان نے ہمیشہ اڈیالہ جیل میں تو نہیں رہنا۔ اگر یہ لوگ کسی کی عزت نہیں کرسکتے تو کم از کم پاکستان کی عزت کا ہی خیال کر لیں۔ کون نہیں جانتا کہ بیرونی دنیا سے تعلقات خراب کرنے، پاکستان کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنے، آئی ایم ایف پروگرام کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے، امریکی اراکین کانگریس کے خط میں صدر بائیڈن کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت پر اکسانے جیسے معاملات میں پی ٹی آئی کی سپانسرڈ لابنگ فرمیں اب تک کیا کردار ادا کر رہی ہیں، کوئی دو آرا نہیں کہ کچھ دشمن نما سازشی لوگ نہیں چاہتے کہ بانی پی ٹی آئی اڈیالہ جیل سے باہر آئیں۔ ان کی روٹی روزی اسی میں ہے کہ سیاسی ٹکراؤ کی موجودہ صورت حال جوں کی توں رہے۔ ان کی ممبری اور وکالت اسی پر چل رہی ہے کہ سیاسی انتشار ہرروز بڑھتا جائے۔ تحریک انصاف والے تو خود سے بھی انصاف نہیں کر پا رہے، ملک کے ساتھ کیا انصاف کریں گے۔ بیرون ملک زلفی بخاری، شہزاد اکبر، شہباز گِل، خان کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک رہے ہیں۔ کوئی بانی سے پوچھتا کیوں نہیں کہ آخر ایسے بیرونی کرداروں کا ملکی سیاست سے کیا تعلق ہے؟ خان کے نام پر سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی برپا کیا جا رہا ہے دشمن کی اس گھناؤنی سازش کو ٹھنڈے دل سے سمجھئے، میرا موضوع صرف پاکستان ہے۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ اگر میں یہ لکھتا ہوں کہ پنجاب کے خلاف نفرت کی سیاست کے پیچھے بھی ایک گہری سازش ہے تو پس منظر میں کچھ ٹھوس وجوہات بھی ہیں۔ سہولت کاری اسی کو کہتے ہیں کہ آپ اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے مخالفین پر الزام تراشی کرتے رہیں۔ پنجاب میں مریم نواز کی حکومت دن رات ترقیاتی کاموں پر توجہ دے رہی ہے۔ امن و امان کی صورت حال کا خیبر پختونخوا اور بلوچستان سے کسی صورت موازنہ ممکن ہی نہیں۔ گنڈا پورکی صوبائی حکومت نے اپنے عوام کو محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ترقیاتی فنڈ کہاں لگتے ہیں، پیسہ کس کی جیب میں جاتا ہے۔ تعلیم و صحت کا نظام کہیں نظر نہیں آتا اور کوئی ان کوتاہیوں کا جواب دینے کو تیار نہیں۔ سوات میں غیر ملکی سفارت کاروں کے قافلے پر حملے سے دو روز قبل میں نے مالم جبہ جہان آباد روڈ سے کالام تک سفر اور قیام کیا۔ بعد ازاں پشاور جانے کا اتفاق بھی ہواجو کچھ دیکھا آنکھیں دنگ رہ گئیں۔ (جاری ہے)