منگل کا دن بہت اہم ہو گا جب 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس منعقد ہوگا، جس میں سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کے حامل سپریم کورٹ کے آئینی بینچوں کا فیصلہ ہو گا۔ یہی آئینی بینچ اب مخصوص نشستوں کے حوالے سے جاری تنازعات کا فیصلہ کریں گے، انہی آئینی بینچوں سے تحریک انصاف کو امید ہو گی کہ 8فروری کے انتخابات کے نتائج کے آڈٹ کا فیصلہ کر کے پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام یا نئے الیکشن کا راستہ ہموار ہو گا۔ اس کے برعکس انہی آئینی عدالتوں سے حکومت کو یہ امید ہو گی کہ وہ کوئی مس ایڈونچر کر کے شہباز شریف حکومت کے خاتمے کا ذریعہ نہیں بنیں گی۔ حکومت اور اپوزیشن (جن کی اس کمیشن میں نمائندگی بھی ہو گی) دونوں کی کوشش ہو گی کہ اُن کی مرضی یا جن ججوں کو وہ اپنے حق میں سمجھتے ہیں اُن کو آئینی بینچوں میں شامل کیا جائے۔ جوڈیشل کمیشن میں شامل چار میں سے دو ججوں یعنی جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے متعلق حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے برخلاف کھڑی نظر آتی ہیں۔ یہ دونوں جج حضرات آج کل تحریک انصاف کے پسندیدہ ججوں میں شامل ہیںاور حکومتی جماعتیں ان کے متعلق منفی رائے رکھتی ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ جسٹس منصور اور جسٹس منیب کو آئینی بنچوں میں شامل نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ وہ متنازع ہیں۔ وہ تو چیف جسٹس کو غیر متنازع ہونے کی وجہ سے بھی یہ مشورہ دے رہے تھے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی آئینی بینچ کے سربراہ نہ بنیں۔اس کے برعکس تحریک انصاف کی خواہش ہے کہ تینوں سینئر ترین جج آئینی بینچ کا حصہ بنیں۔ تحریک انصاف تو 12 جولائی کا فیصلہ کرنے والے آٹھ ججوں کو ہی تمام آئینی بینچوں میں شامل کرنے کی حامی ہو گی۔ جس جوڈیشل کمیشن کا منگل کو اجلاس ہونے جا رہا ہے اُس میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ترین جج حضرات شامل ہوں گے۔ اس میں حکومت کے پانچ نمائندے ہوں گے، دو اپوزیشن کے نمائندے اور ایک بار کونسل کے نمائندہ ہوں گے۔ بدقسمتی سے سپریم کورٹ کے اکثر ججوں کے حوالے سے پہلے سے یہ تاثر موجود ہے کہ کون کیا فیصلہ کر سکتا ہے جس کی وجہ سے سب کی نظریں جوڈیشل کمیشن کے منگل کے اجلاس پر مرکوز ہیں۔ اگر جج سیاسی لحاظ سے اس تقسیم کا شکار نہ ہوتے اور ججوں کے نام سن کے اُن کے فیصلوں کا اندازہ نہ ہوتا تو پھر آئینی بینچوں کے بنائے جانے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں اور میڈیا کی اتنی دلچسپی نہ ہوتی۔جب تک جج سیاسی لحاظ سے تنازعات کا شکار اور سیاسی اور آئینی فیصلوں میں Predictable ہوں گے تو پھر آئینی بینچ بھی سیاسی طور پر کھینچاتانی کا شکار ہی رہیں گے۔مسئلہ بنیادی طورپر ججوں کی اپنی ساکھ کا ہی ہے۔ اگر سیاسی اور آئینی مقدمات کے کئی فیصلوں کے بعد موجودہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی غیر متنازع اور سب کیلئے قابل قبول ہی رہے تو سپریم کورٹ کے اکثر جج کیوں کسی ایک سیاسی جماعت یا کسی دوسری سیاسی جماعت کے جج کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے ججوں کو چاہیے کہ وہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی طرح اپنے آپ کو جذباتیت، سیاسی طور پر کسی جھکائو، سوشل میڈیا کے پریشر اور ہیرو بننے کے تاثر سے دور کرتے ہوئے قانون اور آئین کے مطابق فیصلے کریں، کسی بھی طور پر Predictable نہ ہوں اوراپنے آئینی اور قانونی دائرہ کار کو سمجھیں۔ جج فیصلے انصاف فراہم کرنے کیلئے کریں نہ کہ اس لیے کہ اُن کی میڈیا میں واہ واہ ہو، ہیڈ لائنز بنیں۔ ججوں اور عدلیہ کیلئےجو بات سب سے مقدم ہونی چاہئے وہ جلد اور سستے انصاف کی فراہمی ہے جس میں ہمارے جج اور عدلیہ مکمل ناکام رہے اور اسی وجہ سے ہمارے عدالتی نظام کا دنیا میں کوئی مقام نہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اب کھیل میرا جج، تیرا جج سے آگے بڑھ کر ایک سیاسی دھڑے کا حمایتی آئینی بینچ یا دوسرے سیاسی دھڑے کے آئینی بینچ تک پہنچ چکا ہے۔ اس نکتہ پر جج حضرات ذرا غور فرمائیں۔