تحریر: ڈاکٹر نعمان برلاس۔ نیوکاسل قصہ سناتے سناتے چوہدری صاحب کے چہرے پر تفاخرانہ مسکراہٹ پھیل گئی انہوں نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر بولے دونوں ملازموں نے تیسرے دن ہی ہاتھ جوڑ دئیے اور درخواست کی کہ انہیں کسی کام پر لگا دیا جائے۔ چوہدری ابراہیم خلیل ہمارے کارڈیالوجسٹ دوست ڈاکٹر حامد خلیل کے والد گرامی تھے۔ چوہدری صاحب ان دنوں محکمہ زراعت میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔ جٹ برادری کے سر خیل! خالصتاً دیہاتی پس منظر مگر انگریزی زبان لکھنے اور بولنے میں کمال مہارت۔ ظاہری طور پر طبیعت میں سختی مگر اندر سے انتہائی مشفق پڑھنے والے بچوں کے قدر دان۔ وہ بلا کا حافظہ رکھتے تھے۔ کہیں سے ہمارے آٹھویں جماعت کے بورڈ کے امتحان کا گزٹ لے آئے۔ اچھے نمبر لینے والے تمام بچوں کی فہرست بنا ڈالی، بعد ازاں میٹرک اور ایف ایس سی کے امتحانوں میں بھی یہی مشق کی کہ دیکھیں کون سے بچے تینوں امتحانوں میں اچھی کارکردگی کو برقرار رکھ سکے۔ کئی سال گزرنے کے بعد بھی انہیں ہم سب کے نمبر تینوں امتحانوں میں درجہ بدرجہ ازبر تھے۔ نوکری کے سلسلے میں پنجاب کے کئی اضلاع میں خدمات انجام دیں۔ اس دن وہ دراصل مجھے جنوبی پنجاب کے ایک ضلع میں اپنی تعیناتی کا قصہ سنا رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ چارج لیتے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ تاہم میں نے اپنے تجربے اور مردم شناسی کو بروئے کار لاتے ہوئے آفس میں سے ایک شریف النفس ملازم کا انتخاب کیا تاکہ اصل صورتحال کا اندازہ کیا جا سکے۔ ملازمین کی فہرست تیار کروائی تو معلوم ہوا بہت سے لوگ عرصہ دراز سے غائب ہیں۔ کچھ دنوں کی محنت سے حاضری معمول پر آنے لگی مگر دو ملازم ابھی بھی حاضری لگاتے ہی غائب ہو جاتے تھے۔ میرے استفسار پر معتمد خاص نے بتایا کہ وہ ایک بڑے مقامی سردار کے بندے ہیں اور انہیں نہ چھیڑنے میں ہی سلامتی ہے۔ میرے لئے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھی کہ اگر میں انہیں کام پر نہیں لگا سکتا تو دفتر میں باقی سٹاف کو حاضر رکھنا ان کے ساتھ سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے۔ میں نے کہا کل انہیں میرے آفس میں لانا۔ اگلی صبح جب ان دونوں سے آمنا سامنا ہوا تو میں انتہائی شفقت سے پیش آیا اور کہا سنا ہے کہ تم دونوں فلاں سردار کے بندے ہو۔ اس پر انہوں نے سینہ پھلا کر ہاں میں جواب دیا جیسے یہ سوچ رہے ہوں کہ تو ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ میں نے بڑے پیار سے کہا کہ میں تم دونوں سے کوئی کام نہیں کروانا چاہتا مگر میں نے اپنے دفتر کے کونے میں ایک میز اور دو کرسیاں رکھوا دیں ہیں تم دونوں تمام دن ان کرسیوں پر میرے سامنے میرے دفتر میں بیٹھو گے بس یہی تمہاری دیوٹی ہے۔ سردار کے بندوں کو عزت سے بیٹھنا چاہئے۔ دونوں کے چہروں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ تاہم پہلے دن کے اختتام پر ہی ان کے چہروں سے اکتاہٹ عیاں تھی۔ میرا ان سے رویہ بھی انتہائی مشفقانہ تھا کہ وہ کوئی شکایت نہ کر سکیں۔ سارا دن مٹر گشت کرنے والوں کے لئے اس طرح ایک ہی جگہ جم کر بیٹھنا کسی بڑی سزا سے کم نہ تھا اس کا اندازہ میں پہلے ہی کر چکا تھا۔ لہٰذا تیسرے دن تک دونوں نے ہی ہاتھ جوڑ دئیے کہ جناب ہمیں کسی کام پر لگا دیجئے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ہمارے شعبہ اطفال کے ماہر ڈاکٹر الیاس کو پیش آیا۔ دیہاتی ہسپتال میں کام کرتے ہوئے ایک دن ان کے ہاں ایک شخص نے آ کر خوب شور شرابہ کیا کہ اسے دوسرے مریضوں پر فوقیت دی جائے کیونکہ کہ وہ سردار کا بندہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب بولے مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آیا میں نے فی البدیہہ اونچی آواز میں کہا کہ تو سردار کا بندہ ہے تو میں اللہ کا بندہ ہوں۔ یہ سنتے ہی وہ ایک دم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ انسانی نفسیات کے مطابق انسان نہ صرف کسی بڑی یا طاقتور شخصیت سے نسبت پر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے بلکہ اس سے ناجائز فائدہ بھی اٹھاتا ہے۔ حضرت موسیٰؑ سے مقابلے کیلئے بلائے گئے جادو گروں نے جب فرعون سے پوچھا کہ اگر ہم جیت گئے تو ہم کو کوئی بڑا صلہ ملے گا تو اس پر سورہ اعراف میں بیان کیا گیا فرعون کا جواب قابل غور ہے بولا، ہاں اور تم مقرب لوگوں میں داخل ہو جاؤ گے۔ یعنی اگر عام زبان میں کہیں تو لوگ تمہیں فرعون کے بندے سمجھیں گے۔ قرآن میں متعدد سورتوں میں جیسے سورہ کہف اور سورہ اسراء کی ابتدائی آیات میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے نبی آخرالزماںﷺ کو اپنا بندہ قرار دیا جو بے شک بہت بڑا مقام ہے۔ چنیدہ عنوان میں بھی ہم جیسے عام لوگوں کے لئے اللہ کے بندے کا ذکر ہے اور اس کی خصوصیات اگلی آیات میں بیان کی گئی ہیں جنہیں اپنا کر اللہ کا بندہ بنا جا سکتا ہے۔ ایک طرف ہیں دنیاوی سرداروں کے بندے جو عارضی طاقت کے نشے میں دھت ہر لحظہ لوگوں کا جائز ناجائز طریقے سے استحصال کرنے کو تیار جبکہ دوسری طرف ہیں مالک حقیقی، حاکم حقیقی کے بندے عجزو انکساری اور تسلیم و رضا کے پیکر، انتخاب آپ کا ہے۔ سورہ الفرقان آیات 68-63رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام۔ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی برا مستقر اور مقام ہے۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے۔ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔