تحریر:محمد رجاسب مغل…بریڈفورڈ پیرس جسے روشنیوں اور خوشبوؤں کا شہر کہا جاتا ہے آخرکار ہمارے سفر کا محور بن ہی گیا۔ آن لائن ٹکٹ کی مناسب قیمت دیکھ کر اہلیہ نے فوراً بکنگ کر الی بعد میں پتا چلا کہ ہماری پرواز بووئے ائرپورٹ پر پہنچے گی جو پیرس شہر سے ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے اور پرواز بھی رات کی ہے سوچا کہ ائرپورٹ کے قریب ہی ہوٹل بُک کر الیتے ہیں اور اگلی صبح عوامی ٹرانسپورٹ سے پیرس چلے جائیں گے۔ ہوٹل بکنگ کے دوران خیال آیا کہ میڈیا کے ہمارے ساتھی رضا چوہدری جو جنگ اور جیو کے سینئر صحافی ہیں، ان سے مشورہ کر لیا جائے، ان سے رابطہ ہوا تو انہوں نے فوراً رہائش اور ائرپورٹ ٹرانسفر کا بندوبست کر دیا، ہماری پرواز مانچسٹر سے شام آٹھ بجے کی تھی جو ایک گھنٹہ لیٹ ہو گئی۔ ایک گھنٹے کا سفر تھا اور ہم بووئے ائرپورٹ پہنچے، ائرپورٹ سے باہر نکلے تو رضا چوہدری کے عزیز نے ہمیں رہائش گاہ پہنچا دیا، ہمارا قیام فرانس کے شہر سارسل میں تھا جو پیرس سے تقریباً 18 کلومیٹر دور ہے، فرانس میں جدید عوامی ٹرانسپورٹ جس میں باالخصوص ٹرام اور زیر زمین میٹرو کا عمدہ نظام ہے۔ رات کو جب ہم سارسل پہنچے تو ڈاکٹر سید کمال حسین شاہ نے ہمیں اپارٹمنٹ دکھایا اپارٹمنٹ کافی بڑا تھا جو دینی سرگرمیوں کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، رات کافی ہو چکی تھی ہم جلد سو گئے اگلی صبح تیار ہو کر باہر نکلے تو رہائش سے سو میٹر کے فاصلے پر ایک عمارت نظر آئی جس پر ملالہ یوسفزئی کا نام اور تصویر آویزاں تھی یہ ایک یوتھ کمیونٹی سینٹر تھا جو نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ معلوم رہے فرانس میں مسلمانوں کی تعداد 60لاکھ سے زائد ہے اور کچھ سال قبل فرانسی جریدے کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد یہاں کے مسلمانوں اور مقامی کمیونٹی کے درمیان کشیدگی رہی، سارسل میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور مسلمانو ں کے علاوہ یہاں جنوبی افریقی کمیونٹی کی بھی خاصی تعداد ہے، اس شہر میں نوجوان خواتین، باالخصوص سکارف پہنے بڑی تعداد میں اسٹورز پر کام کرتی دکھائی دیتی ہیں، فرانس میں زبان کی وجہ سے کمیونی کیشن میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے، ایسے موقع پر فون ترجمان کے طور پر کام کرتے ہیں، سفر کے آغاز کیلئے قریبی اسٹیشن سے ٹریول کارڈ لیا اور جلد ہی بسوں، ٹرینوں اور انڈر گرائونڈ میٹرو کے نظام کی معلومات ہو گئیں جس سے اندرون پیرس سفر آسان ہو گیا۔ پیرس کی میٹرو یورپ کی مصروف ترین میٹرو ہے۔ ٹرین اور میٹرو کے ذریعے ہم پیرس شہر پہنچے جو دریائے سین کے کنارے واقع ایک خوبصورت شہر ہے۔ پیرس کو آرٹ، فیشن اور ثقافت کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے سیاح پیرس کا رخ کرتے ہیں اور اسے روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اور یہ نام اس شہر کو 1860 میں اس وقت دیا گیا جب بجلی کا قمقمہ ایجاد نہیں ہوا تھا اور پیرس کی سڑکوں پر چھپن ہزار گیس سے چلنے والی لائٹس نصب کی گئی تھیں، ہم نے سب سے پہلے دریائے سین میں کروز پر بیٹھ کر سیر کی، دریائے سین شہر کے بیچ میں بہتا ہے جس کے دونوں کناروں پر خوبصورت مناظر ہیں۔ غروب آفتاب کے وقت ایک گھنٹہ دریا کی سیر سے خوب لطف اندوز ہوئے دوسرے روز ہم نے پیرس شہر گھومنے میں ہی گزارا، ہم ویسٹ فیلڈ سینٹر کے اسٹیشن سے نکلے تھوڑا سا پیدل چلے تو ہمیں روئیل پیلس نظر آیا روئیل پیلس پیرس کی ایک تاریخی یادگار ہے جو اصل میں 17ویں صدی میں کارڈینل رچیلیو کیلئے بنایا گیا تھا اپنے خوبصورت فن تعمیر، دلکش باغات اور بھرپور ثقافتی ورثے کیلئے مشہور ہے شہر کے عین مرکز میں واقع یہ پیرس کی ہلچل سے بھرپور سڑکوں کے درمیان ایک پرسکون اور دلکش ماحول پیش کرتا پھر وہاں سے پیدل ہی فون پر لائیو ڈائریکشن لگا کر لوور میوزیم دیکھنے کے لئے گئے جو کہ دنیا کا سب سے بڑا آرٹ میوزیم ہے۔ دریائے سین کے دائیں کنارے پر واقع یہ عجائب گھر ایک خوبصورت اور وسیع و عریض عمارت کے اندر ہے اور شہر کا اہم لینڈ مارک ہے۔ مونا لیزا کی مشہور زمانہ پینٹنگ بھی اسی میوزیم کی زینت ہے، اس کے علاوہ بے شمار فن پارے اور آرٹ کے نمونے یہاں پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پیرس میں گھومنے کیلئے اوپن بسیں بھی چلتی ہیں جو سارے شہر کے مختلف مقامات پر لے کر جاتی ہیں تاہم پیرس میں دریائے سین کے کنارے سائیکل رکشہ میں بیٹھ کر نظارے کا اپنا ہی مزا ہے ہم نے لوور میوزیم کے باہر سے سائیکل رکشہ بک کیا جس نے پیرس شہر کی سیر کرائی راستے میں فرانس کی پارلیمنٹ اور دیگر مقامات بھی اسی سائیکل رکشہ میں بیٹھ کر دیکھے اور اس نے ہمیں ایفل ٹاور تک پہنچا دیا۔ رات ہو چکی تھی ہم کافی تھک چکے تھے اب زیر زمین میٹرو تک جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی بھوک بھی بہت لگی تھی، اہلیہ سے مشورہ کیا رات سینٹرل پیرس میں رک جاتے ہیں یہاں کوئی کمرہ بک کر لیتے ہیں اہلیہ فون پر سے میٹرو اسٹیشن کی لوکیشن چیک کر رہی تھیں تاکہ جلدی جلدی اپنی رہائش گاہ پر پہنچ جائیں فون پر سرچ کیا تو قریب ہی ائر بی این بی اپارٹمنٹ نہایت ہی سستا مل رہا تھا ہم نے فوراً بک کر لیا رات کو سینٹرل پیرس کی رونق زیادہ تھی باالخصوص دریائے سین کے ساتھ تھیٹر کے ساتھ باہر کھڑے ہوں تو روشنیوں سے جگ مگ کرتا سامنے ایفل ٹاور نظر آتا ہے لوگ اس خوبصورت نظارے کو دیکھنے اور اپنے کیمروں میں اس خوبصورت منظر کو محفوظ کر رہے تھے اسی مقام سے سامنے ایونیو کلیبر تھا جہاں ہمارا اپارٹمنٹ تھا یہ علاقہ لندن کے ایجویر روڈ جیسا ہی تھا جہاں جگہ جگہ کیفے شیشہ لاونج کھلے تھے وہاں ہی ہمیں نیو جواد پاکستانی ریسٹورنٹ نظر آیا، بھوک لگی تھی اندر داخل ہوئے، ایک نوجوان جس نے اپنا تعارف شانی نام سے کرایا اور ہمارا استقبال کیا اور بڑے خلوص سے پیش آیا اس سے جب مزید تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ وہ نوجوان کھڑی شریف سے تعلق رکھتا تھا اور گزشتہ12 سال سے پیرس میں کا م رہا تھا ایک اور نوجوان بھی وہاں موجود تھے اس کا تعلق منگلا سے تھا انہوں نے بہترین مہمان نوازی کی کھانے کے بعد انہوں نے اپنی طرف سے کھوئے کی کلفی اور آخر میں کڑک چائے اور قہوہ سے تواضع کی جس سے دن بھر کی تھکن دور ہو گئی انہوں نے بہت خلوص کے ساتھ رخصت کیا اپنا پرسنل فون نمبر دیا کہ کسی قسم کا بھی کوئی مسئلہ ہو تو فون کر لینا دوسرے دن ہم نے چیک اوٹ کیا اسی ایونیو کلیبر پر تھوڑی دوری پر ہمیں آرک ڈی ٹرانمف کا آرچ نظر آرہا تھا ہم آرک ڈی ٹرانمف دیکھنے کے لیے پہنچ گئے آرک ڈی ٹرانمف فرانس کی فتوحات میں اور انقلاب فرانس کے دوران جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کی یاد میں تعمیر کی گئی تھی ویسے تو پیرس کی سبھی شاہراہیں انتہائی کشادہ ہیں عظیم الشان آرک ڈی ٹرانمف بھی ایک کشادہ راونڈ اباوٹ کے درمیان میں تعمیر کی گئی ہے جہاں سے بارہ شاہراہیں نکلتی ہیں۔ آرک کی اونچائی پچاس میٹر ہے اور اوپر جانے کیلئے سیڑھیاں اور لفٹ دونوں سہولیات میسر ہیں پیرس میں اکثر کیفے و ریسٹورنٹ سڑک کے کنارے واقع ہیں گاہکوں کے کھانے کا اہتمام بھی سڑک کے کنارے سجائی میزوں پر کیا جاتا ہے ہم نے بھی وہاں ہی بیٹھ کر ناشتہ کیا دن بھر پیرس شہر میں گھومتے رہے شام کو واپس سارسل اپنی رہائش گاہ پر پہنچے رات دیر تک میزبان ڈاکٹر سید کمال حسین شاہ صاحب کے ساتھ نشست رہی۔ ڈاکٹر سید کمال حسین شاہ مذہبی اسکالر ہیں فرانس میں ان کی بڑی دینی اور روحانی خدمات ہیں سادات کرام میں سے ہیں دو سو سے زائد غیر مسلموں کو انہوں نے کلمہ طیبہ پڑھا کر دائرہ اسلام میں داخل کیا وہ خود بھی باقاعدہ بحیثیت ڈاکٹر فرانس کے ہسپتال میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے ان کی بیگم بھی حاضر سروس ڈاکٹر ہیں واپسی کی پرواز بووئے ائرپورٹ سے ہی تھی، پرواز کا وقت صبح آٹھ بجے تھا ہمیں صبح چھ بجے ائرپورٹ پہنچنا تھا اس کیلئے خواجہ طاہر نے محبت کا اظہار کیا فرانس ہی میں مقیم ان کے دوست عمران نے ہمیں بوئے ائرپورٹ چھوڑا عمران نہایت نفیس اور خوش اخلاق طبعیت کے مالک انسان ہیں وہ گھر سے ہی چائے بنوا کر لے آئے تھے جس سے دوران سفر انہوں نے تواضع کی دوران سفر عمدہ گفتگو رہی، پیرس مختصر سفر کی وجہ سے اگر چہ سارا پیرس تو نہ دیکھ سکے مگر مختصر وقت میں بہت سی خوشگوار یادیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔