• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشتری ہوشیار باش! آپ کی جیب، اکاؤنٹس سب نشانے پر ہیں

٭ ایک شخص اپنے خیالوں میں مگن فُٹ پاتھ پر چلا جارہا تھا۔ایک جگہ، جہاں نسبتاً رش کم تھا، ایک موٹر سائیکل سوار شخص نے اُسے اچانک روکا اور ایک کاغذ دِکھاتے ہوئے کہا۔’’بھائی صاحب! مجھے اِس کالونی جانا ہے۔ وہاں جانے کے لیے کون سی بس ملے گی۔‘‘ وہ شخص رُک کر کاغذ پر دیا گیا ایڈریس پڑھنے لگا، تو دوسرا شخص یک دَم اُس کے بہت نزدیک ہو گیا اور پھر پتا پوچھ کر بائیک پر بیٹھا اور یہ جا، وہ جا۔

وہ ابھی نظروں سے اوجھل ہی ہوا تھا کہ اچانک پولیس وردی میں ملبوس دو افراد اُس شخص کے پاس آئے اور اُسے تھانے چلنے کو کہا۔ اُس نے وجہ پوچھی، تو وہ بولے۔’’ابھی کچھ دیر پہلے جو شخص تم سے باتیں کر رہا تھا، تم جانتے ہو، وہ کون تھا؟ وہ ایک اشتہاری مجرم ہے اور ہم کافی دیر سے اُس کے تعاقب میں ہیں۔ ہم ابھی اُس کے نزدیک پہنچے ہی تھے کہ وہ موٹر سائیکل پر بیٹھ کے فرار ہوگیا۔‘‘ پھر اُنھوں نے اُسے ایک ویڈیو دِکھائی، جس میں وہ شخص اُس سے باتیں کر رہا تھا۔ 

اِس سوال کے جواب میں کہ’’اُسے اُنہوں نے اُس وقت کیوں نہ پکڑا، جب وہ باتیں کررہا تھا؟‘‘وردی پوش افراد نے کہا۔’’ ہم دیکھ رہے تھے کہ اُس کے گینگ میں اور کون کون لوگ شامل ہیں۔ ہم ابھی ہاتھ ڈالنے ہی والے تھے کہ وہ فرار ہوگیا، لیکن تمہارے علم میں یقیناً ہوگا کہ وہ کون ہے اور اس کا ٹھکانہ کہاں ہے؟‘‘اُس شخص نے اپنی بے گناہی کا لاکھ رونا رویا، لیکن اُن کا کہنا تھا کہ ’’اوپر سے آرڈر ہیں، سو، ہم کچھ نہیں کرسکتے۔‘‘

اسی بحث و تکرار میں وہ اُسے سڑک کے ایک طرف لے گئے اور بہت رازدارانہ انداز میں کہا۔’’ تھانے چلنےسے بہتر ہے، یہاں ہی کوئی مُک مکا کر لو، باقی ہم سنبھال لیں گے۔‘‘ اُس شخص کے پاس اس وقت60 ہزار روپے تھے، جو اُس نے بینک سے نکلوائے تھے۔ بہرکیف، لمبی بحث و تمحیص کے بعد50 ہزار دے کر اُس کی جان چُھوٹی۔ ظاہر ہے، وہ دونوں پولیس کی جعلی وردیوں میں ملبوس تھے اور بینک ہی سے اُس کا تعاقب کررہے تھے۔ ممکن ہے، بینک کے کچھ ملازمین سے بھی اُن کا رابطہ ہو۔

٭نسبتاً ایک ویران اور غیر معروف سڑک پر دو افراد کو آپس میں اُلجھتا دیکھ کر ایک موٹر سائیکل سوار رُک گیا۔ وہ دونوں فوراً اُس کی طرف متوجّہ ہوئے۔ اُن میں سے ایک نے کہا۔’’بھائی صاحب! ہمارے معاملے کا آپ ہی فیصلہ کریں، ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔‘‘ اُن میں سے ایک نے کہا۔’’مَیں یہاں سے گزر رہا تھا کہ مجھے یہ پوٹلی راستے میں پڑی ہوئی ملی۔ مَیں اِسے اُٹھا کر کھولنے ہی والا تھا کہ یہ شخص پہنچ گیا۔ 

ہم دونوں نے پوٹلی کھولی، تو اس کے اندر سونے کی چوڑیاں، ہار اور انگوٹھیاں تھیں۔ بعد میں آنے والا یہ شخص کہتا ہے کہ اس مال پر اس کا بھی حق ہے، حالاں کہ یہ تھیلی تو مجھے زمین پر پڑی ملی تھی۔‘‘ دوسرے شخص نے کہا کہ’’ ہم دونوں نے ایک ساتھ اسے کھولا، اِس لیے اِس پر میرا بھی اُتنا ہی حق ہے، جتنا اس کا، لیکن یہ شخص بضد ہے کہ یہ ساری چیزیں اس اکیلے ہی کی ہیں۔‘‘ موٹرسائیکل سوار نے زیورات دیکھے، تو اُس کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ وہ خالص سونے کے لگتے تھے۔

بہرحال، دس، پندرہ منٹ کی بحث و تمحیص میں بھی کوئی فیصلہ نہ ہوسکا، تو آخرکار، اُن میں سے ایک نے موٹر سائیکل سوار سے کہا۔’’بھائی صاحب! بہت ہوگیا، اب معاملہ ختم کریں۔ یہ زیورات آپ خرید لیں۔ ہم پیسے ہاف ہاف کرلیں گے کہ ان زیورات کا بٹوارا تو ہونے سے رہا اور ہم اِس وقت جیولر کے پاس بھی نہیں جا سکتے۔‘‘ موٹر سائیکل سوار کو یہ تجویز پسند آئی۔ اُسے اپنی بیٹی کی شادی کرنی تھی اور اُسے معلوم تھا کہ لُوٹ کا یہ مال اُسے اصل قیمت سے کہیں سستا مل جائے گا، لیکن اُس نے بتایا کہ ’’میری جیب میں تو اس وقت کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ 

جس پر اُن دونوں نے کہا کہ’’ آپ کے گھر چلے چلتے ہیں۔ وہاں اطمینان سے آپ اپنی بیگم کو بھی زیورات دِکھا دیں۔‘‘ موٹر سائیکل سوار نے دونوں کو رکشے پر اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ گھر نزدیک ہی تھا۔ بیگم نے بھی اسے غیبی مدد سمجھا۔ گھر میں مکان کے کرائے اور بچّوں کی فیسز کے 50ہزار، جب کہ پس انداز کیے ہوئے بھی 30ہزار روپے رکھے تھے۔ ویسے یہ زیورات سونے کے مارکیٹ نرخ کے حساب سے لاکھوں روپے کے لگتے تھے، لہٰذا اُنہوں نے 80ہزار روپے دے کر اُن دونوں کو رخصت کردیا اور زیورات رکھ لیے۔ 

بیگم نے چائے کی کیتلی بھی چولھے پر رکھ دی تھی، لیکن اُن دونوں کو شاید جلدی تھی، اِس لیے وہ چائے پیے بغیر ہی وہاں سے چلے گئے۔ تیسرے، چوتھے دن جب وہ اپنے ایک واقف کار جیولر کے پاس اُن زیورات کے لیے خُوب صُورت ڈبّے لینے لگے، تو اُس نے وہ زیورات دیکھتے ہی اُنھیں بتادیا کہ یہ سب نقلی زیورات ہیں، جن پر نہایت مہارت سے سونے کا پانی چڑھایا گیا ہے۔

٭ایک شخص ویران سڑک پر پیدل جارہا تھا کہ اُسے اپنے سامنے زمین پر ایک پھٹا پرانا کاغذ نظر آیا، جس پر عربی زبان کے کچھ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ اُس نے مدّس ورق سمجھ کر اُسے اُٹھایا اور فرطِ عقیدت سے چوم لیا۔لیکن ابھی کاغذ ناک کے ساتھ لگایا ہی تھا کہ اُسے اچانک چکر آنے لگے اور وہ وہیں گر پڑا۔ اُس کے گرتے ہی دو نوجوان موٹر سائیکل پر آئے اور طبّی امداد کے بہانے اُس کی جیبوں کی تلاشی لی، جس کے دَوران اُس کا قیمتی موبائل فون اور پرس نکال لیا اور تیزی سے موقعۂ واردات سے فرار ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد اُس شخص کو ہوش آیا، تو اُسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے موبائل فون اورنقدی سے محروم ہوچُکا ہے۔

٭ایک معمّر شخص اپنی کار پر کہیں جارہے تھےکہ اچانک گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہوگیا۔ وہ باہر نکل کر جائزہ لینے لگے کہ اچانک موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان وہاں آکر رُکے اور نہایت خوش اخلاقی سے ٹائر بدلنے کی آفر کی۔ کار سوار نے اُسے غیبی مدد سمجھا، کیوں کہ ٹائر بدلنا اُن کے بس کی بات نہیں تھی۔ سو، وہ خود ٹائر بدلنے والے ایک نوجوان کے ساتھ کھڑے رہے، جب کہ دوسرا نوجوان بھی ساتھ میں موجود تھا۔ پھر ایک نوجوان نے کہا۔’’ انکل! ذرا اسٹپنی کو ہاتھ لگا کر چیک کرلیں، ہوا کم تو نہیں ہے، ٹائر ذرا کم زور لگتا ہے۔‘‘

معمّر شخص نے بیٹھ کر ٹائر دبا کر چیک کیا، تو ہوا کم تھی، لیکن مجبوری تھی۔ بہرحال،نوجوان موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چلے گئے اور اُنہوں نے جاتے ہوئے کار مالک سے کسی قسم کا معاوضہ لینے سے بھی انکار کردیا۔ لیکن…راستے میں کار سوار کو معلوم ہوا کہ اُن کا ڈیش بورڈ پر رکھا موبائل فون اور ساتھ والی سیٹ پر پڑا لیپ ٹاپ غائب ہے۔

اِسی طرح کی ایک واردات موٹر وے پر ہوئی، جس میں ایک پیٹرول پمپ پر پنکچر لگانے والے نے پنکچر چیک کرتے وقت ٹائر کو خود ہی کاٹ کر بالکل ناکارہ بنا دیا اور پھر نئے ٹائر کے عوض اچھی خاص رقم وصول کرلی۔

٭پنجاب کے ایک غیر معروف شہر کے ایک محلّے میں ایک مسجد زیرِ تعمیر تھی اور ساتھ ہی’’ چندہ برائے تعمیرِ مسجد‘‘ کا ڈبّا بھی لگا ہوا تھا۔ ایک روز عربی لباس میں ملبوس ایک پاکستانی نوجوان نے امامِ مسجد سے ملاقات کی اور تعمیر کے ضمن میں اپنی خدمات پیش کیں۔ نوجوان نے بتایا کہ اُس کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ قطر میں کنسٹرکشن کا کام کرتا ہے۔

نیز، غیر شادی شدہ ہے اور ہر سال پاکستان کے مختلف شہروں میں جا کر غریبوں، محتاجوں کی مدد کرتا ہے۔ یہاں اس نے کرائے پر ایک مکان لے کر رہائش اختیار کی ہے۔ اُس نے مسجد کی تعمیر کے لیے سیمنٹ، اینٹوں اور سریے کا عطیہ دیا، جس کی مالیت لاکھوں روپے میں تھی۔ اگلے جمعے کو مولوی صاحب نے نماز کے بعد اہلِ محلّہ سے اس مخیّر نوجوان کا تعارف کروایا، تو وہ بھی اُس کی خدمتِ خلق کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ 

اُنہوں نے اُس نوجوان کے لیے کھانا بھیجنا بھی شروع کردیا کہ وہ اکیلا رہائش پذیر تھا۔ ایک، دو ہفتے بعد اُس نوجوان نے مسجد میں اعلان کیا کہ اُس کے پاس پلمبرز، الیکٹریشنز اور عام مزدوروں کے 20ویزے آئے ہوئے ہیں، اگر کوئی شخص باہر جانا چاہے، تو اُس سے رابطہ کرے۔ چند ہی دنوں میں اُس شہر اور نواحی دیہات کے نوجوانوں کی کثیر تعداد اُس کے پاس پہنچ گئی۔ 

اُس نے ڈھائی لاکھ روپے فی فرد کے حساب سے پیسے وصول کیے اور 50لاکھ روپے سے زائد رقم، لوگوں کے پاسپورٹس اور شناختی کارڈز لے کر کراچی روانہ ہوگیا۔ اُس نے لوگوں کو بتایا کہ وہ ایک ہفتے بعد واپس آئے گا، تب تک نوجوان روانی کی تیاری مکمل کرلیں۔ 

وہ جاتے وقت اپنا موبائل فون نمبر بھی دے گیا تاکہ نوجوان اُس سے رابطہ رکھ سکیں، لیکن اُن نوجوانوں کو دوبارہ کبھی اُس کی شکل دیکھنا نصیب نہ ہوئی۔ آخرکار، وہ تھک ہار کر بیٹھ گئے کہ اُن کے ساتھ فراڈ ہوچکا تھا۔ کئی سادہ لوح تو ریلوے اسٹیشن پر جا جا کر کراچی سے آنے والی ٹرین سے اُترنے والے مسافروں کو دیکھتے رہے کہ شاید اُن میں عربی لباس میں ملبوس وہ نوجوان بھی ہو۔

٭راہ چلتے لوگوں کو مختلف طریقوں سے لُوٹنے کے علاوہ آج کے جدید دَور میں’’ آن لائن جرائم‘‘ کی بھی بھرمار ہوگئی ہے اور لٹیروں نے جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے عوام کو بے وقوف بنانے اور دھوکا دینے کے درجنوں طریقے ایجاد کر لیے ہیں، جنہیں عام طور پر’’ سائبر کرائم‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ آپ جو اشیاء آن لائن منگواتے ہیں، وہ عموماً اشتہار کے مطابق نہیں ہوتیں۔ 

مثلاً ایک صارف نے آن لائن ایک معروف کمپنی کا ’’مسلم شاور‘‘ منگوایا۔ ڈیلیوری بوائے رقم لے کر چلا گیا۔ پارسل کے اندر مسلم شاور کی پیکنگ بھی ایک معروف برانڈ کی تھی، لیکن اصلی برانڈ اور اس کی کوالٹی میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ یہی حال الیکٹرانکس مصنوعات، میک اپ کے سامان اور ملبوسات کا ہے اور جب آن لائن کمپنی کو شکایت کے لیے فون کیا جاتا ہے، تو وہاں سے بھی عموماً کوئی تسلّی بخش ریسپانس نہیں ملتا۔ 

بعض غیر معروف کمپنیز نے تو اپنا غیر معیاری مال بیچنے کے لیے آن لائن سروسز کا سہارا لے رکھا ہے۔ لُٹنے والے صارفین، پولیس میں رپورٹ بھی درج نہیں کرواتے، کیوں کہ اُنہیں علم ہے کہ اُن کی سُنوائی تو ہوگی نہیں، پھر خجل خواری کا کیا فائدہ۔ اس ضمن میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ سے وابستہ بعض ماہرین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ کچھ عرصے سے اِس نوعیت کی وارداتوں میں کئی گُنا اضافہ ہوا ہے۔

ان لٹیروں کی سرگرمیوں کی نوعیت کچھ اِس طرح کی ہوتی ہے: ٭کسی سرکاری محکمے کے مِلتے جُلتے نمبرز سے فون کرنا کہ’’ہم آپ کے بینک کے ہیڈ آفس سے بول رہے ہیں۔ کوائف اَپ ڈیٹ کرنے کے لیے آپ سے کچھ معلومات درکار ہیں۔‘‘ اِس موقعے پر وہ آپ کے بارے میں اِتنی معلومات شیئر کرتے ہیں کہ آپ کو اُن کی دو نمبری پر شائبہ تک نہیں ہوتا۔ پھر آپ اُن سے اپنے بارے میں چند معلومات کی تصدیق کرتے ہیں، جس پر آپ کا بینک بیلنس صاف ہو جاتا ہے۔٭ آپ کے موبائل فون پر نامعلوم ویڈیو کال موصول ہوتی ہے۔ 

اگر آپ وہ کال ریسیو کرتے ہیں، تو وہ آپ کی تصویر ہائی جیک کرلیتے ہیں اور پھر اُسے منفی انداز میں پیش کر کے آپ کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔٭ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی جانب سے آپ کو اکثر رقم ملنے یا کسی کمپنی کی طرف سے انعام نکلنے کی خُوش خبری دی جاتی ہے اور آپ جونہی اُن کے دیئے گئے نمبرز پر فون کرتے ہیں، تو آپ کا بیلنس اُڑ جاتا ہے یا انعام کے لالچ میں اُن کے مطالبے پر سروس چارجز کی مَد میں رقم بھیجتے ہیں، تو اُس کے بعد اُن کا کوئی اَتا پتا نہیں ملتا۔

موبائل فون پر آسان شرائط پر قرض کی پیش کشوں سمیت درجنوں اقسام کی مصنوعات کی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔مثلاً غیر ممالک میں تعلیمی وظائف، شادی بیاہ کے لیے خُوب صُورت، مال دار لڑکوں، لڑکیوں کے رشتے، ماڈلنگ، اداکاری، سرمایہ کاری کے سنہری مواقع، غیر مُلکی یونی ورسٹیز میں داخلے، آکسفورڈ، کیمبرج، ہاورڈ اور ان سے مِلتے جُلتے ناموں سے تعلیمی اکیڈیمیز کی تشہیر۔ 

غرض، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں، جس کے توسّط سے یہ سنہری جال آپ پر نہ پھینکے جاتے ہوں، یہاں تک کہ سادہ لوح افراد کے علاوہ متعدّد پڑھے لکھے لوگ بھی ان اداروں اور کمپنیز کے فریب میں آجاتے ہیں، جن کی پوری دنیا صرف ایک موبائل فون، لیپ ٹاپ، کمپیوٹر اور ایک کمرے کے دفتر پر مشتمل ہوتی ہے۔

یہ چند واقعات ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ لٹیروں نے عوام کو لُوٹنے کے لیے قدم قدم پر گھات لگا رکھی ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہر شخص کی نظر، دوسرے کی جیب پر ہے۔ اِس ضمن میں ایک نجی یونی ورسٹی میں سوشیالوجی کے سابق چیئرمین، پروفیسر ڈاکٹر محمود احمد ترمذی کا کہنا ہے کہ’’سیاسی، معاشی اور معاشرتی عدم استحکام نے پاکستانی معاشرے کو جس مقام تک پہنچا دیا ہے، اُسے’’ پست ترین‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔ برّصغیر میں خلجیوں، مغلوں اور انگریز حُکم رانوں کے دَور میں ٹھگوں کا راج تھا، جو راہ چلتے لوگوں کو رومال سُنگھا کر بے ہوش کردیتے اور پھر اُس کی نقدی لے اُڑتے۔یہاں تک کہ وہ اپنے شکار کے قتل سے بھی دریغ نہ کرتے۔

مجھے کہنا تو نہیں چاہیے، لیکن بہ امرِ مجبوری کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی اب لٹیروں اور ٹھگوں کا راج ہے اور کوئی شخص ان سے محفوظ نہیں لگتا۔ عوام کی اکثریت،بے ہوش کرنے والا رومال جیب میں لیے پِھر رہی ہے۔ مَیں مسلّح ڈکیتیوں اور بڑی چوریوں کی بات نہیں کررہا، بلکہ یہ وہ لوگ ہیں، جو آپ کے تعاقب میں لگے رہتے ہیں اور موقع ملتے ہی آپ کی آنکھوں کا سُرمہ تک چُرا لیتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ جب مسندِ اقتدار پر بیٹھے حُکم ران عوام کے جان و مال کے تحفّظ کی بجائے ہر وقت اپنی کرسی بچانے کی فکر میں ہوں، تو پھر معاشرے میں ایسی ہی بحرانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ہر شخص، دوسرے شخص کو لُوٹنے کے چکر میں ہے، خواہ وہ موٹر، کار میکینک ہو، جو دو نمبر پرزے ڈال کر آپ کی جیب خالی کردیتا ہے، یا عام دُکان دار، ریڑھی والا ہو، جو غیر معیاری، ملاوٹی اور منہگی اشیاء فروخت کرتا ہے۔ دو نمبر پلاٹ بیچنے والا پراپرٹی ڈیلر، پیٹرول میں ہیرا پھیری کرنے والا یا چکنی چپڑی باتوں سے آپ کی جیب خالی کروانے والا، سب کا ایسے ٹھگوں میں شمار ہوتا ہے۔ 

لگتا ہے، مِن حیث القوم ہمارا مقصد بس یہی رہ گیا ہے کہ دوسرے کی جیب کس طرح خالی کی جائے۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’بلاشبہ معیشت ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، لیکن جب تک ہم اخلاقی اقدار کے موجودہ بحران سے نہیں نکلیں گے، ہماری جیب ہی مرکزِ نگاہ رہے گی۔ اخبارات میں روزانہ’’ مشتری ہوشیار باش‘‘ کے اشتہارات پڑھتے ہوں گے، جن میں ممکنہ دھوکا دہی سے ہوشیار رہنے کی وارننگز دی جاتی ہیں، لیکن میرے نزدیک اب ایسے اشتہارات محض چند افراد کا مسئلہ نہیں، بلکہ مُلک میں ایک دوسرے کو لُوٹنے کا کچھ ایسا ماحول بن گیا ہے کہ یہ’’مشتری ہوشیار باش‘‘ کا اشتہار اب پوری قوم پر صادق آتا ہے۔‘‘

امریکا، برطانیہ میں بھی ...

یہ وَبا صرف پاکستان ہی میں نہیں ہے، بلکہ ترقّی یافتہ ممالک بھی اس کی زد میں ہیں۔ برطانیہ کی سٹیزن ایڈوائزر کی ایک رپورٹ کے مطابق، گزشتہ سال برطانیہ کے 18فی صد شہری (90لاکھ افراد) فراڈیوں کے ہاتھوں لُٹ گئے اور زیادہ فراڈ سرمایہ کاری کے نام پر ہوئے۔ برطانیہ میں ہر 5میں سے ایک شخص مالیاتی فراڈ کا نشانہ بنا۔ اِس کے علاوہ، لوگوں کی ذاتی معلومات چُرا کر اُنہیں مختلف حیلے بہانوں، دھمکی آمیز کالز اور قرضے اُتارنے کے خواب دِکھا کر بھی لُوٹا گیا۔ 

امریکی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق وہاں اے ٹی ایم کے ذریعے دھوکا دہی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے اور صرف ایک سال کے دَوران شہری3 ارب ڈالرز سے محروم ہوئے۔بتایا گیا کہ جب کوئی کسٹمر اپنا اے ٹی ایم کارڈ مشین میں ڈالتا ہے، تو اُس میں موجود معلومات کچھ دیر کے لیے مشین میں منتقل ہوجاتی ہیں، جسے جعل ساز افراد اپنے بنائے گئے مصنوعی کارڈ’’اسکیمر‘‘ کو مشین میں ڈال کر حاصل کرلیتے ہیں، جب کہ اس پر لگے چھوٹے پن ہول کیمروں سے وہ پنز (پی آئی این) بھی حاصل کر کے ایک جعلی کارڈ بنالیتے ہیں، جسے استعمال کرکے اے ٹی ایم مشین سے باآسانی رقم نکالی جا سکتی ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید