• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقصیٰ پرویز

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب ہونے کے باوجود، بنیادی سہولتوں اور انفراسٹرکچر کے مسائل سے دوچار ہے۔ یہاں بسنے والا ہر شہری اپنی روزمرّہ زندگی میں کسی نہ کسی مسئلے کا سامنا کر رہا ہے۔ یہ میری، یعنی ایک عام شہری کی کہانی ہے، جس نے اِن مسائل کے ساتھ جینا تو سیکھ لیا ہے، مگر وہ ان کے حل کا بھی منتظر ہے۔

پانی کا بحران، ٹینکر مافیا کا راج

کراچی میں پانی کا بحران شدّت اختیار کرچُکا ہے، بیش تر علاقوں میں پانی کی کمی ہے اور جو پانی فراہم کیا بھی جاتا ہے، وہ غیرمعیاری اور ناکافی ہوتا ہے۔ سرکاری نظام کی ناکامی اور غیرمنظّم تقسیم نے ٹینکر مافیا کو موقع دیا ہے کہ وہ عوام کو بلیک مارکیٹ کے ذریعے منہگے داموں پانی فروخت کرے۔ 

اِس بلیک مارکیٹ میں شہریوں کو بھاری قیمت پر پانی خریدنا پڑتا ہے، جو اُن کے ساتھ کُھلا ظلم و ناانصافی ہے۔ کم آمدنی والے شہریوں کے لیے یہ پانی خریدنا مشکل ہوتا جارہا ہے اور حکومت نے ابھی تک اِس ضمن میں کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھایا، جس سے شہری سُکھ کا سانس لے سکیں۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ، بھاری بِلز کا بوجھ

کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ایک مستقل اور تکلیف دہ مسئلہ بن چُکا ہے۔ گرمیوں میں بجلی کی غیرعلانیہ بندش سے شہری شدید مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ پھر اِس پر طرّہ بجلی کے بِلز میں غیرمعمولی اضافہ ہے، جس میں بے تحاشا حکومتی ٹیکسز اور دیگر چارجز بھی شامل ہیں۔

عوام ایک طرف لوڈ شیڈنگ کا عذاب سہنے پر مجبور ہیں، تو دوسری طرف، اُنھیں بھاری بلز کی ادائی بھی کرنی پڑتی ہے، جس سے اُن کی مالی حالت دن بدن کم زور ہوتی جا رہی ہے اور اب تو یہ صُورتِ حال عوام کے لیے ایک ناقابلِ برداشت بوجھ بن چُکی ہے۔

کچرے کے ڈھیر، گندے پانی کے جوہڑ

کراچی میں صفائی ستھرائی کی صُورتِ حال نہایت ابتر ہے کہ جا بجا کچرے کے ڈھیر پڑے نظر آتے ہیں۔ سیوریج کے ناکارہ نظام اور ناقص صفائی کے باعث شہر کے اکثر علاقے کچرا کنڈی میں بدل چُکے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کچھ اقدامات، بے شمار اعلانات تو سامنے آئے، مگر عملاً حالت جوں کی توں ہے۔ 

کچرے کے مستقل ڈھیر نہ صرف شہر کی خُوب صُورتی کے دشمن ہیں، بلکہ مختلف خطرناک بیماریوں کے پھیلاؤ کا بھی سبب بن رہے ہیں۔ ویسے اِس ضمن میں شہریوں کو بھی اپنا اپنا کردار ادا کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

ٹریفک کا بے ہنگم نظام

شہرِ قائد میں ٹریفک کا نظام انتہائی بے ہنگم ہے۔ قوانین کی خلاف ورزیوں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور ٹریفک اہل کاروں کی لاپروائی و عدم دل چسپی نے شہریوں کے لیے چند منٹس کا سفر بھی وبالِ جان بنا دیا ہے۔

بارش کے دنوں میں پانی بَھرنے سے سڑکیں، جھیلوں کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں، جن میں گاڑیاں گھنٹوں پھنسی رہتی ہیں۔ جگہ جگہ پڑ جانے والے گڑھوں سے حادثات کی شرح میں الگ اضافہ ہو رہا ہے۔

بڑھتے جرائم، عدم تحفّظ کا احساس

کراچی میں جرائم کی شرح میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ موبائل فون چھیننے، گاڑیوں کی چوری اور ڈکیتی جیسے جرائم نے شہریوں کی زندگی بالکل غیر محفوظ کر دی ہے۔ پولیس کی ناکافی نفری اور جرائم پیشہ عناصر کی بے باکی سے عوام میں شدید خوف پایا جاتا ہے۔ 

نتیجتاً شہریوں کو اپنے جان ومال کے تحفّظ کے لیے خود ہی حفاظتی اقدامات کرنے پڑ رہے ہیں۔ بڑھتے جرائم سے ہر شہری ہی پریشان ہے اور ایک محفوظ ماحول کا خواب اب بھی دُور، بہت دُور کی بات لگتی ہے۔

صحت و تعلیم کا کوئی پُرسانِ حال نہیں

شہر کے سرکاری اسپتال اور تعلیمی ادارے بھی ناکافی سہولتوں کے سبب گویا ’’مسائل کا گڑھ‘‘ بن چُکے ہیں۔ سرکاری اداروں میں معیاری طبّی سہولتوں اور حصولِ تعلیم میں مشکلات کا سامنا ہے، تو نجی ادارے منہگے ہونے کے باعث عوام کی پہنچ سے دُور ہیں، جس سے غریب اور متوسّط طبقہ خاص طور پر متاثر ہو رہا ہے۔

اس ضمن میں حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت و تعلیم کا نظام بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تاکہ عوام کی کم ازکم اِن بنیادی سہولتوں تک تو رسائی ممکن ہوسکے۔