• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پتہ نہیں اس وقت کیوں کسی کو یہ احساس نہیں کہ پاکستان کے وجود میں آنے والی بنیاد سندھ نے رکھی تھی۔ سندھ برصغیر کا وہ واحد صوبہ ہے جس نے سب سے پہلے سندھ اسمبلی سے پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کی تھی مگر اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ پاکستان کے وجود میں آتے ہی سابق مغربی پاکستان کے بڑےآبادی والے صوبے نے اختیارات کو اپنے تصرف میں لے لیا،اس کے بعد باقی صوبوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ چاہے وہ پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ مشرقی پاکستان ہو یا مغربی پاکستان کا دوسرا بڑا صوبہ سندھ ہو مگر پاکستان میں سب سے زیادہ ناانصافیاں سندھ کے ساتھ ہوئیں اور اب تک جاری ہیں مگر سندھ کے حق میں کوئی بھی آواز بلند نہیں کررہا ہے۔ میں اس سلسلے میں جلد ایک تفصیلی کالم لکھوں گا کہ اب تک سندھ کے ساتھ ’’مرکز‘‘ نے کیا کیا ناانصافیاں کی ہیں۔ فی الحال میں فقط ون یونٹ کے ذریعے سندھ کو زنجیروں میں باندھنے کا ذکر کرتا ہوں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اس بات پر افسوس کرنا چاہتا ہوں کہ خاص طور پر ارسا ایکٹ کو ملیا میٹ کرکے سندھ کے ساتھ کی جانے والی بے دریغ ناانصافیوں پر اور تو اور میاں نواز شریف خاموش ہیں۔ واضح رہے کہ جب ارسا ایکٹ وجود میں آیا تھا تو اس وقت ملک کے وزیر اعظم نواز شریف تھے۔ اس وقت سندھ کا وزیر اعلیٰ جام صادق تھا۔ارسا ایکٹ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کی مشترکہ میٹنگ میں منظور کیا گیا تھا۔ ارسا ایکٹ کا ڈرافٹ سندھ کے آبپاشی اور قانون کے ماہر مسٹر پی کے شاہانی نے تیار کیا تھا۔ اس ڈرافٹ میں وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں تفصیل سے غور ہوا۔اس بحث میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے حصہ لیا۔

اس ڈرافٹ پر ابتدائی طور پر کچھ اعتراض تھے مگر بعد میں ایک اعتراض پر کوئی مفاہمت نہیں ہورہی تھی،یہ اعتراض پنجاب کا تھا۔ اس ڈرافٹ میں تجویز دی گئی تھی کہ ارسا کا ہیڈ کوارٹر پنجاب کے نزدیک سندھ کا ایک اہم شہر سکھر تجویز کیا گیا تھا۔پنجاب کا موقف تھا کہ ارسا کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں قائم کیا جائے کیونکہ پانی کے ایشو پر پاکستان کو بار بار ہندوستان سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ آخر کار سندھ نہ چاہتے ہوئے بھی اس اعتراض کو قبول کرنے پر راضی ہوگیا کیونکہ سندھ ارسا کا جلد سے جلد قیام چاہتا تھا تاکہ واپڈا کی طرف سے سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں سے جان چھوٹ سکے۔اس بحث کے دوران سندھ کا خاص طور پر اس بات پر زور تھا کہ کوٹری بیراج کے لئے دریا سے جو پانی دیا جائے وہ مناسب مقدار میںہو۔اس نکتے پر بھی کافی بحث ہوئی، آخر میں پنجاب اس پانی کی مقدار کسی حد تک بڑھانے کے لئے تیار ہوگیا مگر سندھ جو مقدار چاہتا تھا اس سے وہ پھر بھی کم تھی۔ بہرحال نہ چاہتے ہوئے بھی سندھ نے یہ قبول کیا مگر اس دن سے سندھ یہ شکایت کرتا رہا کہ نہ فقط اس سطح سے کم پانی بھیجا جاتا رہا مگر بعد میں اور کم ہوتا گیا۔ سندھ کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی، نہ فقط ارسا ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوٹری بیراج کے ذریعے کم پانی بھیجا گیا بلکہ پنجاب میں بڑے بڑے ڈیم اور کینال بنانے کی وجہ سے دریائے سندھ سے نہ فقط سندھ کے کینالوں میں کم پانی فراہم ہوتا رہا مگر قدرتی نظام کے تحت دریائے سندھ میں مختلف مقامات سے سمندر میں پانی جاتا تھا اب یہ پانی بھی کافی کم جانے لگا۔ دریائے سندھ سے سمندر میں پانی جانے کے کئی بڑے فوائد تھے۔اب دریا سے سمندر میں کم پانی جانے کی وجہ سے پاکستان اور خاص طور پر سندھ یہ فوائد گنوا بیٹھے۔ یہ فوائد تو کافی تھے مگر فی الحال ایک دو فوائد کا ذکر کروں گا۔ ’’پلا‘‘ مچھلی کی ایک قسم ہےیہ سندھ کی ایک اہم شناخت تھی۔ باہر ممالک سے آنے والے اکثر لوگ جب سندھ آتے تھے تو اپنے میزبانوں کو پلا کھلانے کی فرمائش کرتے تھے‘ پلا بہت لذیذ تھی اب تو بہت کم پیدا ہوتی ہے جب دریا سے پانی سمندر میں گرتا تھا تو جس جگہ پر دریا کے پانی اور سمندر کی ملاوٹ ہوتی تھی اسی جگہ پلا جنم لیتی تھی‘ اس طرح جنم لینےوالی ’پلا ‘دریا میں الٹا تیرتے ہوئے آگے جاتی تھی، جتنا پلا دریا میں الٹا آگے جاتی اتنا اس کا وزن بھی بڑھتا تھا اور اس کی لذت میں بھی اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ مچھیروں کے مطابق پلے کی الٹا تیرنے کی پہلی منزل کوٹری بیراج ہوتی تھی جہاں پلا بڑی بھی ہوجاتی تھی مگر سکھر بیراج پہنچنے پر پلے کے سائز میں مزید اضافہ ہوتا اور ذائقہ اور لذت بھی بڑھ جاتی لہذا یہ ’پلا‘ لوگوں میں شوق سے کھائی جاتی تھی۔ ایک بار میرا امریکہ جانا ہوا یہاں میں نیو یارک میں ایک دوست کا مہمان تھا‘ اس وقت اس دوست کے پاس بھی پہلے سے دو تین دوست ٹھہرے ہوئے تھے‘ ایک دن صبح کو اٹھے تو میرے میزبان دوست نے کہا کہ آج میں نیو یارک کی پلا مچھلی کھلاتا ہوں۔وہ اور ایک دوست گئے اور کچھ دیر کے بعد پلا مچھلی لائے۔انہوں نے مچھلی پکائی جسے میں اور یہ دوست کھانے لگے۔ اس بات پربہت خوشی ہوئی تھی کہ امریکہ میں پلا کھانے کا موقع مل رہا ہے۔ پلا کھانے کے بعد سب دوست کہنے لگے کہ اس پلے کا وہ ذائقہ نہیں جو سندھ کی پلا مچھلی کا ہےمگر اب یہ پلا مچھلی کہاں رہی؟۔ (جاری ہے)

تازہ ترین