• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! جیسا کہ ’’آئین نو‘‘ کی حالیہ دو اشاعتوں میں واضح کیا گیا ہے کہ :اب جبکہ وائے بدنصیبی پاکستان میں آئین و قانون پارلیمان تبدیل شدہ نظام عدل و انصاف، حکومت و اپوزیشن سب ہی متنازعہ ہوگئے ہیں یہ صورتحال بہت خطرناک ہے۔ آئین جسکے متفقہ ہونے کا بھرم بڑے آئینی و سیاسی بحران میں بھی بہرحال قائم تھا 26ویں ترمیم کے بعد متنازعہ ہو گیا عوام کے دل ودماغ میں بسا یہ عوامی موقف (پبلک ڈس کورس) نکالا ہی نہیں جاسکتا کہ 8فروری کے الیکشن کے بعد تشکیل ہونیوالی حکومت بمطابق آئین فارم 45کے ڈیٹا کی بجائے فارم 47کےریکارڈ میں اعدادوشمار کی جعلسازی و قطع برید کے بنائی گئی ہے۔ بالائی عدلیہ واضح طور پر سیاسی دھڑوں میں تقسیم ہے متنازعہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے مسئلہ حل نہیں ہوا نئی قانون سازی سے مسئلہ پھر بگڑگیا ہے۔ عوامی سطح پر فراہمی انصاف سے متعلقہ نچلی سطح کا ملک گیر عدالتی نظام رشوت و سفارش سے لتھڑا پڑا ہے پارلیمانی اپوزیشن کا شاید ہی کوئی رکن ایسا ہو جس پر دہشت گردی بلوے یا کوئی اور سنگین الزام کے مقدمات درج نہ ہوں انکا بیشتر وقت تھانہ کچہریوں میں گزرتا ہے۔ انہوں نے حلقے کی سیاست اور ایوان میں عوامی نمائندگی کا فریضہ خاک انجام دینا ہے ۔آوے کا آوا ہی بگڑ ا ہوا نہیں پورا ملک نظام بد میں جکڑا اور مایوسی و غیر یقینی میں غرق ہے آئین و قانون کی ہر تشریح و فیصلہ متنازعہ ہونہار برین ڈرین سیاسی و حکومتی ابلاغ کی آلودگی پروپیگنڈہ کنفیوژن بلیم گیم اور اس میں لوڈ ڈ لینگویج کا استعمال بلند درجے اور ہائی فری کوئنسی پر ہے ۔

قارئین کرام! غور فرمائیں کہ سوچ وفکر افضل عبادت ہے ناچیز نے زندگی کے اس آخری مرحلے میں پہلی بار ملکی امور و معاملات پر شدید مایوسی میں مبتلا رہتے اللہ سے مدد کیلئے رجوع سوچ وفکر سے ہی کوئی راہ کی تلاش کی تو اپنی تسلی و تشفی تک تو راستہ مل گیا کہ اطلاقی علوم کے مطالعے اور ملک میں حقیقی پریکٹس سے آئین کی اختیاریت اور قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی ہے۔ ایمان کی حد تک یقین ہے کہ یہ ہی راہ مستقیم ہے کہ جب ملکی متفقہ آئین کو بھی متنازعہ بنا دیا گیا ہے تو اب ایک ہی راہ رہ جاتی ہے کہ گڈگورننس والی کامیاب اور بیڈگورننس والی کمزور اور ڈگمگاتی ریاستوں پر نظر ڈالی جائے انکی کامیابی و ناکامی کو مطالعے و مشاہدے (کیس اسٹڈیز) سمجھا جائے تو یقین جانئے گا اسکے مطابق اسٹیٹ بیسمنٹ کی جائے اور نظام حکومت وسیاست کو اب کسی سست ترین ارتقائی عمل سے نہیں بلکہ اطلاق علم کے سہارے غیرمتنازعہ قانون سازی اور عملدرآمد کیلئے جنگی بنیاد پر اقدامات سے سیاسی و آئینی عمل کو ایک ہموار راستہ اور پرامن اور قومی جذبہ و جمہوریت کا ماحول مہیا کیا جائے جس میں سیاست پر خواص کی اجارہ داری ختم کرکے ترقی جاریہ (SUSTAINABLE DEVELOPMENT) کی بنیادوں کے مطابق پارٹیسپٹری اپروچ کو گورننس کے ایجنڈے میں اولین جگہ دے کر مہلک موروثی سیاست کو قومی و عوامی سیاست میں تبدیل کیا جائے ۔

قارئین کرام ! اس منظر میں خاکسار نے مملکت کی موجود مسلسل بحرانی اور پر آشوب حالت میں رہنے اور اس میں مزید اور مسلسل پیچیدگی کے اضافے نے عملی سیاسی اور آئین و قانون پر گھمبیر کج بحثی سےخود کو مکمل الگ کرکے فقط متعلقہ علوم کے سہارے سیلف برین اسٹارمنگ سے ملکی موجودہ سیاسی و معاشی مضطرب حالات حاضرہ کو سنوارنے پر دماغ سوزی کرتے کرتے فوکس قومی قیادت کے بحران پر ہو گیا۔ ملکی ڈیموگرافی پر سوالات ذہن میں آنے لگے تو آبادی میں اضافہ کا سوال سامنے آن کھڑا ہوا کہ میرا جواب بھی تلاش کروناچیز کا محتاط نوٹس ہے کہ سیاسی ابلاغ و تحریروں حتیٰ کہ وزرا بھی اپنے ابلاغ میں 22کروڑ ملکی آبادی بتاتے ہیں یہ تو ایک ضمنی لیکن اہم معاملہ تھا اصل پریشان کن سوال ہے کہ 25کروڑ کی قوم کو کیسے چلایا جا رہا ہے اسٹیٹ مینجمنٹ کیسے ہورہی ہے اور گورننس اور فراہمی انصاف کا مکمل نظام خصوصاً نچلی اور بالائی سطح کی عدلیہ عوام کی رائے و نظر میں کتنی معتبر ہیں؟یہ فکر انگیز سوالات ہمیں جواب کی تلاش پر اکساتے ہیں تجربے اور طویل مشاہدات نےفوراً جواب دیا کہ بڑے قومی امراض ٹاپ ڈائون ٹریول ہو کر قوم میں بگاڑ اور ریاستی نظام میں کھلواڑ پیدا کرتے ہیں فوراً توجہ موجود ملکی سیاسی قیادت پر گئی کہ ٹاپ تو وہیں شروع ہوتا ہے جواب واضح ،قومی قیادت اور قوم کی زبوں حالی اور ملکی منظر پر عدم موجودگی کاشدت سے احساس ہوا علم سیاسیات سے بذریعہ آرٹیفشل انٹیلی جنس رجوع کیا تو کھٹ سے جواب آیا لیکن اس سے بھی پہلے اس نکتے پر ناچیز یکسو ہوگیا کہ :اگر ہم واقعی ہی جمہوری قوم اور اسلامی معاشرہ ہیں تو نظریہ پاکستان، اسلامی تعلیمات اور ملک کے آئین کی پیروی میں بھی کم از کم دو ملکی سیاسی پارلیمانی قیادتیں پاکستان میں معمول کا اور بلارکاوٹ سیاسی و جمہوری عمل رواں دواں کرنے کیلئے ناگزیر ہیں پہلے سے جتنی بھی علاقائی اور دوسرے تیسرے درجے کی سیاسی جماعتوں کی قیادتیں بھی سرگرم ہوں جو ہونی بھی چاہئیں لیکن دو وفاقی ملک گیر پارلیمانی قوتوں کی ملک میں ہر دم موجودگی کے بغیر کسی بھی جتن سے سیاسی و معاشی استحکام کا خواب، خواب خرگوش ہی ثابت ہو گا ویسے بھی مکمل عیاں ہے کہ قوم ایسے کسی بھی فریب نظر کو مسترد کر چکی ہے۔ ایسے ہی تو عوام الناس کی بھاری اکثریت نے روایتی طاقتوں کو 8فروری کے الیکشن میں مسترد نہیں کیا تاہم ناچیز عملی سیاست کے جھمیلوں سے بچتے علمی حل ہی کی طرف آتا ہے۔ قارئین کرام آپ خود سوچیں کہ اس وقت ملک کی پہلی دوبڑی حقیقی، پارلیمانی ، قومی سیاسی قیادتیں کہاں ہیں ایک جیل میں وہ بھی 14ماہ سے دوسری عملاً سیاست سے بیزار ہو گئی اور اب ملک سے باہر ہے تو مطلوب پارلیمانی اکثریتی اور تجربہ کار اپوزیشن لیڈر (بمطابق آئین) کے بغیر ملک نہیں چل رہا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے متعلقہ علم (پولیٹکل سائنس) اور پریکٹس کے مطابق :آئینی اعتبار سے ایک جمہوری معاشرے میں سیاسی قیادت کا خلا ملکی استحکام کیلئے بڑے خطرے کا باعث ہوتا ہے کیونکہ جمہوری معاشرے میں انکا کردار ملک کے حال و مستقبل کیلئے اہم ترین ہوتا ہے سیاسی قیادت کی عدم موجودگی میں حکومت و عوام کے درمیان بڑا خلا پیدا ہو جانے سے سیاسی جماعتیں کمزور ہو جاتی ہیں جس سے ملکی یکجہتی کے مسائل پیدا ہو تے ہیں موثر سیاسی حکومتی اور حکومت سے باہر سیاسی قیادت (اپوزیشن) کے بغیر پالیسی و فیصلہ سازی اور عملدرآمد کی پیچیدگیاں پیدا ہونے لگتی ہیں عوام اور معاشرے کے اہم طبقات میںغیر یقینی پیدا ہو جاتی ہے حقیقتاًسیاسی قیادت کی عدم موجودگی جمہوریت پذیر مملکت میں مطلوب و ناگزیر قوت کا خلا ہوتا ہے جسکا بے حد ناجائز فائدہ مختلف انرسٹ گروپس اٹھا کر ملکی و عوامی مفادات کیلئے مہلک ثابت ہوتے ہیں خصوصاً اس سے سرمایہ کاری اور دوسری معاشی سرگرمیوں کو بہت زیادہ خسارہ ہوتا ہے۔ وماعلینا الالبلاغ

تازہ ترین