• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں ٹریفک حادثات روز کا معمول ہیں ۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال پینتیس سے چالیس ہزار یعنی ہر روز اوسطاً 100افرادان کے باعث جان سے ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔کوہستانی علاقوں میں ہونے والے حادثات بالخصوص بہت ہلاکت خیز ہوتے ہیں ۔ گزشتہ روز بھی گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میںبڑے جانی نقصان کا سبب بننے والا ایساہی ایک حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں شادی کی تقریب میں شامل 26 افراد کی بس دریائے سندھ میں گرکر ڈوب گئی۔ دیامر کے ایس ایس پی کے مطابق بس گلگت بلتستان کے ضلع استور سے آنے والی شادی کے جلوس کا حصہ تھی جو پنجاب کے ضلع چکوال کی طرف جارہی تھی۔ مبینہ طور پر تیزرفتاری کی وجہ سے بس ڈرائیور کے قابو سے باہر ہوکر دوپہر ایک بجے تلچی پل پر دریا میں گر گئی۔ حادثے کے وقت بس میں 27 افراد سوار تھے۔ امدادی کارکن آخری دستیاب اطلاعات کے مطابق دریا سے 18لاشیں نکالنے میں کامیاب رہے جبکہ دلہن کو زخمی حالت میں بچا کر گلگت کے آر ایچ کیو ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی۔باقی لاپتہ افراد کو مردہ تصور کیا گیا ہے تاہم ان کی تلاش دوسرے روز بھی جاری ہے اور مقامی انتظامیہ نے اس سلسلے میں بحریہ سے بھی غوطہ خور فراہم کرنے کی اپیل کی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ بھی گلگت سے راولپنڈی جانے والی ایک مسافر بس اپرکوہستان میں شتیال کے مقام پر ڈرائیور کے کنڑول سے باہر ہوکرکھائی میں جاگری تھی جس کے نتیجے میں دو مسافر جاں بحق جبکہ26 زخمی ہوگئے تھے۔ اس نوعیت کے ٹریفک حادثات کی وجہ عام طور پر ڈرائیوروں کی تیز رفتاری ہوتی ہے جبکہ دشوار گزار پہاڑی راستوں پر ڈرائیونگ کے قوانین و ضوابط کا ملحوظ نہ رکھا جانا مسافروں کی جانوں کے دانستہ خطرے میں ڈالے جانے کے مترادف ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ان راستوں پر بلا رُو رعایت ٹریفک قوانین کی مکمل پابندی یقینی بنائی جائے۔

تازہ ترین