سندھ ہائیکورٹ نے ایم ڈی کیٹ ٹیسٹ کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا، فیصلے میں کہا گیا کہ سندھ حکومت کی تحقیقاتی کمیٹی نے بتایا کہ پیپر ٹیسٹ سے 13 گھنٹے 44 منٹ قبل آؤٹ کیا گیا تھا۔
عدالت نے کہا کہ میڈیکل داخلے کےلیے پرائیویٹ یونیورسٹیز کو استثنیٰ دینا بنیادی حقوق کیخلاف ہے، تمام یونیورسٹیز میں برابری کی بنیاد پر موقع دینے کیلئے پی ایم ڈی سی قانون میں ترمیم کیلئے جائزہ لیا جائے۔
وکیل پی ایم ڈی سی نے کہا کہ امتحانات شفاف ہوتے ہیں، سخت نگرانی کے باعث 88 امیدوار نقل کرتے ہوئے پکڑے گئے ہیں، عدالت تعلیمی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ ایف آئی اے سائبر کرائمز کی رپورٹ عدالتی فیصلے کا حصہ بنائی گئی ہے، رپورٹ کے مطابق پیپر واٹس ایپ کے ذریعے پھیلایا گیا، اس گروپ نے 21 ستمبر کو رات 8 بج کر 16 منٹ اور 41 سیکنڈ پر پیپر لیک کیا، تحویل میں لی گئی ڈیوائس کے فارنزک کے دوران پتا چلا پیپر کئی گروپس میں شیئر کیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ میڈیکل کے شعبے میں داخلے کی ٹیسٹ میں اس طرح غیر شفافیت معاشرے اور میڈیکل کے شعبے کیلئے خطرناک رجحان ہے۔
عدالت نے سندھ بھر کے تمام بورڈز کو ایک ماہ کے دوران امتحانات کے نتائج کا بھی اعلان کرنے کا حکم دے دیا، فیصلے میں کہا گیا کہ دوبارہ ایم ڈی کیٹ دینے والوں کے دس فیصد نمبرز کی کٹوتی نہیں ہوگی، ایم ڈی کیٹ 2024 میں جو طالب علم امتحان دے گا اسے فریش ہی سمجھا جائے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اس طرح کی سلیکشن میڈیکل کے شعبے کو زوال کی طرف لے جائے گی، تعلیمی اداروں کو بچوں میں میرٹ کو ترجیح دینے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، شارٹ کٹ والے طلبہ کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، ٹیسٹ کو غیر شفاف بنانے والے ذمہ داروں کیخلاف سبق آمیز کارروائی ہونی چاہیے۔