• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اپنے کسی سیاسی مخالف یا ذاتی مخالف کو بدنام کرنے ،ذلیل و رسوا کرنے اور جھوٹے کیسز بنا کر گرفتار کرنے کا کلچر بہت زیادہ فروغ پاچکا ہے ،ماضی میں حکومتی سطح پر دیکھا جائے تو نیب ، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے اہم اداروں کو کبھی سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال کیا گیا تو کبھی مخالفین کو نیچا دکھانےکیلئےاستعمال کیا گیا ، عوامی سطح پر دیکھا جائے تو مخالفین کے خلاف نیب ،ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن جیسے اداروں میں جھوٹی یا گمنام درخواستیں دیکر انھیں بدنام کرنے یا گرفتار کرانے کی بھی کوشش کی جاتی رہیں۔ ماضی میں ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں ایک شریف اور بے گناہ شخص کو جب جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کیا جاتا تو اسکے خلاف جھوٹے الزامات کی چارج شیٹ میڈیا کو جاری کر دی جاتی، جس کے بعد جھوٹے الزامات کا سامنا کرنے والا شریف انسان کبھی خود کشی کر لیتا یا ہارٹ فیل سے مر جاتا، یا کم سے کم پوری دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتا، تاہم اب حکومتی سطح پر ان تینوں اہم ترین اداروں میں کرپشن کے خاتمے، جھوٹے مقدمات کی روک تھا م اور میرٹ کے فروغ کیلئے سنجیدہ اقدامات کیے جارہے ہیں، جس سے ملک کے ان تینوں اہم تحقیقاتی اداروں کو عوامی سطح پر اپنی ساکھ بہتر بنانے کا موقع مل سکے گا۔ اس حوالے سے گزشتہ دنوں سندھ حکومت کے اہم تحقیقاتی ادارے انکوائریز اینڈ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کے چیئرمین ذوالفقار علی شاہ سے تفصیلی ملاقات میںیہ جان کر خوشی ہوئی کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اینٹی کرپشن جیسے اہم ادارے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں سنجیدگی سے عمل پیرا ہے، ذوالفقار علی شاہ نے بطور چیئرمین بڑی جانفشانی سے محکمہ اینٹی کرپشن کو ایک اعلیٰ سطح کے تحقیقاتی ادارے میں تبدیل کرنے کیلئے انقلابی اقدامات مکمل کر لیے ہیں، جس میں چیئرمین کے بعد ایک ڈائریکٹر جنرل کا عہدہ ہو گا، اس کے علاوہ سندھ کے ہر ڈویژن کا ایک ڈائریکٹر ہوگا جس کےماتحت ڈپٹی ڈائریکٹرز اور اسسٹنٹ ڈائریکٹرز ہونگے، چیئرمین کے مطابق ان کا محکمہ سندھ حکومت کے مختلف محکموں میں ہونے والی کرپشن کے خلاف کارروائی کر سکے گا بلکہ نئے قانون کے پاس ہونے کے بعد شعبہ اینٹی کرپشن اب عوام کے ساتھ ہونے والے فراڈ جیسے کیسز میں بھی کارروائی کر سکے گا۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ اینٹی کرپشن میں چودہ سو ملازمین کی جگہ ہے لیکن ان کے پاس صرف سات سو ملازمین کام کر رہے ہیں تاہم اب انھوں نے محکمہ سے تین سو سے زائد غیر ضروری اسامیوں کا خاتمہ کردیا ہے جس سے ان کے محکمے کو کروڑوں روپے سالانہ کی بچت ہو گی، اب انھوں نے پولیس یا دوسرے محکموں سے ڈیپوٹیشن پر ملازمین لینے کے بجائے براہ راست پبلک سروس کمیشن کے ذریعے نوجوان سب انسپکٹرز اور انسپکٹرز کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کوشش ہے کہ نئے تحقیقاتی افسران کی تربیت ایف آئی اے کے تجربہ کار افسران سے کرائی جائے تاکہ محکمہ اینٹی کرپشن کو ایک بہترین تحقیقاتی ایجنسی میں تبدیل کیا جا سکے جہاں ہر قسم کے وائٹ کالر کرائم کی معیاری تحقیقات ہوں۔ محکمے کو پیپر لیس بنانے کیلئے آئی ٹی سسٹم کو اپ گریڈ کرنے پر بھی کام شروع کر دیا گیا ہے جس کے بعد پورے محکمہ میں تمام کام انفارمیشن سسٹم پر منتقل ہو سکے گا اور شکایات سے لیکر تحقیقات تک سارا کام کمپیوٹرائزڈ ہو جائے گا۔ اس گفتگو سے یہ بھی علم ہوا ہے کہ نئی لیگل ریفارم میں کسی بھی شخص کیخلاف جھوٹا مقدمہ درج کرانے والے کیخلاف سخت سزا تجویز کی گئی ہے جبکہ کسی بھی بے نامی درخواست پر کوئی کارروائی نہیں کی جائیگی جس سے ادارے کے وقار میں اضافہ ہو گا اور محکمہ اینٹی کرپشن کو سیاسی انجینئرنگ کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ محکمہ اینٹی کرپشن ایک تحقیقاتی ادارہ ہے جو صوبائی حکومت کے اداروں میں ہونے والی کرپشن کی روک تھام کیلئے قائم کیا گیا ہے اور اس وقت پورے ملک میں تاثر ہے کہ سندھ میں کرپشن دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ ہے خاص طور پر غیر معیاری سڑکوں کی تعمیر ہو یاپانی فراہم کرنے والے ادارے میں ہر خاص و عام کو نظر آتی کرپشن، کراچی شہر میں غیر معیاری عمارتوں کی تعمیر ہو یا جگہ جگہ تعمیر ہوتے ہوئے پورشن، عوام کے ساتھ بلڈرز مافیا کا فراڈ ہو یا زمینوں پر قبضے غرض اگر صرف محکمہ اینٹی کرپشن ٹھیک ہو جائے اور اپنے بنیادی مقصد کے مطابق کام شروع کر دے اور سرکاری اداروں اور افسران میں اس محکمے کا ڈر پیدا ہو جائے تو یقین کریں صوبہ سندھ بہت تیزی سے ترقی کی منازل طے کریگا۔ بلاشبہ محکمہ اینٹی کرپشن میں ریفارم کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن عوام کوششوں سے زیادہ نتائج دیکھنا چاہتے ہیں امید ہے محکمہ اینٹی کرپشن میں کاغذی سطح پر ہونے والی تبدیلیا ں صوبے میں کرپشن کے خاتمے کا سبب بھی بن سکیں گی۔

تازہ ترین