آئی ایم ایف کے وفد کی آمد سے پہلے یہ تاثر عام تھا کہ ٹیکس وصولی کا مقررہ ہدف پورا نہ ہوپانے کی وجہ سے مالیاتی ادارہ سال کی بقیہ مدت میں نئے ٹیکس عائد کرنے پر اصرار کرے گا اور پہلے ہی بھاری ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے پاکستانیوں پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا جائے گا یا بالفاظ دیگر منی بجٹ مسلط کیا جائے گا تاکہ جاری وفاقی بجٹ میں مقرر کردہ12970ارب کے ٹیکسوں کی وصولی یقینی بنائی جاسکے۔ تاہم وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا گزشتہ روز سامنے آنے والا یہ دوٹوک اعلان پوری قوم کے لیے یقینا باعث اطمینان ہے کہ کوئی منی بجٹ نہیں آرہا اور ٹیکس وصولی کا ہدف مالی سال کی بقیہ مدت میں پورا کرلیا جائے گا۔ جیو نیوز سے گفتگو میں اپنے اس مؤقف کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان نے سرپلس کا بنیادی ہدف کامیابی سے حاصل کر لیا ہے، قومی مالیاتی پیکیج کی کابینہ نے منظوری دے دی ہے اور اب قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت تعمیری اور نتیجہ خیز رہی۔ تاہم آئی ایم ایف کے ساتھ آن لائن مذاکرات جاری ہیں کیونکہ بعض نکات پر ذاتی طور پر بات چیت کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ نے وضاحت کی کہ آئی ایم ایف کے دورے کا مقصد معیشت کا جائزہ لینا نہیں بلکہ اعتماد پیدا کرنا تھا اور وفد نے حقائق کی بنیاد پر پیش کردہ پاکستان کے موقف کو غور سے سنا اور بات چیت سے مطمئن دکھائی دیا۔ عالمی ادارے کو مطمئن کرنے میں یہ کامیابی اس بنا پر نہایت خوشگوار حیرت کا باعث ہے کہ دوہفتے پہلے ایف بی آر کے ذرائع بتا رہے تھے کہ ٹیکس وصولیوں میں 130 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے لہٰذا ہدف پورا کرنے کیلئے ہر حال میں منی بجٹ لانا ہوگا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال کیلئے مقررہ دسمبر تک کا ہدف پورا نہ ہوا تو پاکستان کو آئی ایم ایف سے اگلی قسط کی وصولی میں مشکلات ہوں گی۔رواں مالی سال کے پہلے چار مہینوں میں ایف بی آر کو 980 ارب روپے اکٹھے کرنا ہیں لیکن ابھی تک صرف 775 ارب روپے اکٹھے ہو سکے ہیں۔واضح رہے کہ یہ صورت حال انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی تاریخ دو بار بڑھائے جانے کے باوجود تھی۔ علاوہ ازیں آئی ایم ایف مشن کی آمد سے کچھ ہی پہلے حکومت کے نجکاری پروگرام کو ایک بڑی ناکامی کا سامنا قومی ایئرلائن کی نجکاری کے معاملے میں ہوچکا تھا۔وزیر خزانہ نے بھی اپنی گفتگو میں اس واقعے کو حکومت کیلئے ایک بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے بتایا کہ آئی ایم ایف نے اس پر ہماری بات سنی اور سمجھی۔ انہوں نے واضح کیا کہ پی آئی اے ہی نہیں بلکہ بجلی پیدا کرنے والے تمام سرکاری اداروں اور ہوائی اڈوں کی نجکاری کا پروگرام جاری رہے گا اور مکمل کیا جائے گا۔ٹیکس وصولی اور نجکاری کے معاملے میں اس منفی کارکردگی کے باوجود عالمی مالیاتی ادارے کو منی بجٹ نہ لانے اور نجکاری پروگرام کی کامیابی پر قائل کرلینا ہمارے معاشی حکمت کاروں کی بلاشبہ بڑی کامیابی ہے تاہم اب بقیہ مدت میں متعلقہ اداروں کو بہت زیادہ مستعدی اور چابک دستی کے ساتھ کام کرنا ہوگا تاکہ اہداف پوری طرح مکمل ہوں اور آئی ایم ایف سے آئندہ بات چیت میں کسی معذرت خواہی کی ضرورت نہ پڑے۔ وزیر خزانہ کی گفتگو سے قومی معاملات میں وفاق اور صوبوں کے باہمی تعلقات کا یہ خوشگوار پہلو بھی سامنے آیا کہ کے پی سمیت تمام صوبائی حکومتوں نے قومی مالیاتی معاہدے کی منظوری میں تعاون کیا خصوصاً وزیراعلیٰ سندھ نے نہایت اہم کردار ادا کیا جبکہ کے پی کے بارے میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ’’جب قومی مفاد کی بات آتی ہے، کے پی حکومت ہمیشہ وفاقی حکومت کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔‘‘ فی الحقیقت یہ باہمی تعاون ہی پاکستان کی کامیابی کا ضامن ہے ، لہٰذا ہماری پوری سیاسی قیادت اور ریاستی اداروں کو مستقل بنیادوں پر قومی مفاہمت کا اہتمام کرنا چاہئے۔