یہ کالم میں نے جنگ کے گزشتہ سوموار کے شمارے کیلئے ایک دن قبل لکھ کر جنگ کے ادارتی ڈسک کو بھیج دیا تھا لیکن اُسی دن جب مجھے کسی نے ایک یوٹیوبر کا یہ دعویٰ بھیجا کہ مریم نواز صاحبہ کو گلے کا کینسر ہے جس کے علاج کیلئے وہ جنیوا گئی ہیں تو میں نے اس کالم کو شائع ہونے سے روک دیا۔ اب چونکہ مریم صاحبہ نے اس خبر کی تردید کر دی اور شکر ہے کہ وہ کسی موذی بیماری کا شکار نہیں تو میرا کالم جسے میں نے شائع ہونے سے روک دیا تھا اپنے قارئین کیلئے حاضر ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ اپنے صوبے کی ترقی اور اپنے اور اپنے والد میاں نواز شریف اور چچا میاں شہباز شریف کی حکومتوں کے دوران ترقیاتی کاموں کا اکثر ذ کرکرتی رہتی ہیں اور اس پر فخر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ کسی دوسری سیاسی جماعت نے اتنے کام نہیں کیے جتنے ن لیگ نے اپنے مختلف ادوار میں کیے۔ وہ تعلیم اور صحت کے شعبوں کے متعلق ن لیگ کی سابقہ حکومتوں اور اپنی موجودہ حکومت کے حوالے سے بھی بہت بلند بانگ دعوے کرتی رہتی ہیں۔ آج کل مریم صاحبہ جنیوا گئی ہوئی ہیں اور وہاں سے وہ لندن کا سفر کر کے پھر پاکستان واپس لوٹیں گی۔ میاںنواز شریف بھی آجکل لندن، امریکا اور یورپ کے سفر پر ہیں۔ مریم نواز کا جنیوا جانے کا مقصد اپنے گلے کا علاج کرانا ہے۔ میاں نواز شریف کے بیرون ملک جانے کا بنیادی مقصد بھی اپنا علاج اور چیک اپ ہے۔ میاں شہباز شریف بھی اپنی کمر کے چیک اپ کیلئے ضرورت پڑنے پر لندن ہی جاتے ہیں۔ سب کی صحت کیلئے دعا کرنی چاہیے اور ہر ایک کو بہتر سے بہتر علاج کرانے کا حق بھی حاصل ہے۔ لیکن یہاں ایک سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ جس ن لیگ نے پاکستان اور پنجاب میں کئی بار حکومت کی، بڑے بڑے پروجیکٹس مکمل کرنے کے دعوے کیے، علاج معالجے اور صحت کے شعبے میں کھربوں خرچ بھی کیے اور یہ بھی کہا کہ بہترین ہسپتال بنائے، اُس سیاسی جماعت کے اعلیٰ ترین رہنما اپنے علاج اور چیک اپ کیلئے بیرون ملک کیوں جاتے ہیں؟ کیا اُن کواپنے علاج کیلئے پاکستان کے کسی ہسپتال اور یہاں کے ڈاکٹروں پر اعتبار نہیں؟ بار بار حکومتوں میں رہنے کے باوجود ایسے ہسپتال کیوں نہیں بنائے گئے کہ پاکستان کی اشرافیہ اور شریف فیملی کے افراد اپنے ملک میں اپنا علاج کروائیں۔ یا تو یہ دعوے کرنا چھوڑ دیں کہ آپ نے پاکستان یا پنجاب میں صحت کے شعبہ میں بہت اچھا کام کیا۔ میرا تعلق مری سے ہے جو پنجاب میں آتا ہے ۔ مری میں علاج معالجہ کی حالت اتنی خراب ہے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔ بڑی تعداد میں مریض مری سے راولپنڈی اسلام آباد علاج کیلئے آتے آتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ یہاں تو راولپنڈی اور اسلام آباد کے اکثر سرکاری ہسپتالوںکا حال دیکھ کر بھی افسوس ہوتا ہے۔ ہمارے سیاستدان، ہمارے حکمران اگر واقعی پاکستان میں صحت کے شعبہ کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو پہلے فیصلہ کر لیں کہ وہ اپنا اور اپنے خاندان کے افراد کا علاج پاکستان میں ہی کروائیں گے۔ اگر بار بار اقتدار میں آنے کے باوجود کوئی ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنایا جا سکا جہاں حکمران اپنا اور اپنے خاندان کے افراد کا علاج کروا سکیں تو پھر اتنے بڑے بڑے دعوئوں کی کوئی حیثیت نہیں، پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ بار بار حکومتوں میں آنے کے باوجود کوئی کام نہیں کیا، صرف دعوے اور نعرے ہی عوام کو دیے۔ سال 2015 میں نواز شریف ،جب وہ وزیراعظم تھے،نے اعلان کیا کہ وہ مری میں ایک بہترین ہسپتال بنائیں گے۔ اس سلسلے میں سرکاری فائلیں بھی چل پڑیں لیکن معاملہ فائلوں سے آگے نہ بڑھ سکا اور آج بھی تقریباً دس سال گزرنے کے باوجود معاملات وعدوں اور اعلانوں سے آگے نہیں بڑھ سکے۔ اب پھر اعلانات کیے جا رہے ہیں لیکن جو پہلے کہا گیا تھا اور جو وعدے پہلے کیے گئے تھے اُن کے برعکس ایک ایسے پرانے ہسپتال پر توجہ مرکوز ہے جو مری کے رہنے والوں کی اکثریت کی پہنچ سے ہی دور ہے۔ مری جس کو شریف خاندان بہت پسند کرتا ہے اُس کی اگر یہ حالت ہے تو پھر باقی پنجاب کے علاقوں کا کیا حال ہو گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی بھی پاکستان کے بہترین ہسپتال کراچی اور سندھ میں بنانے کے دعوے کرتے ہیں لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ آصف علی زرداری صاحب اپنے علاج معالجہ اور چیک اپ کیلئے اکثر دبئی ہی جاتے ہیں۔