ایف سی کی تعیناتی کا ایک سال مکمّل ہوا تو میری خدمات صوبہ پنجاب کے حوالے کردی گئیں۔ اُس وقت ایڈیشنل آئی جی پنجاب نثار احمد چیمہ(جو بڑے بااصول، ڈسپلن کے پابند، کم آمیز اور صاحب ٹائپ افسر تھے) ہمارے بزرگوں کی طرح تھے۔
میں اُن سے مِلا، تو انہوں نے مجھ سے میری چوائس پوچھنے کی بجائے کہا کہ پہلی پوسٹنگ میں جگہ کی بجائےتمہارا باس یعنی ضلعے کا ایس ایس پی زیادہ اہم ہے۔ مَیں دیکھوں گا کہ کون سےضلعےکا افسر بہتر ہے، پھرتمہیں وہاں بھیج دیں گے۔ کچھ دنوں بعد مجھےساہی وال کی سب ڈویژن پاک پتن کا سب ڈویژنل پولیس افسر تعیّنات کردیا گیا۔ پاک پتن اب ضلع بن چُکا ہے، مگر اُس وقت ضلع ساہی وال کی سب ڈویژن تھا۔
مَیں ساہی وال کے ایس ایس پی آفس میں پہنچا، تو ایس ایس پی (آج کل ڈی پی او کہتے ہیں) حاجی حبیب الرحمٰن نے بڑی گرم جوشی سے خیرمقدم کیا۔ پاک پتن سے (جہاں وہ اے ایس پی رہ چُکےتھے)متعلق بریف کرنے کے بعد انہوں نےمجھے رخصت کیا۔ وہاں سے مَیں چالیس منٹ میں پاک پتن پہنچ گیا اور کینال ریسٹ ہاؤس میں عارضی ڈیرہ لگالیا۔ گھر کی تیس سالہ تربیّت، والدین، ماموں جان اور بڑے بھائی کی زندگیاں سامنے تھیں، حلال و حرام سے متعلق تصّورات بڑے واضح، پختہ تھے، مظلوم کو انصاف دینے کی خواہش بدرجۂ اتم موجود تھی۔
جوان خُون تھا اور جرائم ختم کرنےکا جذبہ سینے میں ٹھاٹھیں ماررہا تھا، لہٰذا پہلے ہی دن سے بڑے جوش و خروش کے ساتھ کام شروع کردیا۔ پاک پتن کے چار پولیس اسٹیشن تھے۔ سٹی، صدر، چک بیدی (جس کی حدود ضلع اوکاڑہ سے ملتی ہیں)اور ملکہ ہانس، جہاں پنجابی زبان کے شیکسپئر، وارث شاہ نے کئی سال قیام کیا اور ہیر رانجھا کی لازوال داستان تخلیق کی۔
پہلے روز ابھی دفتر پہنچا ہی تھا کہ ایک کارڈ موصول ہوا۔ نام کے نیچے لکھا تھا۔ رپورٹر، روزنامہ امروز۔ مَیں نے بلوالیا۔ رپورٹر کے ساتھ تین چار اور لوگ بھی تھے۔ اُس نے اپنا تعارف کروانے کے بعد دیگر افسروں سے اپنے تعلقات اور کچھ افسران کے تبادلے کے ضمن میں اپنی ’’فتوحات‘‘ کا ذکر کیا اور پھر مدعے پر آگیا کہ’’یہ میرے دوست ہیں۔ ان کا فلاں شخص کے ساتھ زمین کا تنازع ہے، ان کی درخواست آپ متعلقہ تھانے کومارک کردیں، باقی میں خود کرلوں گا۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’یہاں کسی بھی شخص کو سفارش کی ضرورت نہیں، آپ کا کوئی ذاتی مسئلہ ہے تو بتائیں۔
اِن لوگوں سے میں براہِ راست پوچھوں گا کہ معاملہ کیا ہے اور آپ کا اگر کوئی ذاتی کام نہیں، تو آپ جاسکتے ہیں۔‘‘ رپورٹر نے اِسے اپنی شان میں گستاخی جانا اور اس کے بعد میرے خلاف جھوٹی خبریں بھیجنی شروع کر دیں۔ اُس کے ساتھ ایک اور مقامی اخبار کا نمائندہ بھی شامل ہوگیا۔ بعدازاں، مختلف ذرائع سے مَیں نے مجرموں اور اُن کے سرپرستوں کے کوائف اکٹھے کیے، تو ہر لسٹ میں ایک نام سرِفہرست نکلا، وہ ایک کاؤنسلر تھا، جو منشیات اور جوئے کا دھندا کرتا تھا۔
جوش وجذبہ اپنی جگہ، مگر تجربے کا کوئی مول نہیں ہوتا۔ ناتجربہ کاری مسائل پیداکرسکتی ہے۔ کاؤنسلر کےخلاف کوئی ثبوت حاصل کیے بغیر مَیں نے اُس کے گھر ریڈ کرکے، اُٹھا کے تھانے میں بند کردیا۔ فوری طور پر تو اُس کے سپورٹرز خوف زدہ ہوگئے اور صفائی، معافی تلافی پرآگئے، مگر ناتجربہ کاری کی بناء پر چوں کہ مَیں نے ملزم کی باقاعدہ گرفتاری کا اندراج نہیں کیا تھا، اِس لیے وکلاء نے اِس قانونی سقم کا فائدہ اُٹھایا اورعدالت میں ہماری سبکی ہوئی، مگراِس سےسبق یہ سیکھا پھرآئندہ قانونی تقاضوں کا ہمیشہ خیال رکھا۔
برِّصغیر کے معروف صوفی بزرگ بابا فریدؒ گنج شکر کا مزار پاک پتن میں ہے، اسی لیے یہ جگہ مرجّعِ خلائق ہے۔ اُن کے عُرس کا پورے علاقے کی سماجی، معاشی اور ثقافتی زندگی پر بڑا گہرا اثر ہوتا ہے۔ ماہِ محرّم میں سالانہ عرس کے موقعے پر مُلک بھر سے اور بھارت سے بھی چوٹی کے قوّال آکر محفلِ سماع میں حصّہ لیتے ہیں۔ نصرت فتح علی کی قوالی سب سے پہلے وہیں سُننے کا موقع ملا۔ مزار پر لاکھوں زائرین آتے ہیں۔ صرف ایک رات میں قریباً ایک لاکھ افراد،مرقد پر کُھلنے والے دروازے سے (جسے علاقے میں بہشتی دروازہ کہا اورسمجھا جاتا ہے)گزرتے ہیں۔
بے پناہ رش کے باعث ہر سال بہت سے لوگ ہجوم میں کچلے جاتے ہیں۔ اُس سال مَیں نے افسران کو ٹارگٹ دیا کہ زائرین کے داخلےکو اِس طرح منظّم رکھنا ہے کہ ایک بھی انسانی جان ضائع نہ ہو اور اِس کے لیے ضروری ہے کہ قطار کسی صُورت ٹوٹنے نہ پائے۔ مزار سے ایک کلومیٹر کے فاصلے سے گیٹ بن جاتےہیں اورزائرین ایک قطارمیں مزار کےاندر جاتے ہیں۔
مَیں نے پانچ چھے اسمارٹ، مضبوط جسم والے جوانوں کا ایک اسپیشل اسکواڈ بنایا۔ جہاں بھی لائن ٹوٹتی، مجھے وائرلیس پر اطلاع مل جاتی اور مَیں اپنا اسکواڈ لے کر خُود وہاں پہنچ جاتا۔ گیٹ بند کر کےغیر منظم ہجوم کو پیچھے ہٹایا جاتا، پھر ایک ایک شخص کو کھڑا کر کے قطار بنا کے روانہ کیا جاتا۔
عرس کی تمام تقریبات پُرامن انداز سے اختتام پذیر ہوئیں۔ سب نے بہت سراہا، مگر ایک ناخوش گوارواقعہ پیش آگیا، جس سے درگاہ کے سجّادہ نشین کے ساتھ بدمزگی ہوگئی۔ ہوا یوں کہ سیکیوریٹی کے پیشِ نظر پولیس نے ایک کے سِوا، مزار کے چاروں طرف کے رستے بند کر دیئےتھے۔ سجادہ نشین کے کچھ عزیزوں نے مزار سے ملحقہ اُن کی رہائش گاہ کی طرف سے آنے کی کوشش کی، تو پولیس نےروکا۔
اس پروہ سخت جاہ وجلال میں آگئے۔ انہوں نے اپنے بندے بھیجے، جو پولیس کے دو باوردی ملازم اُٹھا کر(اِغوکرکے) لے گئے۔ مجھے اطلاع ملی تو مَیں اپنے گن مین کے ساتھ اُن کی رہائش گاہ پہنچا۔ پولیس ملازمین کو بازیاب کروایا اوراُن کے ملازمین کو بتادیا کہ چوں کہ سجادہ نشین نے ڈیوٹی پر موجود پولیس ملازمین کو اغوا کیا ہے، لہٰذا اُن کےخلاف قانون کےمطابق کارروائی ہوگی۔
پولیس کے ضلعی سربراہ، حاجی حبیب الرحمٰن درگاہ اوراُس کے سجّادہ نشین سے ایک مرید کی طرح عقیدت رکھتے تھے۔ اور اس بات سےتمام پولیس افسران آگاہ تھے، اِس لیے سجّادہ نشین کے خلاف کوئی تھانےدار کیس رجسٹر کرنے کی ہمّت نہیں کرتا تھا، لہٰذا تحریر لکھ کر مَیں خُود پولیس اسٹیشن گیا اور زبردستی کیس درج کروایا۔ ساتھ یہ پیغام بھی بھجوادیا کہ اب سجّادہ نشین کوپولیس ملازمین کےاغوا کے جُرم میں گرفتار کیا جائےگا۔
پرچہ درج ہونے پر ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ مقامی ایم پی اے نے جگہ جگہ کہنا شروع کردیا کہ ’’دیوان صاحب کی یہ توہین ناقابلِ برداشت ہے۔ جو کام پانچ سو سالوں میں نہ ہوا، وہ اِس اے ایس پی نے کردیا۔‘‘ مگر، مَیں اپنے موّقف پر قائم رہاکہ ’’جو بھی قانون شکنی کرے گا، اُس کے خلاف کارروائی ہوگی اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔‘‘
اِس امر سے پولیس فورس کا مورال بلند ہوا۔ سجّادہ نشین نے ایس ایس پی کو شکایت کی، تو اُن کے پوچھنے پر مَیں نے حقائق گوش گزار کردیئے۔ حاجی صاحب فوراً پاک پتن پہنچ گئے اور صلح کروانے کی کوشش کی۔ َمیں ماننے پر آمادہ نہ تھا، مگر انہوں نے کہا۔ ’’مَیں تمہارا سینئر بعد میں، بڑا بھائی پہلے ہوں۔‘‘ وہ واقعی میرے ساتھ بڑے بھائیوں کی سی شفقت برتتے تھے۔ بہرحال، معاملہ اس طرح نمٹایا گیا کہ سجّادہ نشین گرفتار تو نہ ہوئے، مگر اُنھوں نے معذرت کی، جس سے پولیس کی عزّت بحال ہوگئی۔
اُن دنوں جنرل ضیاءالحق حکومت پر قابض اور پیپلز پارٹی زیرِعتاب تھی۔ ایک بار مَیں نے امن وامان کے لیے علماء، وکلاء کے ساتھ تمام مقامی سیاسی قائدین کو بھی مدعو کیا۔ اُن میں پیپلز پارٹی کے رہنما راؤ ہاشم بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ’’آج کئی سالوں بعد مجھے کسی سرکاری دفتر میں مدعو کیا گیا ہے، ورنہ ہمیں اور ہماری پارٹی کو تو شاید مُلک دشمن سمجھا جاتا ہے۔ کوئی سرکاری افسر ہم سے ہاتھ ملانے کی جرأت نہیں کرتا۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’تمام سیاسی پارٹیاں اور قائدین ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں اور مَیں اور میرا دفتر سب کے لیے سانجھے ہیں۔
اِس میٹنگ کے چند روز بعد مَیں دفتر بیٹھا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ چیف منسٹر آفس سے فون تھا۔ مَیں نے ریسیور اُٹھایا تو دوسری طرف چیف منسٹر کا اسٹاف افسر تھا۔ کہنے لگا کہ ’’چیف منسٹر صاحب کے پاس آپ کے خلاف بڑی سنگین شکایات پہنچی ہیں۔‘‘ مَیں نے شکایات کی تفصیل پوچھی، توبتایا کہ ’’پاک پتن کے مقامی ایم پی اے نے آپ پریہ الزام عائد کیا ہےکہ حکومت مخالف پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد آپ کے دفتر آتے ہیں اور آپ اُنہیں چائے بھی پلاتے ہیں۔‘‘
مَیں نے اعترافِ جُرم کرلیا، مگر ساتھ ہی اسٹاف افسر سے کہا کہ ’’یہ دفتر نہ تو میرا ذاتی ہے اور نہ ہی حکومتی پارٹی کا ہے۔ یہ سرکاری دفتر ہے، تو یہاں تو سب لوگ آئیں گے اور ویسے بھی علاقے کے امن و امان کے لیے ہمیں تمام شہریوں اور پارٹیوں کے تعاون کی ضرورت ہے۔‘‘ نوجوان اسٹاف افسر بات سمجھ گیا اور کہنے لگا۔ ’’ٹھیک ہے، مَیں یہاں صورتِ حال کنٹرول کرنے کی کوشش کروں گا، لیکن آپ بھی آئندہ احتیاط کریں۔‘‘مگر… اِس ’’احتیاط کرنے‘‘ والی ہدایت پر مجھ جیسا بے احتیاط کبھی عمل کرنہ سکا۔
حکومتی پارٹی کے ایم پی اے صاحب حسبِ روایت اورحسبِ ضرورت اپنے مخالفین کو تنگ کرتے رہتے تھے اور چاہتے تھے کہ اِس ’’کارِ خیر‘‘ میں پولیس بھی ایک اتحادی پارٹی کی طرح اُن کی مدد کرے اوراُن کے سیاسی مخالفین کی زندگی اجیرن کرنے میں موصوف کا دست و بازوبنے، مگرایسا نہ ہونے پروہ مجھ سے سخت ناخوش رہتے تھے۔
ایک روز کچھ غریب لوگ روتے پیٹتے میرے گھر آگئے اور بتانے لگے کہ ’’ووٹ نہ دینے پر ایم پی اے نے ہمارے خلاف جھوٹے پرچے کروادئیے ہیں اور پولیس ہمارے معصوم بچّوں کو پکڑ کر لے گئی ہے۔‘‘ مَیں نے اُنہیں تسلی دی اور فوراً ایس ایچ او کو بُلا کر پوچھا۔ اُس نے تسلیم کیا کہ ’’پرچےایم پی اے کے دباؤ پر ہوئے ہیں۔‘‘ مَیں نے اُسے سختی سے ہدایت کی کہ ’’لڑکوں کو فوراً چھوڑکے مقدمے کی فائل میرے حوالے کرو۔ مَیں اِن کیسز کی تفتیش خُود کروں گا۔‘‘
تفتیش میں مقدمات سراسرجھوٹے نکلے، تو مَیں نے فوری طور پرخارج کرکے جھوٹے مقدمات درج کروانے پر مدعی کےخلاف کارروائی کا حُکم دے دیا۔ اِس پر ایم پی اے صاحب تلملاتے ہوئے میری رہائش گاہ پہنچ گئے اور آتے ہی فرمانے لگے۔ ’’لگتا ہے، آپ مجھے بےوقار کرنے پرتُلےہوئے ہیں، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں یہاں حکومتِ پاکستان کا نمائندہ ہوں اور اِس لحاظ سے میرا بھی استحقاق ہے۔‘‘
مَیں نے عرض کیا۔ ’’حضور! مَیں بھی حکومتِ ہند کا نمائندہ نہیں، حکومتِ پاکستان ہی کا پولیس افسر ہوں اوراس سب ڈویژن کی پولیس کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ عام لوگوں کے حقوق کا بھی خیال رکھوں اور سب کو انصاف دوں۔‘‘فریقین چوں کہ اپنےاپنے موقّف پر قائم رہے، لہٰذا یہ وَن ٹو وَن میٹنگ بے نتیجہ ہی رہی۔ دوسرے روز باخبر ذرائع کے مطابق ایم پی اے نے تیار ہوکر ایک خوش حال سائل سےکارمیں پیٹرول ڈلوایا اورسیدھے لاہور کا رُخ کیا۔
وہاں جا کر اربابِ اختیار سے شکایت کی کہ ’’اے ایس پی حکومت مخالفوں سے ملا ہوا ہے۔‘‘ لہٰذا اِس جرم پر میرا ٹرانسفر کردیا گیا۔ ایس ایس پی حاجی حبیب الرحمٰن کے بھی چیف منسٹر نوازشریف سے اچھے تعلقات تھے۔ اُنہیں معلوم ہوا، تو انہوں نےاُسی روز اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے میرا تبادلہ منسوخ کروا دیا۔ مَیں شام کو گھرداخل ہوا، تو کچھ دیر بعد ایک اور گاڑی بھی گھر داخل ہوئی۔ دیکھا تو محترم ایم پی اے صاحب تھے۔ بڑی زوردار جَپّھی ڈال کرکہنے لگے۔ ’’سیدھا لاہور سے آرہا ہوں۔
وزیرِاعلیٰ صاحب آپ سے بڑے ناراض ہیں۔ انہوں نے آپ کا تبادلہ کردیا تھا، مگر مَیں نے بڑی مشکل سے یہ کہہ کر رُکوایا ہے کہ ’’نوجوان افسرہے، غلطیاں کر جاتا ہے، مگر ایمان دار ہے۔ کرائم کنٹرول میں اچھا ہے، آہستہ آہستہ سیکھ جائے گا۔‘‘ مَیں تمام ترحقائق سے باخبر تھا، مگر مَیں نےگھر آئے مہمان کو embarrass کرنا مناسب نہ سمجھا اور چائے پلا کر رخصت کردیا۔
ایک روز مَیں دفتر بیٹھا تھا کہ اطلاع ملی کہ تھانہ صدرکےایک گاؤں میں دو قتل ہوگئے ہیں، جاکر حقائق معلوم کیے، تو پتا چلا کہ چند مسلح افراد (جو مقامی ایم این اے کے آدمی تھے) چوک پر آئے اور ایک دکان پرکھڑے ہوکر کولڈ ڈرنک وغیرہ پیتے رہے۔ دکان دار نے پیسے مانگے تو اشتعال میں آکر اُسے گالیاں دینے لگے۔ قریب کھڑے ایک دوسرے شخص نے اُنہیں منع کیا تو نےفائرنگ کرکے دکان دارکو ہلاک اور دوسرے کو شدید زخمی کردیا، جو اسپتال میں آئی سی یو میں پڑا تھا۔
اِس جدید دور میں اتنا بڑا ظلم بھی ہوسکتا ہے، مَیں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ مَیں نے ایس ایچ او کو وارننگ دی کہ اگرملزم بارہ گھنٹے میں گرفتار نہ ہوئے، تو تم گرفتار ہوگے۔ پوری سب ڈویژن کی پولیس نکل کھڑی ہوئی اور چارسے پانچ گھنٹےمیں ملزم پکڑلیے گئے، قاتل مقامی ایم این اے، میاں غلام احمد مانیکا (میرے Batchmate اور عمران خان کی اہلیہ کے سابق شوہر خاور مانیکا کے والد) کے سپورٹر تھے، مگر پاک پتن کے ہزاروں شہریوں نے دیکھا کہ غریب دکان داروں کے ساتھ ظلم کرنے والے اِن ظالموں کو کس طرح عبرت کا نشان بنایا گیا۔ (اِس کی تفصیل پھر کبھی سہی)۔
عوام سے رابطہ رکھنے کے ضمن میں پہلے دن سے میرے ذہن میں بڑا واضح تصور موجود تھا۔ چناں چہ مَیں نے پاک پتن کے چاروں تھانوں کی حدود میں کُھلی کچہریاں لگانا شروع کیں، جن میں ہزاروں افراد آتے تھے۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ ملکہ ہانس کے ایک اسکول میں کُھلی کچہری میں ایم پی اے صاحب بھی تشریف لائے، مگر تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو عوام نے مخالفانہ نعروں سے ایسی درگت بنائی کہ بغیر تقریر کیے ہی چلےگئے۔
ظاہر ہے، میرا پولیسنگ کا انداز قبلہ ایم پی اے کو ناپسند تھا۔ اُن کی پہلی attempt تو کام یاب نہ ہوئی تھی، مگراب انہوں نےکچھ اور ممبران کو ساتھ لے جاکرمیرے تبادلے کے لیے زیادہ زور لگایا تو بالآخرمجھے تبدیل کروانے کا ہدف حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔
مَیں خود بھی آئے دن ممبرانِ اسمبلی کی شکایتوں اور جواب طلبیوں سے خاصا دل برداشتہ ہوچُکا تھا اور وہاں مزید رُکنے کو تیار نہ تھا۔ اس لیے تبادلے کے دو روز بعد جب ایس ایس پی حاجی حبیب الرحمٰن نےفون پرکہاکہ ’’میری لاہور بات ہوگئی ہے، ہم آپ کو یہاں سے جانے نہیں دیں گے۔‘‘ تو مَیں نےصاف صاف کہہ دیا۔ ’’سر! میرا ٹیمپو ٹوٹ گیا ہے۔ اب مَیں یہاں نہیں رہنا چاہتا۔‘‘
اُس وقت تک نثار چیمہ صاحب آئی جی بن چُکے تھے۔ اُنہوں نے بھی ایس ایس پی صاحب کو کہہ دیا کہ ’’مَیں نہیں چاہتا کہ ذوالفقار اس محاذ آرائی کے ماحول میں پاک پتن رہے۔‘‘ سو، چند روز بعد مجھے تبادلے کے احکامات موصول ہوگئے۔ میری اگلی منزل مظفّر گڑھ قرار پائی۔ لیکن، آج چالیس سال بعد بھی پاک پتن کےشرفاء کے فون آتے ہیں اور وہ میرے ساڑھے پانچ ماہ کے دَور کو یاد کرتے ہیں، الحمدُللہ۔ (جاری ہے)