• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدم توجہ کے سبب نایاب و بیش قیمتی پتھروں کے ذخائر ضائع ہونے کا خدشہ


پاکستان کے نایاب، قیمتی اور نیم قیمتی پتھر پوری دنیا میں مشہور ہیں، ملک کے مختلف علاقوں سے نکالے جانے والے ان پتھروں کو بیرونی ممالک خاص طور پر یورپ اور امریکا میں بے حد پسند کیا جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اِن قیمتی پتھروں کے اربوں ٹن کے ذخائر موجود ہیں، ان میں زمرد، روبی، ٹوپاز، جیڈ، عقیق وغیرہ شامل ہیں، جن کی کانیں خیبر پختون خوا، بلوچستان، شمالی گلگت بلتستان، فاٹا اور کشمیر میں پائی جاتی ہیں۔

دنیا کے چند مشہور ترین قیمتی پتھروں میں سے 3 نایاب قسم کے پتھر خیبر پختون خوا میں پائے جاتے ہیں۔

ان قیمتی پتھروں میں سے ایک زمرد ہے جو سوات، شموزئی، گجر کلے، چار باغ اور کاٹلنگ میں پایا جاتا ہے۔

دنیا کا بہترین گلابی پکھراج (ٹوپاز) مردان میں پایا جاتا ہے

مردان میں دنیا کا بہترین گلابی پکھراج (ٹوپاز) پایا جاتا ہے، اسی طرح ہزارہ اور کوہستان میں پیراڈاٹ پتھر جبکہ گلگت اور اسکردو میں ایکوامرین اور ٹورملین جیسے قیمتی پتھر پائے جاتے ہیں۔

سوات میں نایاب پتھروں کی کانیں بہت قیمتی سمجھی جاتی ہیں، کیونکہ ان پتھروں کا زیادہ تر استعمال زیورات میں کیا جاتا ہے، یہاں پنک ٹوپاز پتھر بھی پایا جاتا ہے جو دنیا میں اور کہیں بھی نہیں ملتا اور اسے روبی جتنا قیمتی سمجھا جاتا ہے۔

ان پتھروں کا شمار دنیا کے نایاب پتھروں میں کیا جاتا ہے جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں وافر مقدار میں موجود ہیں، پاکستان کے قیمتی پتھروں کی امریکا، آسٹریلیا، دبئی، جرمنی، چین، سوئٹزر لینڈ، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک میں کافی طلب ہے۔

سالانہ لاکھوں ڈالرز کی برآمدات، پھر بھی صنعت کا درجہ حاصل نہیں

ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان ایسے متنوع اور نایاب اقسام کے قیمتی پتھروں کے ذخائر کا گھر ہے جس میں ہر سال 8 لاکھ کیرٹس روبی، 87 ہزار کیرٹس زمرد اور 50 لاکھ کیرٹس پیریڈوٹ برآمد کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

پاکستان سے سالانہ لاکھوں ڈالرز کے قیمتی پتھروں کی برآمدات ہو رہی ہیں لیکن تاحال اِس شعبے کو صنعت کا درجہ نہیں حاصل ہوا ہے۔ 

تحقیق و تکنیک کی کمی، عدم توجہی ملکی دولت ضائع ہونے کا سبب

پاکستان میں مائننگ کے فرسودہ طریقوں کے سبب قیمتی پتھر بڑی تعداد میں ضائع ہو رہے ہیں، اگر اس شعبے کو جدید خطوط پر استوار کر کے صنعت کا درجہ دیا جائے تو پاکستان کی معیشت کو ناصرف اس کا بے پناہ فائدہ ہو گا بلکہ اس سے سالانہ اربوں ڈالرز کا زرِمبادلہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں ملنے والے کچھ پتھر ایسے بھی ہیں جن کی یہاں پر قیمت چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں لگتی، جبکہ باہر ممالک میں ان ہی پتھروں کی قیمت لاکھوں ڈالرز میں لگائی جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اب بھی سینکڑوں اقسام کے مزید نایاب اور قیمتی پتھر موجود ہیں جن کے بارے میں تحقیق کی ضرورت ہے۔

عدم توجہی اور ناتجربہ کاری کے باعث یہ دولت ناصرف ضائع ہو رہی ہے بلکہ تراش خراش کے بعد ان کی خوبصورتی بھی ماند پڑ جاتی ہے۔

حکومت کو بہتر اقدامات اُٹھا کر ملک کے اِس قدرتی اثاثے کو عالمی منڈی تک زیادہ رسائی دینی چاہیے اور ان قیمتی و نایاب پتھروں کی جانچ کے لیے تحقیقی ادارے بھی قائم کرنے کی ضرورت ہے۔