کیا آپ جانتے ہیں کہ ایشیاء کی سب سے بڑی نرسری پاکستان میں واقع ہے۔
ایشیاء کی سب سے بڑی نرسری مارکیٹ ہمارے اپنے صوبے پنجاب کے ضلع قصور کے شہر پتوکی میں واقع ہے۔
یہاں کسی بھی بلند مقام سے شہر بھر میں کئی کلومیٹر تک پھیلی ہوئی پھولوں کی درجنوں نرسریوں کو دیکھ سکتے ہیں، جن میں سیکڑوں رنگ برنگے پھول، پودے اور درخت لہلہاتے نظر آتے ہیں۔
سینکڑوں مالی یہاں روزانہ پودے لگانے، ان کی تراش خراش، نگہداشت اور مناسب نشونما کا خیال رکھنے کے لیے مامور رہتے ہیں۔
1 ہزار ہیکٹر پر پھیلی اس مارکیٹ سے جڑے کاروبار سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تقریباً 1 لاکھ افراد وابستہ ہیں، یہ نرسری لگ بھگ 10 دیہاتوں پر پھیلی ہوئی ہے اور ہر گاؤں کی آبادی تقریباً 10 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے، لوگ اس سے اچھی خاصی کمائی کر رہے ہیں اور یہ بلا مبالغہ ایشیاء کی سب سے بڑی نرسری مارکیٹ بن چکی ہے۔
پتوکی میں ہر ایک نرسری اوسطاً 10 ہیکٹر پر پھیلی ہوئی ہے، ہر نرسری میں لگ بھگ 30 سے 40 مالی اور باغبان تقریباً 350 اقسام کے پودوں اور پھولوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
اس نرسری مارکیٹ سے پودے اور پھول ناصرف ملک بھر میں سپلائی کیے جاتے ہیں بلکہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ممالک کو بھی برآمد کیے جاتے ہیں۔
ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ 2018ء سے خلیجی ممالک کے لیے پاکستانی پودوں اور پھولوں کی برآمدات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو سالانہ تقریباً 15 کنٹینرز سے بڑھ کر رواں برس 250 کنٹینرز تک پہنچ گئے ہیں۔
ایک کنٹینر میں لگ بھگ 10 سے 12 ہزار پودے برآمد کیے جاتے ہیں، جن کی قیمت تقریباً 30 سے 35 لاکھ روپے (10 سے 12 ہزار ڈالرز) ہوتی ہے، یہاں فی ایکڑ اوسطاً 40 سے 50 ہزار پودے لگائے جا رہے ہیں۔
ایکسپورٹرز کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کے قریب ترین ممالک ہیں جہاں برآمد کیے گئے یہ پھول پودے ایک ہفتے کے اندر اندر پہنچائے جا سکتے ہیں۔
گلاب کے پھولوں کی انٹرنینشل ڈیمانڈ دیکھتے ہوئے ان کی پیداوار بڑھانے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے تاکہ یہ نرسری ملکی معیشت کا سہارا دینے میں زیادہ سے زیادہ کردار ادا کر سکے۔
تاجروں اور کاشت کاروں کا شکوہ ہے کہ یہ نرسریاں ’بلین ڈالرز انڈسٹری‘ بن چکی ہیں لیکن اس کے باوجود پودوں اور پھولوں کی نئی اقسام اگانے اور بیرونِ ملک سے مزید آرڈر لینے کے لیے کاشت کاروں کو مشکلات درپیش ہیں، جب تک اسے باقاعدہ ایک انڈسٹری کے طور پر نہیں دیکھا جائے گا، تب تک برآمدات میں اضافہ ممکن نہیں۔