• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے ارتقا پر کسی قسم کی پابندی ہر سماج کیلئے تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کے باوجود وزیر اعظم شہباز شریف نے ایکس(سابقہ ٹوئٹر) کے پلیٹ فارم سے سری لنکا کے صدر کو منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ پیغام صرف وی پی این کے ذریعے ہی دے سکتے تھے کیونکہ ایکس کا استعمال پاکستانی شہریوں کیلئے فروری کے مہینے سے ہی ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔آج کل ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک یعنی وی پی این کی مدد سے انٹرنیٹ کے استعمال میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے وی پی این کو غیر اسلامی قرار دینے کے فیصلے کو ٹائپنگ کی غلطی سے تعبیر کیا ہے لیکن ساتھ ہی وی پی این کی رجسٹریشن کے حکومتی فیصلے کو سراہا ہے اور حکومت نے اعلان کیا ہے کہ یکم دسمبر سے رجسٹریشن کے بغیر وی پی این کا استعمال ممنوع ہوگا جس پر پاکستان بھر کی آئی ٹی فرمز اور سافٹ ویر ہائوسسز نے نہ صرف وی پی این پر پابندیوں بلکہ وی پی این کی رجسٹریشن کے عمل کو بھی انٹرنیٹ کے انقلاب کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انٹر نیٹ کی سہولیات پر رکاوٹیں ڈالنے سے آئی ٹی کی برآمدات، بین الاقوامی مالی لین دین، تعلیمی تحقیقی سرگرمیوں اورپاکستان میں آئی ٹی کے شعبے میں جو بیرونی انویسٹمنٹ جاری ہے، اس کو شدید جھٹکا لگے گا۔یہ فیصلہ اس وقت آیا جب آئی ٹی خدمات کی برآمدات کی آمدنی اس مالی سال کے پہلے چار مہینوں میں 35 فیصد اضافے کے بعد ایک ارب بیس کروڑ ڈالر رہی اور امید ہے کہ اس پورے مالی سال میں یہ برآمدات چار ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی اور اسکے ساتھ ساتھ آج ڈیجیٹلائزیشن بڑی تیزی سے کاغذکا استعمال ختم کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے حال ہی میں بتایا ہے کہ صرف 2023ء میں گوگل نے پاکستان میں دس لاکھ نوجوانوں کو ملازمتوں کے قابل بنایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ اعلان بھی کیاکہ اگلے پانچ سال میں آئی ٹی کی برآمدات کاہدف 25ارب ڈالرز ہو سکتا ہے،لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ موبائل ایپس کو جدید تر بنایا جائے، آن لائن ویڈیوسروسز کو تیزکیا جائے اور بین الاقوامی ای کامرس میں تیزی لائی جائے جس سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ وی پی این کے استعمال کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے سے یہ اہداف حاصل کرنا ناممکن ہیں۔

یاد رہے کہ 2024ء کے انتخابات سے پہلے ہی سیاسی مخالفین نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سوشل میڈیا پر بھرپور مہم شروع کر دی تھی جس کے جواب میں ریاست نے پہلے ایکس پر پابندی عائد کی لیکن جب لوگوں نے وی پی این کے ذریعے اس پابندی کا توڑ نکال لیا تو حکومت نے اسلامی نظریاتی کونسل کے استعمال کا فیصلہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وی پی این پر توسیاسی مقاصد کے حصول کیلئے فورا ًپابندی لگا دی گئی لیکن اسلامی نظریاتی کونسل نے کبھی دوسری سماجی برائیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر تک نہیں د یکھا مثلاً آئی پی پیز کی اجارہ داری کی وجہ سے حکمرانوں نے غریب آدمی کے بجلی کی سہولت سےاستفادہ کرنےکو ہی محدود کر دیا۔تاریخ ایسے اقدامات سے بھری پڑی ہے جب سیاسی مقاصد کو حاصل کرنےکیلئےمذہب کا استعمال کیا گیا مثلاًمادر ملت فاطمہ جناح نے جب ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی الیکشن کیلئے اپنے کاغذات جمع کروائے تو ریاستی مشینری کے ذریعے مختلف علما ء نے فتوے دیے کہ اسلام میں عورت کی حکمرانی جائز نہیں ۔اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی یہی پروپیگنڈا کیا گیا۔اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سابق جج نے اچانک یوٹیوب پر یہ کہہ کر پابندی لگوادی کہ اس سے معاشرے میں فحاشی پھیل رہی ہے۔اسلامی تاریخ میں جب ہم ملوکیت اور بادشاہت کے ادوار کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ علماء اور فقہاء نے اس نظام کو اسلامی قرار دینے کے حق میں فتوے جاری کیے۔عقیدے کا سیاست سے ملاپ اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب حکمران اپنے مخالفوں اور سیاسی دشمنوں کو راستے سے ہٹانے کیلئے کیے جانے والے ناجائز اقدامات کو مذہبی رنگ دیتے ہیں۔دانشوروں کا خیال ہے کہ وی پی این کے فیصلے کے خلاف عوامی دباؤ دراصل ہمارے معاشرے کی اجتماعی دانش کو بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ اس ذہنیت کو اگر فکری و عقلی دباؤ کے تحت وقت کے ساتھ نہ بدلا جائے تو یہ ایک جگہ منجمد ہو جاتی ہے۔برصغیر میں مسلمانوں کی اجتماعی دانش کا یہ المیہ رہا ہے کہ انہوں نے اسے وقت کے ساتھ نہیں بدلا بلکہ یکے بعد دیگرے غلطیوں کے گرداب میں پھنستے چلے گئے اور آج تک اسی گرداب میں ہیں۔ یاد رہے کہ علم ہی نئے خیالات اور افکار، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا کو آگے بڑھا تاہے، ذہن کی آبیاری کرتا ہے، تعصبات مٹا تا اور نفرتوں کو ختم کرتا ہے۔ سائنس اور علم کی کوئی سرحد، رنگ، مذہب اور کوئی ذات نہیں ہوتی لیکن ہمارے معاشرے میں ریاستی نظریے کے فروغ کی وجہ سے سائنس اور علم کو بھی مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے۔آج ہمیں مغربی تہذیب کا اس حوالے سے ضرور مطالعہ کرنا چاہئے کہ کس طرح مغربی تہذیب نے عہد وسطیٰ سے نکل کر معاشرے کو صنعتی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے ادوار میں داخل کیا۔اُس وقت یورپین معاشرہ بھی چرچ او ربادشاہت کی گرفت میں جکڑا ہوا تھاتو اس دوران روشن خیالی کی تحریک نے عقائد اور ریاست کو جدا کرکے سیکولرازم کو فروغ دیتے ہوئے چرچ اور بادشاہ کے گٹھ جوڑ کاخاتمہ کیا اور جدید خیالات و افکار کی بنیاد ڈالی۔

تازہ ترین