ساہی وال کی نسبت مظفرگڑھ کا موسم گرم تھا، مگر وہاں میرا استقبال بہت ٹھنڈا ٹھار رہا، جس سےکچھ مایوسی سی ہوئی۔ اُس وقت وہاں ضلعی پولیس کا کوئی سربراہ نہیں تھا،ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹرز ہی کے پاس چارج تھا (وہ ذہنی طور پر پریشان رہتے تھےاور اِنہی پریشانیوں کی وجہ سے انہوں نے کچھ عرصے بعد خُودکشی کرلی تھی)جوبڑی سرد مہری سے ملے اور مجھے بتایا کہ ایس ڈی پی او صدر ہونے کے ناتے شہری اور دیہی علاقے کےچھےتھانوں کا چارج میرے پاس ہوگا۔
چارج لینے کے بعد مَیں نے سب سے پہلے خان گڑھ تھانے کادورہ کیا۔ خان گڑھ مُلک کی انتہائی قابلِ احترام شخصیت نواب زادہ نصر ﷲ خان کا آبائی قصبہ تھا اور وہ جنرل ضیاءالحق کی مخالفت کی وجہ سے یہیں اپنی رہائش گاہ میں نظر بند تھے۔
مَیں نے نواب زادہ سے متعلق ایس ایچ او سے پوچھا، تو اُس نے بتایا کہ وہ تھانے، کچہری کی سیاست نہیں کرتے اور یہ بات میرے قیام کے دوران بھی ثابت ہوئی کہ وہ ضلعی افسران کو بھی کسی کام کے لیے فون نہیں کرتے۔ اُن کے بیٹے نثارخان اور داماد بیرم خان ملتے رہتے تھے۔ بڑے وضع دار اور اعلیٰ روایات کے امین خاندانی لوگ تھے۔
مَیں نے یہاں بھی بڑےجوش وخروش سےجرائم کے سَّدِباب کے لیےجدوجہد شروع کردی۔ جب لوگوں کی سنوائی اوردادرَسی ہونے لگی، تو کُھلی کچہریوں میں ہزاروں لوگ شریک ہونے لگے۔ میری تعیناتی کے دو ہفتے بعد ضلع مظفرگڑھ کا چارج مجھے سونپ دیا گیا۔ اس حیثیت سے مَیں نے ضلعے کی دوسری تحصیلوں کوٹ اَدّو اور علی پور کے دورے بھی کیے۔
مظفرگڑھ کے ڈپٹی کمشنر عامر خان بڑے سلجھے ہوئے آدمی تھے۔ وہ پی سی ایس آفیسر تھے، مگر بہت سے سی ایس پی افسروں سے زیادہ زیرک اورمعاملہ فہم تھے۔ بلدیاتی انتخابات ہونے والے تھے، اس لیے ہم دونوں تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔ ایک دو میٹنگز ڈویژنل ہیڈکوارٹر، ڈیرہ غازی خان میں بھی ہوئیں۔ڈی جی خان ڈویژن کےکمشنر سردار اسلم سکھیراپرانی وضع کے بڑے منجھے ہوئے افسرتھے اور لاہور کی سٹی مجسٹریٹی کے دَور کے واقعات مزے لے لے کر سُنایا کرتے تھے۔
ایک میٹنگ، جس میں تمام ضلعوں کے ڈی سی اور ایس پی شریک تھے، انہوں نےانتخابات کے ممکنہ نتائج سے متعلق پوچھنا شروع کیا۔ میرے تجزیے سے وہ بہت متاثر ہوئے اوراس کے بعد ہرایشو پرمیری رائے کو بہت اہمیت دینے لگے۔ سیاسی طور پر مظفر گڑھ بہت زرخیز ضلع رہا ہے، یہاں سے مشتاق احمد گورمانی اور ملک غلام مصطفیٰ کھر پنجاب کے گورنر اور عبد الحمید دستی اور مصطفیٰ کھروزیرِاعلیٰ رہے ہیں۔ اُس وقت تک ملک غلام مصطفیٰ کھر کی مقبولیت کی وجہ سے کھر خاندان بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اُن کےایک بھائی غازی کھر ڈسٹرکٹ کاؤنسل کے چیئرمین تھے۔
وہ ایک بااصول آدمی تھے۔ افسروں کےساتھ اُن کا رویہ بڑاجارحانہ ہوتا تھا، مگر میرے ساتھ بہت عزت و احترام سے پیش آتے۔ وہ جواں عُمری ہی میں وفات پاگئے۔ ایک اور بھائی ایم این اے اور ایک ایم پی اے تھے۔ ایم پی اے غلام ربانی کھر تعلیم کے معاملے میں بالکل کورے تھے۔ انہوں نے درخواستوں پرصرف"G. Rabbani'' لکھنا سیکھ رکھاتھا، جب کہ اُنہی کی تعلیم یافتہ بیٹی حنا رباّنی بعدمیں مُلک کی پہلی خاتون وزیرِخارجہ بنیں۔
بلدیاتی الیکشن سے ایک دو روز قبل میرے پاس گورمانی فیملی کے ایک امیدوار کی درخواست آئی کہ کھرصاحبان کی اپنے گاؤں میں بڑی دہشت ہےاوروہاں وہ مخالف امیدوار کے پولنگ ایجنٹ کوبھی جانےکی اجازت نہیں دیتے۔ سو، تمام امیدواروں کو تخفظ فراہم کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔
بحیثیت پولیس افسر، یہ میرے پہلے انتخابات تھے، جن سے مجھے اندازہ ہوا کہ الیکشن کمیشن وغیرہ کی نسبت مقامی پولیس کا غیرجانب دارہونا زیادہ اہم ہے، کیوں کہ ضلعے میں تعینات پولیس یا انتظامیہ کے افسر کسی بھی امیدوار کو بہت زیادہ فائدہ یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ تجربہ بعد میں میرے لیے بہت مفید ثابت ہوا۔
مَیں نے الیکشن ڈیوٹی پرتعینات ریگولر پولیس،رضاکاروں اور اسپیشل پولیس کی نفری سےہرتھانے کی سطح پر جا کر خطاب کیا اور اُنہیں واضح ہدایات دیں کہ’’آپ نے ہر صُورت غیرجانب دار رہ کر امن و امان برقرار رکھنا ہے۔‘‘ امیدواروں کو بھی سخت میسیج دیا گیا کہ کوئی بھی بدمعاشی کرنے کی کوشش نہ کرے، ورنہ کارروائی کی جائےگی۔ سخت انتظامات کی وجہ سےپورے ضلعے میں الیکشن پُرامن رہے۔ مظفرگڑھ شہر میں ایک پولنگ اسٹیشن پر گنتی کے وقت ایک برادری کے ہزار پندرہ سو افراد نے گڑبڑ کی کوشش کی۔
مَیں فوری طور پر وہاں پہنچا، اُنہیں پیار سے سمجھایا، مگر جب اُنہوں نے بات ماننے سے انکار کیا توہم نے غنڈہ گردی کرنے والوں کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کردی۔ مظفرگڑھ پولیس کو لاٹھی اُٹھائے عرصہ گزرچُکا تھا، مگر اس الیکشن میں اُن کی جھجک اُترگئی اور پھر مجرموں کےخلاف پورے اعتماد سے کارروائیاں کرنے لگے۔ مَیں اورڈی سی سارا دن اکٹھے مختلف جگہوں کے راؤنڈز کرتے اور امن و امان کا جائزہ لیتے رہے۔
جن جگہوں کا ہم نے راؤنڈ کیا، اُن میں کھر صاحبان کا گاؤں دڑہ بھی شامل تھا۔ ہمارے ساتھ پولیس کی ایک دو گاڑیاں بھی تھیں۔ ضلعی افسران کا یہ دورہ جاگیردارانہ مزاج پرگراں گزرا اورکھر برادران نے اِس دورے کواپنے ڈیرے پر’’ریڈ‘‘ قرار دے کر وزیرِاعلیٰ سے شکایت کردی (کھربرادران اُس وقت حکومتِ پنجاب کے چہیتے تھے)جس پر چیف منسٹرآفس سے جواب طلبی ہوگئی، مگر سکھیرا صاحب نےاپنے تدبّر اور اثرورسوخ سے معاملہ سنبھال لیا۔
الیکشن کے روز وزیرِاعلیٰ پنجاب، میاں نواز شریف نے کئی شہروں کا دورہ کیا، جس میں مظفر گڑھ بھی شامل تھا۔ اُن کے ساتھ چیف سیکریٹری انور زاہد اور آئی جی نثار چیمہ بھی تھے۔ چائے پر کمشنر سکھیرا صاحب نے آئی جی صاحب سے کہا۔ ’’یہاں تو آپ کو ایس پی لگانے کی ضرورت ہی نہیں، ذوالفقار چیمہ نے ضلعے کو بہت اچھاکنٹرول کیا ہوا ہے۔‘‘
آئی جی صاحب نے(جو بہت کم بولتے ہیں)اپنے مخصوص انداز میں کہا ''I am glad that he is doing well.But we'll have to post a permanent SP'' کچھ عرصے بعد شاہد اقبال ضلعے کےایس پی بن کر آگئے اور اُنہوں نے بڑی محنت اور لگن سے کام شروع کردیا۔ ناقص جمہوری نظام کی برکتوں سے نواب زادہ نصرﷲ خان کو ہرا کر ایک Upstarter عطا قریشی ایم این اے بن گیا تھا۔ عبدالحمید دستی مظفرگڑھ شہر سے ایم پی اے تھے۔
مَیں نےجرائم پیشہ عناصر کے خلاف سخت آپریشن شروع کیا تو دونوں مجھ سے ناراض ہوگئے۔ دونوں ایک دوسرے کے مخالف تھے، مگر کافی عرصے بعد ایک ایشو پر متفق ہوئے اور وہ تھا، میرا ٹرانسفر۔ سو، دونوں نے پوری لگن اورکمٹمنٹ کےساتھ کوششیں شروع کردیں۔ اُن کی کوششوں کے اثرات ایس پی صاحب تک پہنچے تو انہوں نے ایک روز مجھے بُلا کر کہا کہ’’عطا قریشی کی مخالفت تو سمجھ میں آتی ہے، مگر دستی صاحب آپ کو تبدیل کروانے پر کیوں تُلے ہوئے ہیں؟‘‘مَیں نے اُنہیں بتایا کہ دستی فیملی کے کچھ نوجوان منشیات کیس میں پکڑے گئے، دستی صاحب اُنہیں چُھڑوانے میرے پاس آئےتھے، جس پر میرا جواب تھا کہ ’’منشیات فروشوں کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اُنھیں یہ دھنداچھوڑنا ہوگا یا علاقہ۔‘‘ غالباً سردار صاحب ایک نوجوان پولیس افسر کے اِس گستاخانہ جواب پر ناراض ہوئے اور انہوں نے عطا قریشی کی طرف دستِ تعاون بڑھادیا اور یوں دونوں نے پورے جوش و خروش سے اے ایس پی کی تبدیلی کے ’’مقدس مشن‘‘ پر کام شروع کردیا۔
مجھے یاد ہے کہ مظفر گڑھ میں ہم نے اِس طرح ٹریفک نظام درست کیا تھا کہ میرے ٹرانسفر کے بعد بھی لوگ ذکر کرتے رہے۔ ایک بار ایس پی شاہد اقبال، کوٹ ادّو کے دورے پر گئے ہوئے تھے، مظفرگڑھ میں کسی ایشو پر شہریوں کا جلوس تھا، جس کے لیے مَیں خُود بازار میں موجود تھا۔
ڈیڑھ دو گھنٹوں کے بعد وائرلیس پر میسیج چلا کہ لوگوں نے تھانہ شاہ جمال کا گھیراؤ کرلیا ہے اور بپھرے ہوئے لوگ نعرے لگارہے ہیں کہ ہم تھانے کو آگ لگا دیں گے۔ مَیں نےجلوس پرایس ایچ اوکی ڈیوٹی لگائی اور اپنے دو تین گن مین ساتھ لےکر تھانہ شاہ جمال کی جانب روانہ ہوگیا۔
راستے میں وائرلیس کے ذریعے معلومات ملتی رہیں، اتنا معلوم ہوا کہ تھانے والوں نے کسی ملزم کو تشدّد کرکے مار دیا ہے، لوگ مشتعل ہوکر باہر نکل آئے ہیں اور اب ہزاروں کی تعداد میں تھانے کے باہر جمع ہو چُکے ہیں۔ تھانے میں چند ملازمین محصور ہیں اور انہوں نے اندر سے گیٹ بند کر رکھا تھا۔ قصبہ شاہ جمال، اے ایس پی صدر کی حدود ہی میں تھا اور مَیں یہاں کئی بار آچُکا تھا وہاں کے لوگ مجھ سےملتے رہتے تھے۔
مجھے یقین تھا کہ لوگ مجھ سے اور میری reputation سے واقف ہیں، وہ مجھ پراعتماد کریں گے۔ مَیں قصبہ شاہ جمال کی حدود میں داخل ہوا تو سڑک پر موجود لوگ بھی میری جیپ کے ساتھ ساتھ تھانے کی جانب دوڑنے لگے۔ بلاشبہ دو تین ہزار کا مجمع تھا، جو پولیس کے خلاف نعرے لگا رہا تھا۔ تھانے کا گیٹ سطحِ زمین سے بلند تھا۔ مَیں لوگوں کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا گیٹ کے سامنے بلند جگہ پر پہنچ گیا اور ہجوم کی جانب رخ کرکےاُن سے مخاطب ہوا۔
ایک دو منٹ تو نعرے لگتے رہے، پھر کچھ میرے اور کچھ وہاں کے اکابرین کے کہنے پر مجمع خاموش ہوا، تو مَیں نے کہا’’آپ مجھ پر اعتماد رکھیں۔ ایس ایچ او یا کسی اور افسر کی زیادتی ثابت ہوئی، تو اُسے سخت ترین سزا دی جائے گی۔ آپ لوگ فوری طور پر اپنے پانچ نمائندے مقرّر کر دیں، مَیں اُنہیں تھانے کےاندر لےجائوں گا اور مَیں اور آپ کے نمائندے مشترکہ طور پر انکوائری کریں گے۔ اُنہوں نےدوتین نام دیئے، کچھ شناسا سا چہرے مَیں نے منتخب کیے اور مَیں انہیں لےکرتھانےمیں چلاگیا۔
انکوائری میں جو حقائق سامنے آئے، وہ اس طرح تھےکہ چوری کے کسی ملزم پرایس ایچ او محمّد خاں نے تشدّد کیا، اُس کی حالت خراب ہوگئی تو اُسے اسپتال لے گیا، ڈاکٹروں نے اُس کی حالت دیکھ کر داخل کرنے سے انکارکردیا، اس پر وہ اُسے تھانے پھینک کر خُود کہیں غائب ہوگیا۔
پولیس ملازمین نے بھی اِن حقائق کی تصدیق کی۔ تشدّد ثابت ہوگیا تو مَیں اور پانچوں معززین باہر آگئے، اور باہر آکر مَیں نے اعلان کیا کہ ایس ایچ او محمّد خاں کےخلاف قتل کامقدمہ درج کیا جائے گا اور اُسے گرفتار کرکے سزا دی جائے گی۔ فوری طور پر متوفی کے بھائی کو بلایا گیا اوراُس کی مدعیّت میں تھانہ شاہ جمال کے ایس ایچ او محمّد خاں اوراس کےایک ’’خادمِ خاص‘‘ کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ میرے ساتھ شامل معززین نے بھی میرے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کا یہی تقاضا تھا۔
مَیں جانتا تھا کہ ایس ایچ او کےخلاف قتل کا مقدمہ درج ہوجانا بہت بڑا واقعہ ہوتا ہے، لہٰذا اب مظاہرین کے پاس گھیرائو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں رہا تھا، مگر پھر بھی کچھ تماش بین تھانے کے باہر موجود تھے، چناں چہ مَیں نے باہر آکر اُن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو، جس بےچارے کی ڈیتھ ہوئی ہے، وہ ایک غریب آدمی تھا۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے بچّے ہیں، اب آپ سب لوگوں کا فرض ہے کہ اپنی اپنی جیپ سےکچھ رقم نکالیں اوراِس شریف آدمی کے پاس جمع کروائیں تاکہ اس کی بیوی بچّوں کودےدیئے جائیں۔ پہلے ایک ہزار روپیا مَیں خود دے رہا ہوں۔
مَیں نے ایک ہزار روپے کا نوٹ نکال کر مجمعے کے سب سے بزرگ شخص کودیا اور اُنہیں اوپر اپنے پاس بلالیا۔ اب ایک دو بار اُن سے اس کارِخیر میں حصّہ ڈالنےکی بات کی، تو لوگ کھسکنا شروع ہوگئے اور گھیراؤ ختم ہوگیا۔ نئے افسروں کے لیے اِس میں سیکھنے کے لیے یہ سبق ہے کہ اگر آپ کا دامن صاف ہے، تو کسی بھی صورتِ حال سے گھبرانےکی ضرورت نہیں ہوتی۔
سنگین ترین صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار رہیں اورایسے چیلنج کو نیک نیتی، انصاف اور حکمت کےساتھ ڈیل کریں۔ گھبراجانے، panicky ہونےیاعوام کودھوکا دینےکی کوشش کی جائے، توحالات سدھرنے کی بجائے مزید خراب ہو جاتے ہیں۔
بعدازاں، تھانے دار محمّدخاں کافی عرصے تک ذلیل وخوار ہوتا رہا۔ اُسے سروس سے ڈس مِس کردیا گیا۔ پھر میرے وہاں سے تبادلے کے بعد اُس نے کچھ مقامی لوگوں کے ذریعے مدعیان کو کافی رقم دے کر اُن سے صلح کرکے اپنی جان چُھڑالی۔ مَیں اُس وقت مظفر گڑھ میں تھا، جب ضیاءالحق نے اپنے دیانت دار وزیرِاعظم محمّد خان جونیجو کو برخاست کرکے اسمبلیاں توڑ دیں۔ دوسرے روز مَیں اپنے دفتر میں بیٹھا درخواست گزاروں کےمسائل سن رُہاتھا۔
سامنے والی کھڑکی کاپردہ ہٹا دیا گیا تھا، جس سے باہر کے مناظر نظر آرہے تھے۔ اچانک مجھے سابق ایم این اےعطاء اللہ قریشی(جوبلاشبہ ایک ورکر آدمی تھا اور ہر وقت اپنے ووٹرز کے ساتھ ان کےکاموں کےسلسلے میں مختلف دفاترمیں پِھرتا رہتا تھا) نظر آیا، جو شاید اب اپنے ’’سابق‘‘ ہوجانےکی وجہ سے میرے دفتر آنے سے ہچکچا رہا تھا، مَیں نے اردلی سے کہا۔ ’’باہر عطاء قریشی صاحب ہیں، اُن سے کہو کہ اے ایس پی صاحب آپ کو یاد کررہے ہیں۔‘‘ وہ آئے، تو مَیں نے معمول سے بڑھ کر عزت اور احترام دیا، چائے پلائی اور کہا۔
’’قریشی صاحب! منتخب اسمبلیوں کواِس طرح بلاوجہ توڑ دینا اور ممبران کو گھر بھیج دینا بہت بڑا واقعہ ہے، جس سے مُلک میں ایک زلزلہ آجانا چاہیے تھا۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’بالکل ایسا ہی ہے۔‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’آپ یہ بھی مانیں کہ اتنا بڑا واقعہ ہے، مگر کہیں چڑیا نے پَرنہیں مارا۔ مُلک میں کسی جگہ کوئی احتجاج نہیں ہوا۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’یہ بھی درست ہے۔‘‘ مَیں نے کہا کہ ’’اِس سے آپ کی آنکھیں کُھلنی چاہئیں کہ آخر کوئی احتجاج کیوں نہیں ہوا۔ یہ آپ لوگوں کے طرزِ سیاست کی وجہ سے ہوا ہے۔ زیادہ تر ممبران اپنی مرضی کےافسر لگوانے اور ٹھیکوں میں پیسے بنانے میں مشغول رہے، اِس لیےعوام نے بھی اُن کی رُخصتی کا بُرا نہیں منایا۔‘‘ وہ سرہلاتے رہے۔
پھر مَیں نے بآوازِ بلندکہا۔ ’’دیکھیں، مَیں وردی میں ہوں، اِس کےباوجود کہہ رہا ہوں کہ بلاوجہ اسمبلیاں توڑنےکااقدام غیرآئینی، غیر جمہوری ہے۔ آپ کا طرزِعمل میرے ساتھ جیسا بھی تھا، مگر مَیں آپ کو اب بھی پوری عزّت دوں گا۔‘‘ اُنھوں نے کھڑے ہو کر سرائیکی انداز میں مجھےسلام کیا۔ میرا ہاتھ چُوما اور رخصت ہوگئے۔
اُنہی دنوں عدلیہ اور پولیس کے افسروں کو اسلامی قوانین سے رُوشناس کروانے کے لیے اسلامک یونی ورسٹی، اسلام آباد میں تین ماہ کا خصوصی کورس کروایا جاتا تھا۔ مجھے بھی کورس کے لیےمنتخب کیا گیا اور وہ تین مہینے اسلام آباد میں بہت اچھے گزرے۔ کورس کے اختتام پر پورے بیچ کو سعودی عرب لے جایا گیا۔ وہاں کا عدالتی نظام بھی دیکھا اور زندگی میں پہلی بار بیت اللہ شریف اور روضۂ رسولﷺ پر حاضری کا موقع بھی ملا۔ (جاری ہے)