تحریر: نرجس ملک
ماڈل: عالیہ راجپوت
ملبوسات: عزیر برائیڈل کلیکشن (کلفٹن، کراچی)
زیورات: فیشن ہُڈ جیولرز
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
کوارڈی نیشن: آصف صلاح الدین
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
عروس (دلہن) خواہ کسی بھی موسم بلکہ دنیا کے کسی بھی خطّے کی ہو، بےحد پیاری، انتہائی حسین و دل کش ہی معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو اپنی زندگی کے اِس اہم ترین دن، گویا ایک نئے جنم کےموقعے پرہر لڑکی کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اُس روز دنیا کی سب سے خُوب صُورت لڑکی، کسی ملکہ، رانی سی دکھائی دے۔
دوم، اِک نئے بندھن میں بندھنے والوں کے اہلِ خانہ، سَکھیاں سہیلیاں، دوست احباب بھی اپنے تئیں حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ شادی جیسے مقدس و پوتّر رشتے کی بدولت ایک نئے سفرکا آغاز کرنے والے ’’جوڑے‘‘ کو، اُن کی زندگی کے اِس انتہائی خاص موقعے پر بہرصُورت ’’مہمانانِ خصوصی‘‘ ہی کے طور پر ٹریٹ کیا جائے۔ اور اِس ضمن میں صرف ’’مشرق و مغرب‘‘ ہی نہیں، شمال و جنوب میں بھی کچھ یہی رِیت و روایات، رسوم و رواج عام ہیں۔
گرچہ شادی دو دِلوں، دو رُوحوں کے ملاپ (دو قالب کے یک جان ہونے) کے ساتھ، دو خاندانوں کے بھی یک جا ہونے کا نام ہے۔ یہ دن دلہن کے لیے جس قدر اہم ہوتا ہے، اُسی قدر دولھا کے لیے بھی ہوتا ہے، لیکن دنیا بھر میں بھی اور خصوصاً مشرق میں تو یہ عموماً ’’یوم عروس‘‘ ہی ٹھہرتا ہے۔ پوری تقریب کے دوران ہر نگاہ ’’دلہن‘‘ کی متلاشی رہتی، اُسی کے سراپے پہ جا مرکوز ہوتی ہے، تو ہر طرف سے گھوم پِھرکے بالآخر وہی ہر ایک کی مرکزِ نگاہ ٹھہرتی ہے اور پھر اُس کے پہناوے سے لے کر، زیورات، میک اَپ، منہدی، سینڈلز، حتیٰ کہ ہر ہرانداز، اِک اِک ادا پر مسلسل تجزیے و تبصرے بھی جاری رہتے ہیں۔
بلاشبہ، یہ سوفی صدحقیقت ہے کہ ہر لڑکی کی زندگی میں اُس کی شادی کا موقع ایک فیئری ٹیل (پریوں کی کہانی) کے مِثل ہوتا ہے۔ وہ اُن سارے ایّام کو، جو اُس کی شادی بیاہ سے موسوم ہوتےہیں، ایک جادونگری، کسی خوابوں کی بستی کی باسی کی مانند ہی جیتی ہے۔
خُود کو ہر لمحہ ایک ونڈر/فینٹیسی لینڈ (خوابوں، خیالوں کی دنیا، پرستان) میں موجود تصوّر کرتی ہے، جہاں وہ ساری پریوں کی ملکہ، سب سے حسین و دل کش راج کماری کے رُوپ میں متمکّن ہی نہیں ہوتی، گلابوں کی سیج پر براجمان اِس ملکہ پری کو اِس بات کا بھی پورا یقین ہوتا ہے کہ اِدھر وہ اپنی پھولوں کی چھڑی زمین پہ مارے گی، اور اُدھر اپنی ہرتشنہ خواہش، ناتمام آرزو، نامکمل تمنّا، دل میں جاگی کسی بھی اُمنگ یا ادھورے سپنےکو تعبیر پاتا دیکھ لےگی۔ اور اگر وہ ایسا سوچتی سمجھتی ہے، تو کچھ غلط بھی نہیں کرتی کہ عموماً لڑکیوں کی زندگی میں یہی وہ چند ایّام ہوتے ہیں، جنہیں وہ خوب جی بھرجیتی ہیں بلکہ بعض اوقات تو پھر اِن ہی ایّام کے سہارے اگلی پوری حیاتی، ایک نیا جیون جی جاتی ہیں۔ تب ہی تو دنیائے ادب میں دلہنوں سےمتعلق متعدّد خُوب صُورت اقوال و اشعار بھی ملتے ہیں۔
مثلاً: ’’دنیا کی ہر دلہن خُوب صُورت، پیار کرنے، سراہے جانے کے لائق ہے، کیوں کہ اکثر یہی رُوپ اِک لڑکی کی پوری زندگی کا حاصل، محورومرکز ہوتا ہے۔‘‘، ’’ہر دلہن ایک پھول کی طرح نازک و دل کش ہے، اور شادی کا موقع اُس پھول کے جوبن، خوشی و مسرّت کے رنگوں سے مکمل طور پر رنگے جانے، خُوب کِھل اُٹھنے، اِٹھلانے، مہکنے کا دن ہوتا ہے۔‘‘، ’’ایک دلہن، ایک سہانے خواب کے سچ ہونے کی طرح ہے۔ ایک ایسا خواب، جو پلکوں کی جھالروں پر بُنا جاتا ہے۔‘‘، ’’دلہن خوشی و مسرّت، امید و رِجا، حُسن و دل کشی کا استعارہ ہے۔
اُس کے وجود سے پُھوٹتی کرنیں، اُٹھتی بھینی بھینی خُوشبو اور چہار سُو بکھرتی دھیمی دھیمی لَو اطراف کے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔‘‘، ’’دلہن کسی نادر و نایاب، قیمتی پتّھر کی مانند ہے، جس کی چمک دمک ہر آنکھ کو خیرہ کیے دیتی ہے۔‘‘، ’’تقریبِ عروسی کا دل، درحقیقت عروس ہی ہے۔
اُس کی دھڑکن خوش گوار ہوگی، تو ہی بزم کو ہزار چاند لگیں گے۔‘‘، ’’خوشی و مسرّت، چاہت و محبّت اور حُسن و جمال کا مجسّمہ دیکھنے کی خواہش ہو، تو ایک دلہن کی طرف دیکھا جائے۔‘‘، ’’ ایک دلہن گویا پورن ماشی، چودھویں کا چاند ہے اور بادل کے کسی ٹکڑے کو اُس کی روشنی ذرا سی بھی مدھم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘‘،
’’زندگی واقعی حسین ہے اور اس یاد دہانی کی اگر کوئی مجسّم صُورت ہوسکتی ہے، تو وہ دلہن ہے۔‘‘، ’’ایک دلہن کا حُسن و جمال اُن سب کے لیے ایک تحفہ ہے، جو اس کی زندگی کی سب سے حسین دن کو اپنی شرکت اور دُعاؤں سے یادگار بناتے ہیں۔‘‘، ’’اَن گنت تصوّرات و خیالات، احساسات و جذبات کی یک جائی کا ایک چہرہ، دلہن کا چہرہ ہے۔‘‘ اور ’’دلہن کا مکمل حُسن، اُس کےدولھےکی آنکھوں سےچھلکتا ہے۔‘‘ اور… جب ’’حُسنِ عروس‘‘ اشعار کے قالب میں ڈھلا، تو بھی ایک سے بڑھ کر ایک شعر ہوا۔ مثلاً ؎ اب اُنہیں اپنی ادائوں سے حجاب آتا ہے…چشمِ بددُور دلہن بن کے شباب آتا ہے۔
؎ چاند بکھرا رہا ہے کرنوں کو، کون آتا ہے سر کو نیہوڑائے…بادلوں کے سجیلے ڈولے پر، کوئی دلہن پیا کے گھر جائے۔ ؎ زندگی خوابوں کی چلمن میں یوں اِٹھلاتی ہے… جیسے سکھیوں میں گِھری ہو، کوئی شرمیلی دلہن۔ ؎ کسی دلہن کے جھمکتے ہوئے جھومر کی طرح… رات نے صُبح کے ماتھے پر سجایا سورج۔ اور ؎ بھول بھی جائیں تیرگیٔ حیات، مُسکراتی کرن کی بات کریں…سُرخ آنچل میں کسمسائی ہوئی، صبح کی اُس دلہن کی بات کریں۔
یوں تو ہرخطّے، ہر موسم، ہررُت کی دلہن حسین ہے، لیکن ’’عروسِ سرما‘‘ کی تو بات ہی الگ ہے کہ اِک توموسم عاشقانہ، اُس پر حُسنِ مجسّم، تو پھر بزم کو تو شعلۂ جوالا ہونا ہی تھا۔ سو، آج ہماری بزم بھی ہے۔ ذرا دیکھیے تو، خالص عروسی رنگ، گہرے سُرخ (بلڈ ریڈ کلر) سے لے کر انتہائی حسین گولڈن شیڈ بے بی پنک اور پستئی سبز رنگوں کے خُوب صُورت، جاذبِ نظر پہناووں اور ساتھ ہم آمیز زیورات و آرائش نے آج ہماری محفل کو کیا جِلا بخشی ہے۔ آپ کی رائے تو بعد کی بات ہے، فی الوقت تو ہم خُود ہی صدقے واری ہوئےجاتے ہیں۔
بےاختیار فراق گورکھپوری کی وہ نظم یاد آگئی کہ ؎ رَس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن، کیا کہنا…کروٹیں لیتی ہوئی صبحِ چمن، کیا کہنا…باغِ جنّت پہ گھٹا جیسے برس کے کُھل جائے… یہ سہانی تِری خوشبوئے بدن، کیا کہنا…ٹھہری ٹھہری سی نگاہوں میں یہ وحشت کی کرن…چونکے چونکے سے یہ آہوئے ختن، کیا کہنا..... رُوپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ… تجھ پہ لہلوٹ ہے بےساختہ پن، کیا کہنا… لہلہاتا ہوا یہ قد یہ لہکتا جوبن…زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بَن، کیا کہنا…جلوے و پردے کا یہ رنگ دَم نظارہ…جس طرح اَدھ کُھلے گھونگھٹ میں دلہن کیا کہنا۔