تحریر: نرجس ملک
ماڈل: مِنسا ملک
ملبوسات: شاہ پوش (لبرٹی مارکیٹ، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
کہیں لکھا دیکھا کہ ’’جس روز آپ یہ عُقدہ حل کرلیں گے ناں کہ ایک پِزا گول شیپ میں تیار کرکے چوکور باکس میں پیک کیوں کیا اور پھر تکون شیپ میں کھایا کیوں جاتا ہے، تو اُس دن آپ ایک عورت کو سمجھنے کا دعویٰ بھی کر سکتے ہیں۔‘‘ پڑھ کے ہنسی چُھوٹ گئی کہ کیا واقعی عورت اس قدر گمبھیر، دقیق و گنجلک معمّا یا پہیلی ہے۔ اِسی طرح عورتوں سے متعلق کچھ اور بھی باتیں، خصوصاً Myths (خرافات) بڑی عام ہیں۔
مثلاً: عورتیں کند ذہن، ناقص العقل ہیں۔ عورت کا دل، اُس کے دماغ پر حُکم رانی کرتا ہے، اِس لیے وہ مرد کا دل تو بن سکتی ہے، دماغ نہیں۔ سونا، ہر عورت کی کم زوری ہے۔ عورتیں صرف جسمانی طور پر ہی نہیں، جذباتی طور پر بھی مَردوں سے کم زور ہیں۔ ایک عورت کبھی اچھی ڈرائیور نہیں ہوسکتی۔
ہرعورت کا پہلا پسندیدہ رنگ گلابی ہے۔ عورتیں پیٹ کی ہلکی ہوتی ہیں، وہ کوئی راز، راز نہیں رکھ سکتیں، سوائے اپنی عُمر کے راز کے۔ عورتیں ریاضی (حساب کتاب) میں ہمیشہ کم زور ثابت ہوتی ہیں۔ جِسےپیا چاہے، وہی سہاگن۔ تین ضِدوں کا کوئی توڑ نہیں، راج ہٹ، بالک ہٹ اور تریا ہٹ۔ عام طور پر خواتین، مَردوں سے زیادہ باتونی، فضول گو اور گھریلو سیاست، سازشوں کی ماہر ہوتی ہیں۔ عورت کا سب سے بڑا ہتھیار اُس کے آنسو ہیں۔ عورتیں اور بلیاں کام کرکے آرام و سکون محسوس کرتی ہیں۔
ویلی رَن، پرونیہاں جوگی (فارغ عورتیں مہمان داریوں ہی میں الجھی رہتی ہیں)۔ زن، زر اور زمین فساد کی جڑ ہیں۔ کوئی حسین عورت ذہین نہیں ہوسکتی اور ذہین عورت، حسین نہیں۔ عورتیں زیادہ حسّاس، زود رنج اور ڈرپوک ہوتی ہیں۔ عورت زخم بھول بھی جائے، خراشیں ہمیشہ یاد رکھتی ہے۔ ایک عورت ہی دوسری عورت کی دشمن ہے۔ عورت، محبّت کی موت/ قتل برداشت کرسکتی ہے، اُس میں شراکت نہیں۔ ڈُونگا کنڈھ، نمّے بول، عورت جائے، تریہہ کھار رول (لمبےگھونگھٹ، دھیمی آواز والی عورت تین گھر برباد کرسکتی ہے) نیک عورت سے زیادہ نیک اور بَد عورت سے زیادہ بَد دنیا میں کوئی چیز نہیں۔
عورت کی مرضی ہوگی، تو وہ تَن مَن دَھن سب وار دے گی، اور منشا کے بغیر کسی کو نگاہ اُٹھا کے، مُسکرا کے بھی نہیں دیکھے گی۔ ہر عورت کو اپنی تعریف، خواہ وہ سو فی صد جھوٹی ہی کیوں نہ ہو، ہمیشہ سچّی لگتی ہے۔ اور… ’’عورت اور بنائو سنگھار‘‘ لازم و ملزوم سہی، لیکن ایک عورت ہمیشہ دوسروں ہی کے لیے بنتی سنورتی ہے۔کبھی صنفِ مخالف کو متوجّہ، مرعوب کرنےکے لیے، تو کبھی اپنی ہم جِنسوں کو رشک و حسد کے جذبات سےمغلوب کرنے کی خاطر۔
گرچہ بےشمار خواتین نے درج بالا حکایتوں، کہاوتوں، محاوروں، ضرب الامثال کو یک سر غلط بھی ثابت کیا ہے۔ اپنے عقل و شعور، ذہنی بالیدگی، قول و عمل، مختلف شعبۂ ہائے زندگی میں بے مثال و لافانی کام یابیاں و کام رانیاں حاصل کرکے اور بارہا، اَن گنت بار مَردوں کی اِس دنیا میں، خود کو مَردوں کے برابر یا بدتر ثابت کرکے، مگر ہنوز وہ خُود سے وابستہ صدیوں پُرانے کئی منفی تصوّرات، مفروضات اور توہمّات کو سو فی صد غلط ثابت کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکیں، اور وجہ صرف مَردوں کی ہٹ دھرمی نہیں، بہت سی عورتوں کا اپنی ذات سے منسوب و مشروط کئی مافوق الفطرت باتوں، دیو مالائی قصّوں، کہانیوں، اساطیر، واہموں کو خُود بھی سچ مان لینا ہے۔
حالاں کہ جیسے ہر مرد ایک مکمل انسان ہے، ویسے ہی ہرعورت بھی۔ جیسے ہرایک مرد، دوسرے سے مختلف ہے، ویسے ہی عورتیں بھی۔ خواتین کے لیے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں جتنی عورتیں ہیں، اُتنی ہی اُن کی اقسام ہیں، تو یہ بات مَردوں پر بھی صادق آسکتی ہے۔ مرد کون سا ’’فوٹو کاپیئر‘‘ سے پرنٹ ہو ہو کے نکلتے ہیں۔ سب عورتیں گتھیاں، پہیلیاں ہیں، نہ سب مرد کُھلی کتابیں۔
سب عورتیں نازک مزاج، حسّاس، زود رنج، کم زور دل ہیں، نہ سب مرد عزم و ہمّت کے پہاڑ۔ عورتیں اچھی ڈرائیور بھی ہوسکتی ہیں، ماہر ریاضی دان، سائنس دان، تو کم گو، صلح جُو، نرم خُو اور بہت امن پسند بھی۔ اِسی طرح سارے مرد بھی سخت دل، کرخت مزاج ہیں اور نہ ہی سارے کے سارے بےحد مظلوم اور بہت صابر و شاکر۔ اور یہ بات تو قطعاً غلط ہے کہ خواتین اپنے لیے سجتی سنورتی، بناؤ سنگھار نہیں کرتیں۔ اب بھلا خُود کو صاف ستھرا، بنا سنورا دیکھ کے آئینے سے خُوب مُسکراتے ہوئے نظریں ملانا کِسے اچھا نہیں لگتا۔
چلیں بھئی، ’’عورت نامہ‘‘ بہت ہوا، آج کی بزم سے ملاقات کیےلیتے ہیں، جو موسم میں خنکی بڑھ جانے کے سبب کھدّر کے تِھری پیس پہناووں سے مرصّع کی گئی ہے۔
گہرے، اُجلے، شوخ و شنگ رنگوں کے یہ ملبوسات خاص نومبر، دسمبر ہی کے مہینے کے لیے ہیں اور سالِ رواں ہی کی کلیکشن ہے (گرچہ دیکھ کے لگ رہا ہے، جیسے ماڈل نے اٹیچی کیس سے پچھلے برس کےفنائل زدہ پہناوے نکال کر زیبِ تن کرلیے ہیں، لیکن ایسا ہے نہیں) ہاں، بس آپ اِن میں سے کچھ بھی منتخب کریں، تو آئرن کر کے ہی پہنیے گا۔ تاکہ دیکھ کے کوئی کہے، تو یہی کہے
؎ درد کے چاند کی تصویر غزل میں آئے…شعر لکھوں تو یہ تاثیر غزل میں آئے… سُنتے آئے ہیں بہت ذکر حسیں خوابوں کا…اب کسی خواب کی تعبیر غزل میں آئے…اُن کے چہرے کو مَیں اِس طرح پڑھا کرتا ہوں… جیسے غم کی کوئی تفسیر غزل میں آئے… کھیت کھلیان سے جب سانولی صُورت لوٹے… سُرمئی شام کی تنویر غزل میں آئے…اپنے کردار کا کچھ عکس تو جھلکے انجم…آئنے کی کوئی تحریر غزل میں آئے۔