• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق دوبارہ منتخب ہونے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گزشتہ انتخابات میں اپنی شکست کا ذمہ دار فوجی اداروں کو سمجھتے ہیں اور اس بار اپنی طوفانی انتخابی مہم کی تقاریر میں بار بار ’’فوج میں بڑی تبدیلی‘‘ کا وعدہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اب جبکہ انہوں نے صدارتی انتخابات کے میدان میں کامیابی حاصل کر لی ہے تو اپنے ساتھیوں کو مبینہ طور پر سابق اور موجودہ اعلیٰ عہدہ کے فوجی افسران کی فہرست کی تیاری کی ہدایت کردی ہے تاکہ ذمہ داروں کو مواخذہ کے عمل سے گزارا جاسکے۔ چند روز قبل ایک عالمی خبر رساں ادارے نے خبر دی تھی کہ چیئرمین، وائس چیئرمین اور جوائنٹ چیف آف اسٹاف سمیت بری، بحری، فضائی اور نیشنل گارڈز کے سربراہان بھی قابل مواخذہ ہونگے۔ کہا جاسکتا ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے شرمناک انخلا کے ذمہ دار افسران کا کورٹ مارشل کرنے کا پکا ارادہ رکھتے ہیں اور صدر ٹرمپ اس حوالے سے ایک کمیشن تشکیل دینا چاہتے ہیں جو افغانستان سے انخلا کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے گا جو ہر لحاظ سے بااختیار ہوگا۔ اس کمیشن کے پاس انخلاکے طریقہ کار کا جائزہ، فیصلہ سازی میں براہ راست شامل فوجی افسران کی شناخت اور غداری سمیت دیگر الزامات عائد کرنے کا بھی مکمل اختیار ہوگا۔

رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا، ایک طرف تو امریکی صدر جو بائیڈن یوکرین جنگ میں اپنی قوم اور دنیا کو جھونکنے کی منظوری دے رہے ہیں تو دوسری بار منتخب ہونے والے ان کے پیشرو نئے امریکی صدر ٹرمپ اس بات پر سیخ پا ہیں کہ بیس بائیس سال کی سر پھٹول کے بعد ذلت آمیز طریقے سے افغانستان سے اپنی ٹانگ کیوں باہر نکالی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے امریکی فوج کی افراتفری کے عالم میں ’’ناکام اور شرمناک‘‘ واپسی کے ذمہ دار افسران کے کورٹ مارشل کی تیاری شروع کردی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ رات کی تاریکی میں اربوں کا اسلحہ اورپے در پے ناکامیوں کا ’’اثاثہ‘‘ یوں بزدلی سے چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا۔

شکر کا کلمہ پڑھا تھا امریکی، برطانوی اور دیگر اتحادی فوجیوں نے کہ افغانستان کی سر زمین سے جان بچانے میں کامیاب رہے تھے اور ان دیکھی موت جو ہر لمحہ ان کا پیچھے رہا کرتی تھی اس سے جان چھڑالی تھی لیکن اب ہزاروں فوجیوں کی جانیں بچانے کے ’’جرم‘‘ میں چند مبینہ ذمہ دار افسران کے کورٹ مارشل کی ’’قسم‘‘ اٹھالی گئی ہے۔ شاید صدر ٹرمپ یہ سمجھتے ہیں کہ

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

کے مصداق انہیں معلوم ہوا کہ افغان جنگ میں کوئی اور نہیں انکے اپنے ہی جرنیل رکاوٹ بنے ہوئے تھے جنہوں نے بیس سالہ طویل اور ایک تھکا دینے والی جنگ کا ایک بھونڈا انجام پیش کیا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ امریکی ’’فرنٹ فیس‘‘ نے ساری دنیا میں جارحیت اور جنگ و جدل کے سینگ پھنسا رکھے ہیں۔ سمجھا یہ جارہا تھا کہ افغانستان میں ذلت آمیز شکست کے بعد عالمی دنیا کا ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کا بانی اور سپریم ملٹری کنٹری اب ’’ٹک‘‘ کر بیٹھ جائے گا لیکن یوکرین کی جنگ میں کود کر اس سیماب صفت نے دنیا کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ ہمارے ہوتے ہوئے کوئی جنگ لڑی جائے یہ ممکن ہی نہیں، اگر امریکی ساختہ اسلحہ استعمال نہیں ہوگا تو خاک لڑائی کا مزا آئے گا، یوں ہی جنگیں ہوتی رہیں گی تو امریکہ جیسے ملکوں کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کا دھندہ چلتا رہے گا ورنہ ان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں کو تالے لگ جائیں گے اور دنیا بھر میں اسلحہ کی دوڑ ختم ہو جائے گی، جیسے ہم مجبور ہیں کہ بھارت جیسے دشمن کے خلاف اسلحہ تیار رکھیں کیونکہ اس سر پھرے سے کسی بھی وقت جارحیت کا خطرہ رہتا ہے اور وہ ہر وقت پاکستان کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے ورنہ یہی کھربوں ڈالر ہم اپنے ملک کی تعمیر و ترقی پر بھی لگا سکتے ہیں جس کا رستہ ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اسلحہ کے انبار لگا کر روک رکھا ہے۔ اگر امریکی اور مغربی ممالک کا اسلحہ نہ بنے تو اسرائیل جیسی جارح اور روئے ارض پر سیاہ نقطے کی طرز کی ایک ناجائز ریاست یوں مظلوم فلسطینیوں کا ان ہی کی سر زمین پر یوں خون نہ بہا رہی ہوتی۔ تو صاحبو! جب کچھ نئے مہلک ہتھیار بن جاتے ہیں اور ان کا ٹیسٹ کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیا جاتا ہے تو پھر ’’یقین کامل‘‘ کیلئے اسے انسانوں پر آزمانے کیلئے کمزور ملکوں بالخصوص اسلامی ممالک پر نظر انتخاب ٹھہرتی ہے۔ دو تین ممالک حق اور مخالفت میں سامنے آتے ہیں، حق میں بھی اور مخالفت کرنے والے بھی اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے حق یا مخالفت میں آواز اٹھاتے ہیں۔

کہہ سکتے ہیں کہ امریکی صدر نے مواخذہ کا جو فیصلہ کیا ہے وہ کسی حد تک درست ہے کہ اگر افغان جنگ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جاتا ہے اور آئندہ جنگوں میں نہ کودنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے تو یہ دنیا کیلئے ایک مثبت اشارہ ہوگا۔ جہاں تک ہماری بات ہے تو ’’سقوط مشرقی پاکستان سے کارگل‘‘ تک اور ’’لیاقت علی خان کی شہادت سے بے نظیر بھٹو کی مظلومانہ شہادت تک‘‘ خصوصی تحقیقاتی ماہرین کی رپورٹ نہ تو سامنے آئی اور آج تک پاکستان میں ہونے والے کسی بھی سانحہ کے ذمہ داروں کو سزا نہیں ملی، یہ الگ بات ہے کہ تاریخ نے ایسے پاکستان دشمن فیصلہ سازوں کو گوشہ گمنامی کی سزا ضرور دی ہے۔ حسب حال ایک شاعر کے چند بول۔

اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں

غیروں نے آکے پھر بھی ہمیں تھام لیا ہے

بن کر رقیب بیٹھے ہیں وہ جوحبیب تھے

یاروں نے خوب فرض کو انجام دیا ہے

تازہ ترین