• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل بہت اداس ہے اتنا اداس کہ بعض اوقات دھڑکن بھی احتجاج پر اتر آتی ہے تو ہستی ڈانواں ڈول ہونے لگتی ہے۔کوئی روحانی سہارا کیسے تلاشوں کہ روح بھی مضمحل اور ملول ہے۔ دل کا اضطراب اور روح کا ملال مل کر سوچ کو قنوطیت کی طرف دھکیل رہے ہیں جو میری تعمیر میں مضمر نہیں مگر وحشتناک مناظر میں اپنی ذات اور تصورات تک محدود ہو کر رجائیت کا اعلان نہیں کیا جاسکتا۔ یوں دل و جاں کی اداسی کا سبب ذاتی نہیں حکومتی ہے۔ سچی بات ہے حکومت کی بے بسی دیکھی نہیں جاتی۔ پتہ نہیں حکومت واقعتاً بے بس ہے یا کچھ کرنا نہیں چاہتی۔ اہلِ اقتدار ثابت ہی نہیں کرنا چاہتے کہ وہ حکومت کر رہے ہیں۔فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہیں۔ ان کے پاس غلط کو روکنے اور صحیح کا ساتھ دینے کا پورا اختیار ہے۔ہاں وہ پوری سنجیدگی اور انہماک سے طاقتور اور کمزور کی لڑائی میں ہماری طرح تماشائی بنے ہوئے ہیں جو نہ طاقتور کا ہاتھ پکڑنے کی جرات کرتے ہیں اور نہ کمزور کی دادرسی کی۔ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لوگوں کے رویے دن بدن مایوسی اور بے بسی میں ڈھلتے جا رہے ہیں۔ رونا روٹی ، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتوں کا نہیں امن و سلامتی اور تحفظ کے احساس کا ہے جو اپنے ہی ملک کی چھتری تلے مفقود ہو چکا ہے۔ ریاست کے اندر بنی ریاستوں نے قانون ،عقیدے اور اخلاقی قدروں کے مجسمے کا منہ کالا کر کے چوک پر لٹکایا ہوا ہے۔عجیب طرح کی ان دیکھی وحشت حرکت میں ہے ، حکومت صرف بے بس نہیں ، شدید خوف زدہ بھی ہے اور یہ خوف اس بے یقینی کی دین ہے جو تخت کو تختے میں بدل دیتی ہے۔حکومت کو چاہیے خوف کا کوٹ اتار کر دھوپ میں بیٹھے ، اپنے اوسان بحال کرے اور طاقت کا مظاہرہ قانونی رٹ کو بحال کر کے کرے۔ تقاریر ،بیانات اور پریس کانفرنسز کے ذریعے ،ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کر دیں گے جیسی پھوکی فائرنگ بند کرے، ایک لمحے میں بیان چل رہا ہوتا ہے، ہم کسی کو شر انگیز کارروائیاں کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور اگلے خبرنامے میں اسکرین پر دل دہلا دینے والی کارروائی نمودار ہوتی ہے اور ہنستے بستے معصوم انسانوں کے لہو کے قطرے ہمارے احساس کے آئینوں سے ٹکرا کر ہمیں بھی لہولہان کر دیتے ہیں۔خیبر پختونخواگزشتہ بیس پچیس سال سے اندورنی ٹوٹ پھوٹ اور گھمبیر مسائل کا شکار ہے اور یہ مسائل کسی نہ کسی حوالے سے پورے ملک کو درپیش ہیں لیکن اتنی تخریبی کارروائیوں کے بعد بارود بن گئی دھرتی اور رویوں کو نارمل کرنے کے لئے وہاں کسی جدید تعلیم یافتہ، سوبر،روادار اور معاملہ فہم وزیراعلیٰ کی ضرورت تھی۔ لیکن کیا کہنے فیصلہ سازوں کے کہ جن کی نظر انتخاب علی امین گنڈا پور پر پڑی جو گنڈاسہ دور کے پنجابی ، پشتو فلمی ہیرو اور ولن کے اثر سے نہیں نکل پا رہے ، جو کبھی سلطان راہی ،کبھی مصطفیٰ قریشی ،کبھی بدر منیر اور کبھی آصف خان کی طرح نمودار ہوتے ہیں، چند ڈائیلاگ بول کر غائب ہو جاتے ہیں اور اگلی صبح سرکار دربار میں اچھے بچے کی طرح نکات نوٹ کر رہے ہوتے ہیں۔اْن کا کوئی قصور نہیں جس طرح عثمان بزدار کا کوئی قصور نہیں تھا ، انھوں نے لڑ کر تخت وزیراعلیٰ تک رسائی نہیں پائی تھی ، بھری کلاس سے ان کا نام پکار کر ذمہ داری ڈالی گئی تھی، وہ تو اپنی صلاحیتوں اور آئی کیو لیول کے مطابق ہی عمل کریں گے اور شاید یہی صلاحتیں ان کی تقرری کا باعث بنی ہوں۔ یقیناً عثمان بزدار کی طرح علی امین گنڈاپور بھی محترمہ بشری ٰ بی بی کی سیاسی فہم وفراست کا انتخاب ہوں گے۔ اسی لئے اب انھوں نے پنجاب کی طرح پختونخوا پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔ پختونخوا کے لوگوں سے درخواست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جلوس نکالنے سے بات نہیں بنے گی، اب صوبوں کے پاس بہت اختیارات ہیں۔ مرکز سے امیدیں لگانے اور اسےموردالزام ٹھہرانے کی بجائے صوبے کا اختیار کسی سیاسی، جمہوری اور تعمیری فرد کے حوالے کریں گے تو مسائل سلجھیں گے۔ ایک ایسے شخص سے تعمیر وترقی کی کیا امید رکھی جا سکتی ہے جو اپنے صوبے میں بے رحمی سے مرتے معصوم افراد کی فکر کرنے کی بجائے ایک فرد کو جیل سے نکالنے کے لئے صوبے کے وسائل اور توانائیاں بے دردی سے پھونکتا جارہا ہو۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جیل میں بیٹھے شخص کو ہر سہولت حاصل ہے، اس کا کیس عدالتوں اور انتخابی حلقوں میں لڑیں، سڑکوں پر نہیں۔مجموعی صورتحال یہ ہے کہ کہیں ڈاکوؤں کا راج ہے اور کہیں دہشت گردوں کا ،ہر طاقتور نے اپنے دائرہ کار کے اندر اپنا قانون نافذ کر رکھا ہے ایسی صورت میں ترقی کے اشارئیے کاغذوں پر نظر آتے ہیں مگر زندگی میں دکھائی نہیں دیتےاگر واقعی حکومت وقت اور شریک اداروں کو ملک کا استحکام اور ترقی عزیز ہے تو انہیں ریاست کی رٹ قائم کرنے میں ایک پیج پر آنا پڑے گا۔

تازہ ترین