سندھ کے ساتھ مرکزی حکومت کی ناانصافیاں کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی جارہی ہیں۔ سندھ کی قوم پرست جماعتیں اور پانی کے ماہرین اب تک دریائے سندھ پر نئی نہریں نکالنے کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں مگر اب تو کچھ دیگر حلقوں سے بھی اس قسم کی شکایتیں آنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ اطلاعات آنے لگی ہیں کہ وفاقی حکومت سندھ کے ترقیاتی منصوبوں کو نظر انداز کر کے یا تو معمولی رقم مخصوص کر رہی ہے یا بالکل نظر انداز کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین اطلاع یہ آئی ہے کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت سندھ کے چند منصوبوں کیلئے فقط 2 ارب روپے جاری کئے گئے ہیں جبکہ باقی منصوبوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ان حلقوں کے مطابق وفاقی ترقیاتی پروگرام میں شامل سندھ کے منصوبوں کیلئے 5 مہینوں کے دوران 76ارب 97کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے مگر اب اس رقم میں سے فقط 2ارب 15کروڑ روپے جاری کئے گئے ہیں جبکہ باقی منصوبے نظر انداز کردیئے گئے ہیں۔ مزید اطلاعات کے مطابق سیلاب سے متاثر لوگوں کے گھر تعمیر کرانے کیلئے وزیر اعظم کے پروگرام میں مختص کئے گئے 60ارب روپے میں سے اب تک ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ جبکہ سیلاب سے متاثر 833اسکولوں کی مرمت کیلئے مختص کئے گئے 5ارب روپے میں سے بھی اب تک ایک روپیہ نہیں دیا گیا۔ اسی طرح حیدرآباد پیکیج کیلئے مخصوص کی گئی 5ارب روپے کی رقم سے بھی اب تک ایک پائی نہیں دی گئی، کراچی پیکیج کیلئے مخصوص کئے گئے 10ارب روپے اورگرین پاکستان منصوبے کے تحت سندھ کیلئے مخصوص کی گئی 21ارب روپے کی رقم میں سے بھی سندھ کو کچھ نہیں ملا۔ حیدرآباد میں گندے پانی کی صفائی کیلئے فلٹر پلانٹ لگانے اور پانی کی فراہمی کے منصوبے کیلئے مخصوص کی گئی ایک کروڑ کی رقم میں سے بھی کچھ نہیں دیا گیا۔ ایک اور اطلاع کے مطابق دریائے سندھ کو زہریلے پانی سے بچانے کیلئے بنائے گئے منصوبے کیلئے بھی ایک روپیہ تک جاری نہیں کیا گیا۔ آر بی او ڈی (رائٹ بینک آئوٹ فال ڈرین) منصوبہ گزشتہ 23 سال سے بحران کا شکار ہے حالانکہ اس منصوبے کیلئے 10کروڑ روپے رکھے ہوئے ہیں، اسی طرح ایل بی او ڈی (لیفٹ بینک آئوٹ فال پروجیکٹ) کی بحالی اور بہتری کیلئے 10کروڑ روپے کی رقم بھی جاری نہیں کی گئی، اس کے علاوہ کلری بگھاڑ فیڈر اور کینجھر جھیل کی بہتری جیسے منصوبوں کیلئے ایک ارب روپے مخصوص کئے گئے مگر اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور ان منصوبوں کی صورتحال جوں کی توں ہے۔ اس مرحلے پر میں ایل بی او ڈی اور آر بی او ڈی کے بارے میں کچھ معلومات شیئر کرنا چاہوں گا۔ایل بی او ڈی کے ذریعے پنجاب کا گندا پانی سندھ کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے سمندر میں ڈالا گیا مگر یہ کام اتنے غلط طریقے سے کیا گیا کہ جہاں کینال کے ذریعے یہ گندا پانی سمندر میں ڈالا گیا وہاں سمندر کے پانی کی سطح کینال کے پانی کی سطح سے اوپر تھی لہٰذا یہ پانی اکثر سمندر میں داخل ہونے کی بجائے واپس کینال میں ہی جا گرتا ہے۔ اس پانی سے سندھ کی کافی زمین تباہ ہوئی ہے۔ اسی طرح آر بی او ڈی سے بلوچستان کے ایک خاص علاقے کا گندا پانی سندھ کی طرف پھینکا گیا۔ یہ گندا پانی بلوچستان بارڈر سے سندھ کی زمینوں کو تباہ کرتا ہوا منچھر جھیل میں گرا‘ منچھر جھیل سندھ کی ایک بڑی جھیل تھی جہاں مچھلیوں کی بہت بڑی تعداد ہوتی تھی مگر جب بلوچستان کا یہ گندا پانی جھیل میں گیا تو مچھلیاں اس زہریلےپانی سے تڑپ تڑپ کر مرگئیں اور ایک مرحلے پر جھیل کسی حد تک مچھلیوں سے خالی ہوگئی اور یہاں کے مچھیرے کافی حد تک بے روزگار ہو گئے۔ سندھ کے ساتھ فقط یہ زیادتی نہیں ہوئی‘ کافی ایسی زیادتیاں اور بھی ہوئیں جنکے بارے میں ابھی تک یہاں کے لوگوں کو بہت کم معلومات ہیں۔ ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ ان دنوں میں سندھ کے آبپاشی کے ایک اہم منصوبے کے ساتھ منسلک ہوگیا تھا‘ یہیں پنجاب کے محکمہ آبپاشی کے ایک دوست نے مجھے خفیہ طور پر اطلاع دی کہ پنجاب سے مزید گندا پانی سندھ کی طرف پھینکنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ (جاری ہے)