کتے کی وفاداری ضرب المثل ہے ،یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ’’کتا پال اسکیم‘‘بہت پرانی ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم نے اپنی شریک حیات رتی جناح کی یاد میں دو کتے پال رکھے تھے white west highland terrierاور سیاہ رنگ کا Doberman۔ البتہ ان کی وفات کے بعد کتے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے اور انواع و اقسام کے جانور پالنے کا سلسلہ چل نکلا۔ قائد اعظم کے جانشین گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین جو بعد ازاں لیاقت علی خان کی شہادت پر وزیر اعظم بنے، انہیں مرغبانی کا شوق تھا۔ گورنر جنرل ہائوس اور پھر وزیر اعظم ہائوس میں مرغوں کو بہت نازو نعم سے پالا جاتا رہا۔ پیر علی محمد راشدی اپنی کتاب ’’روداد چمن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ جب گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت برطرف کر دی تو ان کے پاس کوئی ذریعہ معاش نہیں تھا۔ پیر علی محمد راشدی سندھ میں ریونیو کے وزیر تھے تو خواجہ ناظم الدین انکے پاس درخواست لیکر آئے کہ انہیں سندھ میں کہیں کوئی غیر آباد زمین کا ٹکڑا الاٹ کر دیا جائے تو وہ مرغی خانہ بنا کر فاقہ کشی سے بچنے کا بندوبست کر سکیں۔ زمین تو مل گئی مگر وسائل دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مرغی خانہ نہ بن سکا۔ اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید مرزا کو بلیاں پالنے کا شوق تھا۔ جب 27اور 28اکتوبر کی درمیانی رات کمانڈر انچیف ایوب خان کی ہدایت پر تین جرنیل اسکندر مرزا سے گن پوائنٹ پر استعفیٰ لینے ایوان صدر پہنچے تو ناہید مرزا نے پریشانی کے عالم میں کہا، اب میری بلیوں کا کیا ہو گا؟ ایوب خان کی سگ شناسی سے متعلق کوئی روایت دستیاب نہیں البتہ معروف مصنف یاسر لطیف ہمدانی کے مطابق صدارتی الیکشن جیتنے کے بعد جب ایک جنرل کے بیٹے نے کراچی میں ایک کتیا کے گلے میں لالٹین ڈال کر جلوس نکالا۔ وقت نے پلٹا کھایا تو وقت کے ڈکٹیٹر کے خلاف ’’کتا، ہائے ہائے‘‘ کے نعرے لگے اور اسے اقتدار چھوڑنا پڑا۔ دوسرے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان نے ایک جرمن شیفرڈ پال رکھا تھا اور ہر وقت اسے سہلاتے رہتے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو بھی پالتو جانوروں کے شوقین تھا، ان کے پالے ہوئے ایک کتے نے انہیں ہی کاٹ لیا۔ اس واقعہ کی مزید تفصیل سیدہ حمید کی کتاب ’’Born to be hanged ,Political Biography of Bhutto‘‘ سمیت کئی کتابوں میں موجود ہے۔ بھٹو کے پوتے ذوالفقار جونیئر نے نہ صرف Cujoنام کا ایک کتا پال رکھا ہے۔
فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور میں کتے پالنے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ انکے دو کتوں ’’ڈاٹ‘‘ اور ’’بڈی‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔ 12اکتوبر 1999ء کو جب منتخب جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور تسلی کر لینے کے بعد انہوں نے اپنے طیارے کو کراچی ایئرپورٹ پر لینڈ کروانے کا فیصلہ کیا گیا تو ایئر ٹریفک کنٹرول روم میں میجر جنرل افتخار موجود تھے۔ انہوں نے بتایا، سر معاملات کنٹرول میں ہیں، آپ لینڈ کر سکتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کو خوف تھا کہ کہیں یہ سب فریب نہ ہو۔ انہوں نے کہا، افتخار بتائو میرے پالتو کتوں کے نام کیا ہیں۔ میجر جنرل افتخار نے کہا، سر! ڈاٹ اینڈ بڈی۔ یوں جنرل پرویز مشرف کی تسلی ہوئی۔ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد جنرل پرویز مشرف کا کتے پالنے کا شوق کم نہ ہوا۔ پرویز مشرف نے ایک دور میں ’’وہسکی‘‘ نام کا ترک کتا پال رکھا تھا۔ جلاوطنی کے دور میں بھی ایک چائنیز بریڈ کا کتا ان کے پاس موجود رہا جبکہ چک شہزاد میں انکا فیورٹ ڈاگ جرمن شیفرڈ ہوا کرتا تھا جس کا نام چی گویرا کی مناسبت سے ’’چے‘‘رکھا گیا۔ دراصل جرمن چانسلر نے ایک جرمن شیفرڈ پرویز مشرف کو تحفے کے طور پر پیش کیا جس کا ملاپ ہمایوں گوہر کے ہاں موجود ایک فیمیل جرمن شیفرڈ سے کروایا گیا۔ ہمایوں گوہر نے ان دونوں کے ملاپ سے پیدا ہونے والے کتے کے بچوں میں سے ایک نربچہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو تحفتاً پیش کیا جس کا نام’’شیرو‘‘ رکھا گیا۔ ’’شیرو ‘‘ عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی ’’کتا اول‘‘ بننے کی حسرت دل میں لیے فوت ہو گیا۔ عمران خان ’’شیرو‘‘ کی مرگ ناگہانی پر افسردہ تو ہوئے مگر انہوں نے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے کتے پالنے کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔ چند برس قبل انہوں نے حیدر آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے خود ہی انکشاف کیا تھا کہ بنی گالا میں رہائش پذیر ان کے ایک کتے کا نام ’’موٹو‘‘ ہے اور اس کے علاوہ بھی انہوں نے چار کتے پال رکھے ہیں۔ ریحام خان جب عمران خان کی زندگی میں آئیں تو انہوں نے اس وفادار کتے کو گھر سے نکالنے کی ناکام کوشش ضرور کی لیکن جب علیحدگی کے بعد ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا اختلافات کا آغاز اسلئے ہوا کہ آپ نے انکے ایک کتے کو گھر سے نکال دیا تھا تو ریحام خان نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کتے جیسے پہلے گھر میں تھے ویسے ہی رہے، کسی کو میں نکال نہیں سکی‘‘۔ یہ وہی کتے ہیں جن کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بشریٰ بی بی کا دل بھی پسیج گیا تھا۔
سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور جو اب بطور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائر ہورہے ہیں، انہوں نے شاید اور بھی بہت سے کُتے پال رکھے ہوںگے مگر ان کے ایک پالتو کتے ’’زورو‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی تھی۔ یوں تو محکمہ پولیس میں بھی کھوجی کتے پالنے کا رجحان گزشتہ کئی برس سے دیکھنے کو مل رہا ہے مگر پاکستان کی بری فوج تو محکمانہ سطح پر کئی دہائیوں سے ’’آرمی ڈاگ سینٹر‘‘ چلا رہی ہے جہاں اصلی اور نسلی کتوں کو پالا جاتا ہے، فوج کے تربیت یافتہ کتے کئی محاذوں پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور انہیں بیش قیمت اثاثہ خیال کیا جاتا ہے لیکن جو کتے پاگل ہو جاتے ہیں، اپنے اور پرائے کی پروا کیے بغیر کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں، انہیں بادل نخواستہ گولی مار کا تلف کر دیا جاتا ہے کیونکہ ایسے بائولے کتے ناقابل علاج ہوتے ہیں اور ان کے کاٹنے سے انسان بھی پاگل ہو جاتے ہیں۔