• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد سے شروع ہونے والی خون ریز کشیدگی پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا۔ فریقین کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے باوجود جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور ایک ہفتے میں حملوں اور تشدد کے واقعات میں مرنے والوں کی تعداد ا114ہو گئی ہے۔ بگن کے علاقے میں لشکر کشی کے بعد علیزئی، ٹالوگنج ، جیلامیے، کونج علیزئی ، مقبل ،خارکلے اور بلیش خیل سمیت پورے کرم میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی یہ لڑائی پورے ملک کے لوگوں کیلئے دکھ افسوس اور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا میں چیک پوسٹوں، مسافر بسوں پر حملے اور کرم میں پائی جانے والی بدامنی اور خون ریزی کے واقعات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اور لوگوں کو حملہ آوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت کو لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کا کوئی احساس نہیں۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور صوبے کی حالت بہتر بنانے ،پرتشدد واقعات کو روکنے پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی لڑائی میں مصروف ہیں اور اپنی توانائیاں وفاقی دارالحکومت پر لشکر کشی پر صرف کر رہے ہیں۔ پارا چنار میں ایسے واقعات کیوں ہوتے ہیں۔ اس کا کھوج لگانا ضروری ہے۔ یہ لڑائی زمین کی وجہ سے ہوتی ہے یا فرقہ واریت کی بنیاد پر ؟ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنا ہو گا۔ کرم کے علاقے میں آج تک لینڈ ریکارڈ ہی موجود نہیں جس کی وجہ سے مختلف مقامات پر مختلف قبائل اور افراد زمین کے ٹکڑوں کے دعویدار بن جاتے ہیں۔ یہ دعویدار قبیلے فروعی اختلافات میں بھی الجھے رہتے ہیں اور ان کے درمیان تنازعات کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ دہشتگردی، بدامنی، خون خرابے اور امن عامہ کے مسائل سے نمٹنے کیلئے نئی حکمت عملی پوری شدت سے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین