تحریر: نرجس ملک
ماڈل: عاشی خان
ملبوسات و اہتمام: فرّخ علی
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
یہ حقیقت ہے کہ جب ایک بیٹی، بالکل اپنی ماں کی سی چھب ڈھب اختیار کرنے لگے۔ جب اُسے اپنی ماں کی کسی بھی دَورمیں کہی، ہر اِک بات حق، سچ معلوم ہو۔ جب اُسے محسوس ہو کہ وہ تو بعینیہ اپنی ماں کی کاپی ہوتی جارہی ہے، تو تب تک ایک اور بیٹی قد کاٹھ نکال کے ماں کی ہر وقت کی سرزنش، روک ٹوک، ہدایتوں، نصیحتوں سےمکالمہ، اختلاف کرنے کو تیار ہو چُکی ہوتی ہے۔
ازل سے یہ Cycle (چکّر) یوں ہی چلاآ رہا ہے اور شاید رہتی دنیا تک ایسے ہی چکراتا رہے گا کہ پچھلی نسل سے اگلی نسل کا مکالمہ، اختلاف، بحث مباحثہ سو فی صد منطقی و استدلالی عمل ہے، بلکہ اگر دو نسلوں کے بیچ کسی معاملے پر بحث و تمحیص نہ ہو، تو یہ کچھ غیرفطری سی بات، عقل وشعور کے فقدان کی علامت ہے۔
دو پڑھے لکھے، باشعور افراد تو اگر ایک نسل، ایک گروہ سے بھی تعلق رکھتے ہوں، اُن میں اختلافِ رائے قطعاً عجب نہیں کہ ذہنِ رسا کی تو خُوبی ہی یہ ہے کہ وہ سوچتا، غور و فکر کرتا، سُنتا، کہتا، سیکھتا، سمجھتا اور اصلاحِ احوال کرتا ہے۔ معروف برطانوی ناول نگار، ’’اینیمل فارم‘‘ کے خالق، جارج آرویل کا ایک قول ہے کہ ’’ہرنسل، خُود کوسابقہ نسل سے زیادہ ذہین و فطین اور آئندہ نسل سے زیادہ عاقل و بالغ تصوّرکرتی ہے۔‘‘ اور یقیناً ایسا ہی ہے۔
یوں تو ’’جنریشن گیپ‘‘ آج کا نہیں، صدیوں پُرانا مسئلہ ہے۔ ہر دو نسلوں میں تضادات و اختلافات بہت عام سی بات ہے، لیکن اِس ضمن میں ایسا موقف اختیار کرنا کہ ’’جب مَیں بہو تھی، میری ساس مطلق جاہل، بہت ظالم تھی اور آج جب مَیں ساس ہوں، تو میری بہو بہت بدتمیز و بد تہذیب ہے۔ ‘‘ کسی لطیفے بلکہ کٹ حجّتی سے کم نہیں۔
مختلف عُمر کے گروہوں کے مابین عقائد، اقدار و روایات اور طرزِ عمل میں تفاوت اس لیے بھی ایک ناگزیر عمل ہے کہ ہر نسل کچھ مختلف و منفرد سماجی و ثقافتی تبدیلیوں کے تجربے سے گزرتی ہے اور ضروری نہیں کہ ہم جس نسل کا حصّہ ہیں، وہی سو فی صد درست ہے۔ بیش تر معاملات میں ہمارے بزرگوں کا طویل تجربہ، ہمارے روزمرّہ مشاہدات کی نسبت زیادہ مستند و معتبر ہوسکتا ہے۔
اِسی طرح دورِ جدید کی ایسی کئی ایجادات و اختراعات جن سے ہم نہ صرف آشنائی کا دعویٰ، بخوبی استفادے کا ہُنر بھی رکھتے ہیں، ممکن ہے، ہمارے اسلاف اُن کے ناموں تک سے نابلد ہوں۔
سو، بہترین امر تو یہ ہے کہ ہر دو نسلیں ایک دوسرے کو نہ صرف اسپیس دیں بلکہ ایک دوجے کے لیےجس حد تک مفید و موثر ثابت ہوسکتی ہیں، ضرور ہوں۔
اولاد، والدین کے تجربے کو چیلنج کرے، نہ والدین، اولادکی، عصرِ حاضر سے متعلق واقفیت و علمیت کو۔ وہ کسی نہ کہا تھا ناں کہ ’’پہلے ہم اپنے والدین کے بچّے ہوتے ہیں، پھر ہم اپنے بچّوں کے والدین۔ پھر ہم اپنے والدین کے والدین بن جاتے ہیں اور پھر اپنے بچّوں کے بچّے۔‘‘ تو بس، مدّت مدید سےیہ ایک ایسی ہی Chain چلی آرہی ہے، حالاں کہ اگر آج ہم اپنے بچّوں کے ’’دوست‘‘ بن جائیں، تو ممکن ہے، جب ہماری اپنے ’’بچّوں کے بچّے‘‘ بننے کی عُمر آئے، تو وہ بھی ہمارے دوست بننے کی کوشش کریں۔
’’دو نسلوں، جنریشن گیپ پر آج اس قدر ثقیل، علمی و ادبی گفتگو کیوں؟‘‘ یقیناً آپ کے ذہنوں میں یہی سوال آرہا ہوگا۔ تو بھئی، بات یہ ہے کہ دو نسلوں کے مابین دیگر کئی تضادات کے ساتھ ایک بڑا فرق اندازِآرائش و زیبائش کا بھی تو آیا ہے۔ ویسے تو عموماً بدلتے ادوار کے ساتھ رفتہ رفتہ’’اطوار‘‘تبدیل ہوتے ہی ہیں، لیکن اِس ضمن میں، موجودہ نسلوں میں سےایک نسل کے ساتھ تو جیسے ایک سانحہ ہی گزر گیا ہے۔
ماہرین نے 1901ء سے 2024ء تک کی نسلوں کو کُل سات جنریشنز میں تقسیم کیا ہے۔ 1901ء سے 1927ء تک پیدا ہونے والی نسل کو "The Greatest Generation (GI)'' کا نام دیا گیا ہے، تو 1928ء سے 1945ء تک پیدا ہونے والے افراد کو "The Silent Generation" کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ 1946ء سے 1964ء تک کی نسل "Baby Boomers" کہلائی، تو 1965ء تا 1980ء کی نسل کو "Generation X" کا ٹائٹل دیا گیا۔ 1981ء سے 1996ء کے دَور کے افراد کو "Millennial Generation (G4)" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، تو 1997ء تا 2010ء کی نسل "Generation Z "(IGen) کہلائی اور 2011ء تا 2024ء کی نسل کی شناخت "Generation Alpha" کے طور پر ہورہی ہے۔
مگر ان تمام نسلوں کے افراد میں سب سے زیادہ حیرت انگیز، محیرالعقول تجربات کا سامنا اُن لوگوں کو کرنا پڑا کہ جنہوں نے اپنا سارا بچپن، لڑکپن تو اعلیٰ سماجی و اخلاقی اقدار و روایات کے ساتھ گزارا اور پھر جیسے ایک ’’چُھومنتر‘‘ہوا اور سارا منظرنامہ ہی تبدیل ہوگیا۔ دنیا نے ’’جدّت و اختراع‘‘ کا ایسا پیراہن پہنا، لبادہ اوڑھا کہ یک سر سب طور اطوار، رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے۔ باقی سب معاملاتِ زندگی تو ایک طرف، صرف طرزِ آرائش و زیبائش ہی دیکھ لیں۔
اور… ہماری آج کی بزم دورِحاضرکے پسندیدہ ترین پہناوے، جینز کے ساتھ رنگا رنگ کُرتیوں سے مزیّن ہے۔ یہ سُرخ، سفید، گلابی، سیاہ اور ملٹی شیڈڈ کُرتیاں/ پیپلم مختلف رنگ جینز کے ساتھ نہ صرف روزمرّہ ملبوسات کے طور پرایک اچھا انتخاب ثابت ہوں گی، بلکہ بھیگی بھیگی سردی میں کچھ ایسی دھیمی دھیمی لَو بھی دیں گی کہ سارا ماحول ہی دو آتشہ ہوجائے گا۔
اِن میں سے جو رنگ و انداز جی کو بھا جائے، منتخب کرلیں اور پھر خُود ہی گنگناتی رہیں ؎ پھر آج میرے تصوّر میں موتیا جاگا…پھر آج سبز پَری اُتری چھمچھماتی ہوئی… پھر آج ڈالیاں پھولوں کی رقص کرنے لگیں…پھر آج خوشبوؤں سے بام و دَر مہکنے لگے…پھر آج پھیل گیا، رُوح و دل میں سیلِ جمال…اثر نہ درد کا باقی رہا، نہ غم کا خیال…پھر اُٹھا چڑیوں کا ایک جُھنڈ چہچہاتا ہوا…ہوا ہرے بَھرے کھیتوں سے اُٹھی گاتی ہوئی…مَیں دیکھنے لگی، سُننے لگی، نکھرنے لگی…چہکنے لگی، سجنے لگی، سنورنے لگی۔