ہمارے یہاں عموماً مقعد یعنی پاخانے کی جگہ کے زخم کا ذکر بہت معیوب سمجھا جاتا ہے، اِسی لیے بسا اوقات متاثرہ افراد اپنی پوری زندگی اِسی کے ساتھ ہی گزار دیتے ہیں، لیکن کسی کو اپنی تکلیف نہیں بتاتے۔اِس زخم کو’’ Anal Fissure‘‘ کہا جاتا ہے۔
یہ زخم، چمڑی میں ایک دراڑ کی مانند بن جاتا ہے اور پاخانہ کرتے ہوئے درد محسوس ہوتا ہے۔ اگر زخم نیا ہو، تو درد میں خاصی شدّت ہوتی ہے، تاہم وقت کے ساتھ درد میں کمی آتی جاتی ہے۔ پاخانے کے ساتھ خون اور درد، دراصل اِس بیماری کا عندیہ دیتے ہیں۔
یہ زخم عموماً صرف جِلد تک محدود رہتا ہے یا پھر بعض اوقات اندر گوشت تک بھی جا پہنچتا ہے اور مقعد کے فعل کو متاثر کرتا ہے۔ مریض استنجا کرتے وقت، جب پانی یا ٹشو پیپر متاثرہ مقام پر لگاتے ہیں، تو اُنھیں درد محسوس ہوتا ہے اور بعض اوقات ٹشو پیپر پر خون بھی لگا ہوتا ہے۔ یہ زخم مقعد کے پچھلے حصّے میں پائے جاتے ہیں، جہاں دورانِ خون کم ہوتا ہے۔
اگر وجوہ کی بات کریں، تو جب پاخانے کی جگہ کسی بھی وجہ سے اپنی گنجائش سے زیادہ کھنچاؤ کا شکار ہو، تو یہ زخم پیدا ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ زخم بہت ہی باریک ہوتے ہیں اور جَلد دِکھائی بھی نہیں دیتے، لیکن خون اور درد ان کی موجودگی کا پتا دیتے ہیں۔
اگر زخم بہت ہی ہلکے ہوں، تو کچھ ہفتوں یا مہینوں میں مندمل ہو جاتے ہیں، لیکن عموماً یہ گہرے ہوتے ہیں اور اِس صُورت میں ان کا جلد بَھر جانا خاصا مشکل ہوتا ہے اور یہ کئی مہینوں تک مریض کو تنگ کرتے ہیں۔
چوں کہ یہ گہرے ہوتے ہیں، لہٰذا مندمل نہیں ہو پاتے اور مستقل زخم، یعنی Ulcer بن جاتے ہیں، نتیجتاً مریض کو پاخانہ کرتے وقت درد محسوس ہوتا ہے۔ بالغ افراد میں اِس کی سب سے بڑی وجہ قبض ہے، یعنی اگر کوئی شخص مستقل طور پر قبض کا شکار ہو اور سُدّھے(غلیظ مواد کی گانٹھیں) اُس جگہ سے بڑی مشکل سے گزرتی ہوں، تو قوی امکان ہے کہ وہ وہاں سے گزرتے ہوئے زخم پیدا کر دیں۔
نیز، یہ زخم بسا اوقات مستقل جلاب کی وجہ سے بھی بن جاتے ہیں۔ جب کہ بزرگ یا عُمر رسیدہ افراد میں ایسے زخموں کی بڑی وجہ مقعد کی خون سپلائی میں کمی قرار دی جاتی ہے۔
اگر یہ زخم پاخانے کی پیچھے کے مقام کے علاوہ دائیں، بائیں یا آگے کے حصّوں پر ہوں، تو ان کی وجوہ میں ٹی بی، پیپ کے زخم، کینسر یا دفاعی نظام کی کم زوری بھی ہوسکتی ہے۔ بعض اوقات کینسر ہوتا تو جسم کے کسی اور مقام پر ہے، لیکن اُس کے بیج، پاخانے کی جگہ پر نمودار ہو کر زخم بناتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ زخم Crohn اور Ulcerative colitis میں بھی پائے جاتے ہیں۔
مغربی ممالک میں ان کی وجوہ میں بے لگام جنسی معاملات یاAIDS وغیرہ بھی شامل ہیں۔ خواتین میں حمل یا زچگی کے دَوران اس جگہ پر شدید دباؤ اور خون کی کمی کے باعث یہ زخم بن جاتے ہیں۔نیز، نابالغ بچّوں اور بچیوں میں غلط طریقے سے استنجا یا صفائی کا فقدان بھی اس کی ایک اہم وجہ ہے۔
اِن زخموں سے بچاؤ کے لیے جو احتیاطی تدابیر ناگزیر ہیں، اُن میں ایک تو یہ ہے کہ پاخانہ کرتے وقت زور مت لگائیں، دو منٹ سے زاید بیٹھنے سے اجتناب کریں۔ وہ غذائیں، سبزیاں اور ادویہ استعمال کریں، جن سے فضلہ نرم رہے، جب کہ اُن تمام اشیاء اور ادویہ سے احتیاط کریں، جو قبض کا باعث بنتی ہیں۔
اِسی طرح اگر جلاب ہو رہے ہوں، تو اس کا فوراً علاج کروانا چاہیے۔دوسری اہم بات اس جگہ کی صفائی ستھرائی ہے اور اِس ضمن میں حفظانِ صحت کے اصولوں پر سختی سے کاربند رہنا چاہیے، نرم ٹشو پیپرز یا پھر وافر مقدار میں پانی سے استنجا کریں۔
اگر مرض پہلے سے ہو، تو قضائے حاجت سے پہلے مقعد پر کسی قسم کا مرہم یا روغن لگالیں تاکہ اگر فضلہ سخت ہو، تو زخم کو مزید گہرا نہ کرسکے۔ ایسی ادویہ، جو عموماً بواسیر کے لیے ہوتی ہیں، ہرگز استعمال نہ کریں، کیوں کہ بواسیر کے مرہم میں عموماً وہ ادویہ شامل ہوتی ہیں، جو باریک خون کی رگیں سکیڑ دیتی ہیں اور اِس طرح زخم مندمل ہونے کا دورانیہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ نومولود بچّوں سے متعلق یہ احتیاط خاص طور پر ضروری ہے کہ اُن کے ڈائپرز جَلد تبدیل ہونے چاہئیں، جب کہ ان بچّوں کو زیادہ سے زیادہ پانی بھی پلایا جائے۔
علاج معالجے کے ضمن میں یہ امر پیشِ نظر رہے کہ اِس مرض کے ابتدائی مراحل میں کسی بھی قسم کی سرجری نہ کروائیں اور دائمی صُورت میں بھی اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ متاثرہ افراد کو ابتدائی طور پر کچھ ایسی ادویہ تجویز کی جاتی ہیں، جن کی بدولت متاثرہ مقام کا دورانِ خون زیادہ ہوجاتا ہے اور یہ ادویہ عموماً مرہم کی صُورت ہوتی ہیں۔ اِس مرحلے پر Sitz Bath یعنی گرم پانی کی ٹکور بھی معاون ثابت ہوتی ہے۔ زیادہ درد کی صُورت میں درد کُشا مرہم کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اِس مرض میں اُن ادویہ کو ترجیح دی جاتی ہے، جو متاثرہ جگہ کے پٹّھوں کو ڈھیلا کرتی ہیں۔ سرجری کی صرف اُسی وقت ضرورت ہوتی ہے، جب مریض اس بیماری سے تنگ آ جائے اور ادویہ اپنا ہدف پورا نہ کرسکیں، کیوں کہ عموماً سرجری میں کچھ نہ کچھ خرابیاں ضرور وقوع پذیر ہوتی ہیں۔
یاد رہے، یہ بیماری15 سے40 سال کی عُمر کے افراد میں زیادہ پائی جاتی ہے اور اِس کی شرح سے متعلق ایک تحقیق کے مطابق ہر350 افراد میں سے ایک شخص اس مرض کا شکار ہے۔ (مضون نگار،معروف ماہرِ امراضِ معدہ و جگر ہونے کے ساتھ جنرل فزیشن بھی ہیں اور انکل سریا اسپتال، کراچی میں خدمات انجام دے رہے ہیں)