سرگودھا کے ایس ایس پی محمّد اشرف مارتھ (شہید) نے سرگودھا کی سب ڈویژن بھلوال کے لیے میرا نام تجویز کیا، تو آئی جی صاحب نے آموں کے گڑھ، مظّفرگڑھ سے مجھے کنّوؤں کے گھر، بھلوال بھیج دیا۔ یعنی وہاں کا سب ڈویژنل پولیس آفیسر لگا دیا۔ ضلع سرگودھا کی تحصیل بھلوال کو اب دو تحصیلوں (بھلوال اور کوٹ مومن) میں تقسیم کردیا گیا ہے، مگراُس وقت یہ آٹھ یا نو تھانوں اور کئی چوکیوں پر مشتمل پنجاب کی سب سےبڑی سب ڈویژن تھی۔
سرگودھا پہنچ کر مَیں سیدھا ایس ایس پی سرگودھا (اُس وقت یہ ڈی پی او اور سی پی او جیسے فضول، بےمعنی ٹائٹل ایجاد نہیں ہوئے تھے)محمّد اشرف مارتھ کے دفتر پہنچا، وہ بڑی گرم جوشی سےملے، بھلوال سے متعلق بریف کیا اور یہ بھی بتایا کہ ’’وہاں سب ڈویژنل پولیس آفیسر کی سرکاری رہائش گاہ نہیں ہے، اس لیے آپ کا عارضی بندوبست نون شوگر ملز (مُلک کے سابق وزیرِاعظم فیروز خان نون کے بیٹے نورحیات نون کی ملکیت) کے ریسٹ ہاؤس میں کردیا گیا ہے۔‘‘
دفتر میں پہلے دن مَیں اسٹاف سے بریفنگ لے رہا تھا کہ اردلی نے مجھے ایک چِٹ لا کر دی جس پرلکھا تھا ’’مَیں ایک اسکول ٹیچر ہوں اور آپ سے فوراً ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ مَیں نے بلالیا۔ خاتون کے ساتھ اُس کی نوجوان بیٹی بھی تھی، مَیں نے بڑی عزّت سے اُنہیں کرسی پر بٹھایا اور پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے؟ کہنے لگی۔ مَیں چک نمبر فلاں مَیں اسکول ٹیچر ہوں۔
گاؤں کے چوہدری کا اوباش لڑکا اپنے ساتھیوں سمیت میری بیٹی کو ہر روز تنگ کرتا ہے، ہمارا جینا دوبھر ہوگیا ہے، ہم ایک عذاب میں مبتلا ہیں، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، تو بےبسی کی حالت میں خیال آیا کہ چلیں آپ سے بات کرکے دیکھ لیتے ہیں۔‘‘ مَیں نے اُس سے چند سوالات کیے۔
اُس نے ہر ایک کا تفصیلی جواب دیا۔ پھر خاتون نے کہا۔ ’’وہ بڑے امیراور بااثر لوگ ہیں۔ ہم بے سہارا ہیں۔ ہماری عزّت کی حفاظت کرنے والا یہاں کون ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑی اور اُس کے ساتھ اُس کی بیٹی بھی رونے لگی۔ مجھے تو جیسےکرنٹ لگ گیا ہو۔
یوں لگا، جیسے خاتون کا ایک ایک لفظ میری کلف لگی وردی اور میرے رینکس کو نوچ رہا ہے۔ اُس کے اس جملے کا ایک ایک لفظ میرے دل و دماغ پر کوڑے کی طرح برسنے لگا کہ ’’یہاں ہماری حفاظت کرنے والا کون ہے؟‘‘ مَیں نے اُن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’مَیں ہوں ناں میری بہن!! آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ مَیں نے اردلی کو بُلا کر کہا۔
فوراً گاڑی لگواؤ۔ پاس کھڑے ریڈر نے روایتی اندازمیں کہا۔’’سر! متعلقہ ایس ایچ او سے رپورٹ منگوا لیتے ہیں۔‘‘ (کسی پولیس افسر یا کسی بااثر شخص کے خلاف سنگین الزام ہو، تو اُس کی انکوائری ہمیشہ مَیں خُود کرتا تھا)مَیں نے اُسے گھُورا اور اُس کےمشورے اور مداخلت پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سرزنش کی۔
پھر دونوں ماں، بیٹی کو اپنی جیپ میں بٹھایا اور اُن کےگاؤں کی جانب روانہ ہوگیا۔ آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم اُن کے گاؤں پہنچ گئے۔ راستےہی میں، مَیں نے وائرلیس میسیج کے ذریعے متعلقہ تھانے کےایس ایچ او کو وہیں بُلا لیا تھا۔ گاؤں پہنچ کر مَیں نے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اورگاؤں کے پچیس سے تیس افراد کوبُلا کر اُن سے علیحدہ علیحدہ حقائق دریافت کیے، اکثر نے یہ کہا کہ ’’آپ سب کی موجودگی میں ہم سے بیان لیتے، تو ہم چوہدری کے بیٹے کے خلاف کوئی بات نہ کرتے، مگر یہاں خانۂ خدا میں ہم بالکل سچ بولیں گے۔‘‘ سب نے بتایا کہ لڑکا لوفر ہے۔
گاؤں کی کئی لڑکیوں کی زندگی برباد کرچُکا ہے، معلمہ کی بیٹی کو بھی تنگ کرتا ہے، معلمہ کا خاوند بیمار اور معذور ہے۔ یہ بے چارے کم زور اور بے سہارا لوگ ہیں۔ لیڈی ٹیچرکی باتوں کی تصدیق ہوگئی، انکوائری اختتام کو پہنچی تو میرے اشارے پر پولیس کے جوانوں نے چوہدری کے بدمعاش بیٹے کو گھسیٹ کر گاڑی میں ڈالا اور تھانے لےجاکر حوالات میں بند کردیا۔ اُس کے کسی ملاقاتی کو تھانے میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی۔
ضلعی سطح کے کچھ ’’معززین‘‘ کے فون آئے اور کچھ ’’معتبرین‘‘ نے ملنے کی کوشش کی، مگر سب کومیری طرف سے ایک ہی جواب ملا کہ’’اگر اس تحصیل میں ہماری بہنیں اور بیٹیاں محفوظ نہیں، تو کسی پولیس افسرکو محافظ کی وردی پہننے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ رات گئے تک ملزم کے دوسرے اوباش ساتھی بھی پکڑ لیے گئے اور اُن سب کی ساری رات مرمّت ہوتی رہی۔صبح دفتر پہنچا، تو لڑکے کا والد اپنے رشتے داروں اور ساتھیوں سمیت موجود تھا، مَیں نے صرف لڑکے کے والد کو دفتر بلوایا اور بڑی سختی سے کہا۔ ’’اس قماش کے لوفر کم ازکم پانچ سال جیل میں ہی رہیں گے۔‘‘ اُس نے کہا ہم معافی مانگنے آئے ہیں۔
مَیں نے کہا۔ ’’اب فیصلہ عدالت میں ہوگا اور معافی صرف معلمہ اور اُس کی بیٹی ہی دے سکتی ہے۔‘‘ ملزم جیل چلےگئے۔ اس دوران چوہدری معلمہ کے گھر جاکر معافی مانگتا رہا، چھے مہینے بعد جب مدعّیہ نے بار بار آکراصرار کیا کہ ’’میری حق رسی ہوگئی ہے۔‘‘ تب ملزمان کی خلاصی ہوئی۔ مگر اُس کے بعد اُس گاؤں میں کافی عرصے تک کسی بدمعاش کو کسی کی بیٹی کو تنگ کرنےیا آوازے کسنے کی جرأت نہ ہو سکی۔
ایک روز صُبح، جب کہ مَیں اپنی رہائش گاہ سے دفتر جانے کی تیاری کررہا تھا، اردلی نے ایک کارڈ میری طرف بڑھایا اور کہا کہ ’’یہ صاحب ملنے پر اصرار کررہے ہیں اوریہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مجھےدفتر میں نہیں، یہیں گھر ہی پر ملنا ہے۔‘‘ مَیں نے بلوالیا۔ ملاقاتی نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ’’میرا نام ڈاکٹر اعجاز بھرتھ ہے، میرا گاؤں بھیرہ کے پاس ہے، جہاں پراچہ خاندان کا راج ہے اور مَیں اُن کے ظلم وجبر کے خلاف آواز اُٹھاتا ہوں۔
آئندہ الیکشن میں بھی مَیں اُن کے مقابلے میں کھڑا ہوں گا، مگر پراچے مجھے اس بنیادی حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ مَیں نے پوچھا۔ ’’وہ کیسے؟‘‘ اِس پر ڈاکٹر اعجاز نے کہا کہ ’’تھانہ بھیرہ کا ایس ایچ او پراچوں کا ذاتی بدمعاش بنا ہوا ہے۔
وہ اُن کے کہنے پر میرے ساتھ زیادتیاں کرتا ہے۔ مجھے کہیں آتا جاتا دیکھ لے، تو سب کے سامنے گالیاں دیتا ہے اور میرے خلاف جھوٹے پرچے درج کرتا رہتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر ڈاکٹر اعجاز بھرتھ رو پڑے اور روتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’مَیں آپ کے پاس انصاف لینے آیا ہوں۔‘‘ مَیں نےانہیں تسلی اور حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔ ’’آپ فکر نہ کریں، آپ کو انصاف ملے گا۔‘‘ اُس وقت پراچہ صاحبان اقتدار میں تھے۔
پراچہ پنجاب کے وزیرِخزانہ تھے۔ دوسرا بھائی بھی ایم پی اے تھا، مَیں نے اُنہیں یقین دلایا کہ اُن کےساتھ زیادتی نہیں ہوگی۔ مَیں نےدفتر پہنچتے ہی ایس ایچ او، بھیرہ کو طلب کرلیا۔ ایک گھنٹے بعد موٹی توند والا ایک لمبا تڑنگا شخص میرے دفترداخل ہوا اور سیلیوٹ کرتے ہوئے بولا۔ ’’ایس ایچ او،بھیرہ سر!‘‘ مَیں نے اُس سے علاقے کے عمومی حالات پوچھے، تو اُس نے پراچہ فیملی (جنہوں نے اُسے وہاں تعینات کروایا تھا) کے قصیدے پڑھنے شروع کردیئے۔ مَیں نے پوچھا۔ ’’معروف عالمِ دین پیر کرم شاہ صاحب بھی بھیرہ کے رہائشی ہیں، اُنہیں بھی کبھی ملے ہو؟‘‘ فوراً بولا۔ ’’وہ شرپسند مولوی ہے جناب۔‘‘ اِس پر مجھے غصّہ آگیا۔
مَیں نے اُسے ڈپٹتے ہوئے کہا۔ ’’او بدبخت! تم سیاست دانوں کے ذاتی نوکر بن گئے ہو اور اُن کے کہنے پر اُن کے مخالفوں کی بےعزتی کرتے ہو، خبردار! آئندہ ایسا کیا تو تمہارے خلاف پرچہ درج کروں گا اور تمہیں گرفتار کر کے اُسی تھانے میں بند کردوں گا۔‘‘ساتھ ہی اُسے وارننگ دی کہ ’’ڈاکٹر اعجاز بھرتھ کےخلاف کوئی پرچہ میری اجازت کے بغیردرج نہیں ہوگا اور جو پرچے پہلے درج ہیں، اُن کی فائلز میرے دفتر میں جمع کرواؤ۔
اُن کی تفتیش میں خُود کروں گا۔‘‘ ظاہر ہے کہ اُن کے وفادار ایس ایچ او نے میرے ساتھ اپنی ناخوش گوار میٹنگ کی رپورٹ پراچہ صاحبان کو دے دی ہوگی، تو اُس کے بعد اے ایس پی، بھلوال (راقم) اُن کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابلِ قبول قرار پایا ہوگا۔
میرے دفتر میں شام تک سائلوں اور درخواست گزاروں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ہفتے میں ایک روز مَیں کہیں نہ کہیں کُھلی کچہری بھی منعقد کرتا، جس میں عوام کی تعداد سیکڑوں سے شروع ہوکر ہزاروں تک پہنچ گئی۔ وہ سرکاری افسر، جو عوام کے اعتماد سے محروم ہوں، اُن کی کچہریوں میں بندے پکڑ دھکڑ کر لانے پڑتے ہیں، مگر جہاں لوگوں کو انصاف اور ریلیف ملتا ہوا محسوس ہو، وہاں وہ خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں۔ کُھلی کچہریوں میں عوامی شکایات پر کئی پولیس اہل کاروں کی گوشمالی، تو کئی تھانے داروں کے خلاف کارروائی ہوئی۔
اس سے عوام کا اے ایس پی آفس کے ساتھ ایک اعتماد کا رشتہ قائم ہوگیا۔ کہیں بھی کوئی قابلِ ذکر بات ہوتی، تو مجھے متعلقہ تھانے سے پہلے شہریوں کی طرف سے اطلاع مل جاتی۔ اِس سے تھانہ اسٹاف محتاط ہوگیا۔ اُن کا عوام کے ساتھ روّیہ بہتر ہوا اور کرپشن میں بھی کمی آئی۔
میری کُھلی کچہریاں غیرروایتی ہوتی تھیں، ایس ایچ او کے منتخب کردہ ٹاؤٹ قسم کے مقررّین کو بولنے کی اجازت نہیں ملتی تھی۔ سب سے پہلے مَیں اپنی پالیسی اور ترجیحات بتاتا اور پھر عوام سے جرائم کے خاتمے کے لیے اُن کی آراء اورمشورے طلب کرتا۔ جب کہ آخرمیں انفرادی شکایات سُنتا۔
مَیں اپنی تقریر میں انصاف کے متعلق اُن احکامِ الہٰی کا ذکر کرتا، جس میں فرمایا گیا ہے۔ ’’یَایُّھاالّٰذینَ آمنو کُونو قَوّامِینَ بالقِسطِ شُھدَاَئَ لِلّٰہِ ولو عَلیٰ اَنفُسِکُم اَو اِلَوالدَین والَاقربینَ (اے لوگو! جوایمان لائے ہو، انصاف کےعلم بردار اور خدا کے واسطے گواہ بنو۔ چاہے، تمہارے انصاف اورتمہاری گواہی کی زد خُود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتے داروں ہی پرکیوں نہ پڑتی ہو)‘‘ مَیں حاضرین اور عوام کو انصاف کی اہمیت سے روشناس کرواتے ہوئے بتاتا کہ کائناتوں کے مالک نے انصاف کا کیا معیار مقرر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ہر صُورت میں انصاف کرو، چاہے فیصلہ والدین یا اپنی ذات کے خلاف ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ’’اِعدلو وَھُو اَقربُ لِتِّقویٰ (انصاف کرو کہ انصاف ہی تقوٰی کے قریب ہے) یعنی اللہ کا قرب اُسےحاصل ہوگا،جس میں تقویٰ ہوگا اور انصاف تقویٰ کے قریب لے جاتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کے قُرب کے لیے انصاف کرنا ہوگا۔ اورانصاف کو یقینی بنانے کے لیے گواہی کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا واضح حُکم ہے کہ’’لا تَکتَمُو الشَّھادَۃ مَن یَّکتمُو الشَّھادۃ فَاَثِمُ‘ قَلبہ(شہادت مت چُھپاؤ۔ جو شہادت چُھپاتا ہے، اُس کا دل گناہ آلود ہے)‘‘اِسی قرآنی آیت کی روشنی میں اُنہیں بتایا جاتا کہ سچی شہادت دینا یعنی تفتیش پر مامور سرکاری اہل کاروں تک اصل حقائق پہنچانا ہر شخص کا قانونی ہی نہیں، دینی فریضہ بھی ہے۔
خالق و مالک نے حقائق، متعلقہ حکّام تک نہ پہنچانے اور اُنہیں چھپانے سے منع فرمایا ہے۔ دراصل ہمارے معاشرے میں مختلف وجوہ کی بناء پر لوگ گواہی یا شہادت دینے سے گریز کرتے ہیں، لہٰذا عوام کو گواہی پر آمادہ کرنے کے لیے احکامِ الہٰی سے زیادہ موثر کوئی بات ثابت نہیں ہوسکتی تھی۔ مختلف جگہوں پر اِس بات پر بار بار زور دینے سے اچھے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے اور گواہی دینے کے معاملے میں لوگوں کی جھجک اور خوف دُور ہونے لگا۔
ایک بار تھانہ مڈرانجھا میں کُھلی کچہری کے بعد مَیں نے تھانے کا معائنہ شروع کردیا۔ ایس ایچ او سے مقامی ایم پی اے کی ہسٹری اسٹیٹ (وہ فائل، جس میں جرائم پیشہ افراد سے متعلق ضروری معلومات درج کی جاتی ہیں) منگوائی اور اُس کا مطالعہ شروع کردیا۔ مختلف کالمز اور خانے تھے، جن میں مختصر جواب لکھے گئے تھے۔ اس میں ایم پی اے کے لباس، تعلیم، دوستوں کی تفصیل درج تھی۔
ایک کالم میں درج تھا طرزِ کلام؟ اور اُس کے آگے لکھا تھا، بدکلام۔ رجسٹر 25 میں موصوف کے والدِ محترم کو کسی ایس ایچ او نے سلطان السّارقی(king of thieves) کا خطاب دیا تھا۔ پرانے دَور میں ایس ایچ او رجسٹر25میں بڑی مفید معلومات درج کیا کرتے تھے، مگر اب نہیں لکھتے، کیوں کہ اوّل تو زیادہ تر نالائق ہیں۔
دوم، بااثر لوگوں سے ڈرتے ہیں۔ مَیں نے بھیرہ کے انتہائی نا اہل ایس ایچ او کو وہاں سے ہٹانے کے لیے ایس ایس پی سرگودھا سے کہہ دیا۔ (ایس ایچ اوز کی پوسٹنگ اور ٹرانسفرضلعی سربراہ ہی کرتا ہے) مگر غالباً پراچہ فیملی سے تعلقات کی وجہ سے اُنہوں نے اُسے فوری طور پر تبدیل نہ کیا، مگر میری ڈانٹ ڈپٹ اور ناپسندیدگی ایس ایچ او نے فوری طور پر پراچہ صاحبان تک پہنچا دی۔
جب میری طرف سے اُن کے سیاسی مخالف ڈاکٹراعجاز بھرتھ اور پیر کرم شاہ صاحب کے بیٹوں کو ریلیف یا انصاف ملنے لگا، تو اُنہوں نے روایتی سیاست دانوں کی طرح میرے نام پر سُرخ دائرہ لگادیا اور مجھے تبدیل کروانےکی منصوبہ بندی شروع کردی۔ میرا جی سی کا کلاس فیلو اوردوست نذیر سعید چیف منسٹر پنجاب میاں نواز شریف کا بڑا قابلِ اعتماد ڈپٹی سیکرٹری اور اسٹاف افسر تھا۔
ایک روز اُس کا فون آیا کہ ’’بھلوال کے منسٹر احسان پراچہ کو آپ سے کیا مسئلہ ہے؟‘‘ مَیں نے کہا۔ ’’وہی، جو زیادہ تر سیاست دانوں کو باضمیر پولیس افسروں سے ہوتا ہے۔‘‘ کہنے لگا۔ ’’پراچہ نے چیف منسٹر سے کہہ کرآپ کے تبادلے کے احکامات جاری کروا دیئے تھے، جب وہ فائل میرے پاس آئی، تو مَیں نے خُود سی ایم صاحب کو بریف کیا کہ ذوالفقار چیمہ بڑا اچھا افسر ہے، مَیں اُس سے بات کرلوں، آپ ابھی ایک دو روز کے لیے یہ احکامات withhold کرلیں۔‘‘
محرّم میں امن وامان قائم رکھنے کے لیے ہر وزیرکو یہ ذمّےداری سونپی گئی کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں جا کر متعلقین کے ساتھ میٹنگز کریں۔ 17 اگست کو اِسی طرح کی میٹنگ پہلےبھلوال اور اُس کے بعد بھیرہ میں ہوئی۔ جہاں صوبائی وزیراحسان پراچہ صاحب تشریف لائے، مگر نہ اُنہوں نےایسا کوئی تاثردیا اور نہ ہی مَیں نے اُنہیں جتایا۔
بھیرہ سے مَیں میٹنگ اٹینڈ کرکے واپس بھلوال آرہا تھا کہ مجھے وائرلیس پرکہا گیا کہ مَیں فوری طور پرآئی جی صاحب سےبات کروں۔ اُس وقت موبائل تو ہوتے نہیں تھے، چناں چہ بھلوال پہنچ کر مَیں سیدھا اپنے دفتر گیا، وہاں سے آئی جی پنجاب کو فون ملایا، تو نثار چیمہ صاحب نے اپنے مخصوص cool and composed انداز میں کہا۔ ’’ذوالفقار! پریذیڈنٹ والی خبر تے سُن لئی ہووے گی۔‘‘ (تم نے پریذیڈنٹ والی خبر توسُن لی ہوگی) مَیں نے کہا۔ ’’سر! افواہیں چل رہی ہیں، کوئی ٹھوس خبر تو نہیں مل سکی۔‘‘ کہنے لگے۔ ’’بہاول پور کے پاس ائرکریش ہوا ہے، جس میں President and many others have died سو، لاء اینڈ آرڈر کا خیال رکھیں۔‘‘ (جاری ہے)