انسانی حقوق کی بنیاد، انسان کی فطری آزادی و وقار پر رکھی گئی ہے اور یہ حقوق ہر شخص کو بِلاتفریق وامتیازحاصل ہیں۔ 10دسمبر 1948ء کو اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کا عالمی منشور منظور کیا، جس کے بعد ہر سال 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا عالمی یوم منایا جاتا ہے۔ یہ دن دُنیا بَھر میں انسانی آزادی، انصاف اور برابری کے اصولوں کی یاد دہانی اورفراہمی کی جانب توجّہ مبذول کروانے کا باعث بنتا ہے۔
انسانی حقوق کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ قدیم دستاویزات اور فلسفوں میں ان حقوق کے تصوّرات ملتے ہیں، مگر جدید دُنیا میں انہیں باقاعدہ عالمی حیثیت 20ویں صدی میں حاصل ہوئی کہ اقوامِ متّحدہ کے قیام کے بعد انسانی حقوق کو قانونی تحفّظ فراہم کرنے کے لیے قوانین اور ضابطے بنائے گئے۔ اسلامی تعلیمات میں بھی انسانی حقوق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے آخری خطبے (خطبۂ حجۃ الوداع) میں واضح الفاظ میں انسانی جان، مال اورعزّت کی حفاظت کی تاکید کی۔
حضورِ اکرم ﷺ نےفرمایا کہ ’’اے لوگو! تمہارا ربّ ایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے، کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر فضیلت نہیں۔ کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کو کسی کالے پرکوئی فضیلت نہیں۔
البتہ تقویٰ کی بنیاد پر(ان کو ایک دوسرے پرفضیلت ہوسکتی ہے۔)‘‘ واضح رہے کہ دَورِ حاضر میں عالمی سطح پر آئی سی آر سی کی جانب سے مرتّب کردہ آئی ایچ ایل قوانین بھی اسلامی تعلیمات سےہم آہنگ ہیں۔
پھر کئی دہائیوں کی تحقیق کے نتیجے میں حربی اخلاقیات پر مشتمل بین الاقوامی قانونِ انسانیت دُنیا کے سامنے آیا۔ اس مجموعۂ قوانین کو ’’قانونِ جنگ‘‘ (Law of War) اور ’’مسلّح تصادم کا قانون‘‘ (Law of Armed Conflict) بھی کہا جاتا ہے۔
بین الاقوامی قانونِ انسانیت، بین الاقوامی قوانین کا ایک اہم حصّہ ہے، جو مسلّح تصادم میں مزید شریک نہ ہونے والوں کو تحفّظ فراہم کرتا ہے اور جنگی اخلاقیات وضع کرتا ہے۔ آئی ایچ ایل یعنی ’’انٹرنیشنل ہیومینیٹیرین لاء‘‘ قومی اور بین الاقوامی دونوں طرح کے مسلّح تصادم پر لاگو ہوتا ہے۔
یہ قوانین 1864ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر، جنیوا سےتعلق رکھنے والے،ہنری ڈیونینٹ نامی شخص نے مرتّب کیےتھے،جب کہ آئی ایچ ایل کا ہیڈ کوارٹر بھی جنیوا ہی میں ہے۔ اِسی طرح اقوامِ متّحدہ کے قیام کا مقصد بھی آنے والی نسلوں کو جنگ سے بچانا، بنیادی انسانی حقوق کا تحفّظ کرنا، آزاد فضا اور اجتماعی ترقّی کو فروغ دینا ہے۔
آج غزہ، لبنان اور مقبوضہ کشمیر سمیت دیگر ممالک میں مندرجہ بالا قوانین کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں، جب کہ غزہ میں تو اقوامِ متّحدہ کے دفاتر تک تباہ کردیےگئے۔ کہیں مائیں بچّوں کے لاشے اُٹھائے تڑپ رہی ہیں، تو کہیں بچّے ماں، باپ کی میّتوں سے لپٹے سسکتے بلکتے نظر آتے ہیں۔ شِیرخوار بچّوں تک کو نہایت سفّاکیت سے شہیدکیا جارہا ہے۔
درندہ صفت یہودی افواج نے فلسطین کی زمین پرقابض ہو کرجبر و قہر کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی ہیں کہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی اورستم ظریفی یہ ہے کہ اب بھی عالمی سطح پر اِس عفریت کو لگام ڈالنے کی کوشش نہیں کی جا رہی۔ دُکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ صہیونی غاصب افواج کی انسانی حقوق کی پامالیوں کی یہ داستان کوئی نئی نہیں۔
یہ آج سے ایک سو سال قبل اُس وقت شروع ہوئی تھی، جب سقوطِ خلافتِ عثمانیہ کےبعد چار فی صد یہودی آبادکاروں نے برطانیہ سے ملی بھگت کرکے یہاں یہودی کمشنر تعینات کروایا۔ اورپھرچند ہی برسوں میں فلسطینی کسانوں سے تقریباً 50 ہزار ایکڑ اراضی چھین کر اُنہیں، ان ہی کی زمینوں سے بےدخل کردیا۔
بعوجزاں، مسلّح گروہوں کو فلسطین بھیجا گیا اور مقامی یہودیوں کو اسلحہ فراہم کیا جانے لگا، جب کہ فلسطینیوں کو اسلحہ رکھنے پرسزائے موت دے دی جاتی۔ حتیٰ کہ زرعی آلات کو بھی اسلحے کےمشابہ قراردے کر زمینیں ضبط کرلی جاتیں۔ 1947ء تک یہودی، فلسطین کے صرف 6.5 فی صد رقبے پر قابض تھے۔
تاہم، جب پہلی مرتبہ اقوامِ متّحدہ میں مسئلہ فلسطین زیرِغور آیا، تو تقسیم کا ایک منصوبہ پیش کیا گیا، جس کے مطابق ناجائزطورپرقبضہ کرنےوالے صہیونیوں کو فلسطین کا 55 فی صد حصّہ دے دیا گیا اور یوں اس فیصلے نےانسانی حقوق کی تاریخ میں ایک اورسیاہ باب کا اضافہ کردیا۔
دوسری جانب اقوامِ متّحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز اور فلسطینیوں کی مزاحمت کو جائز قراردے رکھا ہے۔ اقوام متّحدہ کی قرارداد کے مطابق فلسطینیوں کو ہر دست یاب ذریعے، حتیٰ کہ ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مزاحمت کا اختیار حاصل ہے۔
واضح رہے، پاکستان میں انسانی حقوق کا عالمی دن خاص طور پر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں اجاگرکرنےکےضمن میں منایا جاتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیااقوامِ متّحدہ اوردنیا بَھرمیں موجود انسانی حقوق کےدیگرنام نہاد ٹھیکے دار و عَلم بردار، دنیا کی اِن کم زور ریاستوں کے ساتھ دوستی و دشمنی یک ساں طور پر نبھا رہے ہیں، کیوں کہ بہرحال حقیقت تو یہی ہے کہ اقوامِ متّحدہ سمیت تمام عالمی ادارے مدّت مدید سے اِن تمام مسلمان ریاستوں کی دل خراش صورتِ حال پر،محض بیانات کی حد تک ہی اپنے فرائض سےسُبک دوش ہورہے ہیں۔
اقوامِ متّحدہ کے منشور کی روشنی میں پاکستان کے آئین میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو مکمل تحفّظ فراہم کیا گیا ہے، جب کہ یہاں وفاقی وصوبائی سطح پرانسانی حقوق کے تحفّظ کے لیے کچھ اہم اقدامات بھی کیےگئےہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب حکومت نے 2018ء میں انسانی حقوق کی پالیسی منظور کی اور اس کے نفاذ کے لیے ایک ایکشن پلان ترتیب دیا۔
علاوہ ازیں، سرکاری افسران کے لیےانسانی حقوق کی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے، جب کہ جامعات کی سطح پربھی اِس موضوع کو نصاب کا حصّہ بنایا گیا ہے۔ نیز، حکومت نےخواتین، بچّوں اور اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بھی اہم قوانین متعارف کروائے ہیں۔
اقوامِ متّحدہ کے قوانین کےتحت ہرشخص کوبنیادی حقوق حاصل ہیں اور رنگ، نسل، زبان یا عقیدے کی بنیاد پر کسی سےامتیازی سلوک روا نہیں رکھاجا سکتا، جب کہ افراد کو پُرامن احتجاج اور انجمن سازی کا حق بھی دیا گیاہے۔ انسانی حقوق کا یہ عالمی یوم اس بات کی بھی یاد دہانی کرواتا ہے کہ بہرطور دُنیا بَھر کے انسانوں کو یک ساں حقوق فراہم کیے جانے چاہئیں۔
سو، مقبوضہ اور جنگ زدہ علاقوں میں عالمی ادارے فی الفور جنگ بندی کروائیں، جب کہ انفرادی سطح پرہمیں چاہیے کہ ہم خُود سے متعلقہ ہر فرد کی آزادی، عزّت اور جان و مال کا خیال رکھیں، تاکہ ایک منصفانہ اور متوازن معاشرہ قائم ہوسکے۔ یاد رہے، انسانی حقوق کی پاس داری اُسی وقت ہی ممکن ہوگی کہ جب ہم معاشرتی انصاف کو فروغ دیں گے اور تمام طبقات کو برابری کی بنیاد پر ترقّی کے مواقع فراہم کریں گے۔