ملک میں ایک طرف اقتدار کی جنگ جاری ہے تو دوسری طرف خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں نے تیزی پکڑلی ہے۔دونوں آویزشوں میں بےگناہ انسانی جانیں ضائع ہورہی ہیں۔اسلام آباد پر پی ٹی آئی کی یلغار تو روک دی گئی مگر اس کے نتیجے میں پولیس اور رینجرز کے چار اہل کار اپنی جانوں سے گئے۔پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ اس کے 12کارکن بھی مارے گئے مگر وہ اس حوالے سے تاحال کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی۔انتشار اور افراتفری کی اس صورتحال میںعام آدمی کی نیندیں حرام ہورہی ہیں۔جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات نوشکی کے علاقے میں دہشت گردوں نے ایک تعمیراتی کیمپ پر حملہ کیا اور 6مزدوروں کو پکڑکرلےگئے۔حملہ آوروں نے لیویز چیک پوسٹ بھی نذرآتش کردی اور اہل کاروں سے اسلحہ چھین لیا۔سیکورٹی فورسز نے ان کی تلاش شروع کردی ہے۔ادھر خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں قبائل کے درمیان ہونے والے تصادم کے دوران سوا سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہوچکے ہیںاور قتل وغارت کا یہ سلسلہ کسی روک ٹوک کے بغیر جاری ہےکیونکہ صوبائی حکومت کی ساری توجہ اس وقت بانی پی ٹی آئی کی رہائی پر مرکوز ہے۔فریقین میں اس دوران سیز فائر کی اطلاع بھی دی گئی تھی۔مگر اس کے باوجود قبائلی جنگ پورے زور شور سے جاری ہےکیونکہ لڑنے والے پوری قوت سے سرگرم ہیں مگر روکنے والا کوئی نہیں۔لا اینڈ آرڈر کی یہ صورتحال قوم کےمستقبل کے تناظر میں نہایت تشویشناک ہے۔قانون نافذ کرنے والے تو یقیناًحالات کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر سیاسی عدم استحکام اور عدم توجہی معاملات میں بگاڑ پیدا کرنے میں جلتی پرتیل کاکام دے رہی ہے۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو امن وامان کو لاحق خطرات سے نمٹنے پرپوری یکسوئی سے توجہ دینی چاہئے اور اپنی قوت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں ضائع نہیں کرنی چاہئے۔