پاکستان میں ریلوے کا محکمہ اپنی 77سالہ تاریخ میں 1960کی دہائی کے سوا ناقص کارکردگی اور خسارے کی وجہ سے انگشت نما رہا ہے۔اس تناظر میںایک حیرت انگیز میڈیا رپورٹ کے مطابق اس نے مسافر گاڑیوں سے پانچ ماہ میں33ارب روپے کما لیے ہیں،جو گزشتہ برس کے اسی عرصے کے مقابلے میں 14ارب روپے زیادہ ہیں۔وطن عزیز میں ریلوے کا جال طول وعرض میں پھیلا ہوا ہے،جو اسے قیام پاکستان کے وقت ملا تھا۔ریلوے لائنوں کی مجموعی لمبائی 7791کلومیٹر،فعال اسٹیشنوں کی تعداد 625اورٹرینوں کی زیادہ سے زیادہ رفتار 120کلومیٹر فی گھنٹہ مقرر ہےتاہم آج کے ترقی یافتہ دور میں اسے ترقی دینے کی بہت گنجائش موجود ہے۔دنیا بھربشمول پاکستان میں ریلوے کو سفر کاسستا اور محفوظ ترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔پاکستان میں1970کی دہائی تک اس محکمے کی آمدن میں مسافر ٹرینوں کے ساتھ ساتھ مال گا ڑیوں کا بڑا حصہ شامل تھا، تاہم رفتہ رفتہ یہ سیاسی کھینچا تانی کی نذرہوتا چلا گیا، جس کی وجہ سےاس کم و بیش 45سال کے عرصے میں سب سے زیادہ خسارے میں جانے والے محکمے ریلوے اور پی آئی اے رہے۔اس دوران مال گا ڑیاں جو پہلے پہل ہر سیکشن پر خطیر منافع دے رہی تھیں ، ان کا آپریشن کم ہوکر ایک اندازے کے مطابق آج 10فیصد سے بھی کم رہ گیاہے۔ بہت سی برانچ لائنیں تین چار دہائیوں سے مکمل طور پر بند ہیںاور ریلوے کی زمینوں پر لوگوں کا قبضہ ہے۔ ماضی میں سیاسی بنیادوں پر ضرورت سے زیادہ اسٹاف بھرتی کیا گیا۔ پاکستان ریلوے کا ڈھانچہ اس قدر استعدادکا حامل ہے کہ آج 33ارب روپے کے منافع کو بہت غنیمت سمجھا جارہا ہے حالانکہ فی الحقیقت یہ کئی گنا زیادہ ہونا چاہئے تھا۔ متذکرہ صورتحال کو حوصلہ افزا جانتے ہوئے محکمہ ریلوے کو سیاسی مصلحتوں سے پاک کرکےپھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔