سابق بھارتی کرکٹر اورسیاستدان نوجوت سنگھ سدھو ان دنوں شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ دراصل انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انکی اہلیہ نوجوت کور سدھو جو سرطان جیسے خوفناک مرض کا شکار تھیں، انہوں نے اپنی غذا کے انتخاب کو بہتر بنا کر صحتیابی حاصل کی ہے۔ نوجوت سدھو کے مطابق ان کی اہلیہ نے لیموں کے رس، سیب کے سرکے، نیم کے پتوں، کچی ہلدی، دار چینی، کالی مرچ، الائچی، لہسن، ادرک، چقندر، بادام کے رس، ناریل کے تیل اور کچی سبزیوں کو استعمال کرکے کینسر کو شکست دی۔ یہ ویڈیو پیغام دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ ممکن ہے سدھو غذا کی اہمیت کو اجاگر کرنا چاہ رہے ہوں مگر پہلے سے انواع و اقسام کے شکوک و شبہات اور وسوسوں کا شکار معاشرے میں کسی مشہور شخصیت کی طرف سے یہ بات کرنے کا مطلب لوگوں کو گمراہ کرنے کے متراد ف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لوگ اس قسم کے امراض کی تشخیص پر کسی مستند معالج سے رجوع کرنے کے بجائے محض گھریلو ٹوٹکوں پر انحصار کریں۔ یہی وجہ ہے کہ چھتیس گڑھ سول سوسائٹی نے انہیں ہرجانے کا نوٹس بھیجا ہے جبکہ ٹاٹا میموریل ہاسپٹل میں کینسر کے 262ماہرین نے وضاحتی پیغام جاری کیا ہے کہ اس طرح کے بیانات کی تائید میں کسی قسم کے طبی یا سائنسی ثبوت دستیاب نہیں۔ لہٰذا کینسر کی شکایت پر اس طرح کے ٹوٹکوں میں وقت ضائع کرنے اور علاج میں تاخیر کرنے کے بجائے فوری طور پر ماہر معالج سے رجوع کریں۔ نوجوت سنگھ سدھو کے غیر ذمہ دارانہ بیان سے خیال آیا کہ یہ رجحان محض مفت کے طبی مشوروں تک محدود نہیں ہے، ہمارے ہاں بیشتر کامیاب افراد دانستہ یا غیردانستہ طور پر نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں کامیاب کاروباری افراد سے بات کریں تو وہ اپنی عادات و اطوار، مزاج اور معمولات سمیت ان تمام پہلوئوں کی نشاندہی کرینگے جو کامیابی اور ناکامی کی بنیاد بنتے ہیں۔ وہ بتائیں گے کہ ابتدائی عرصہ کے دوران انہیں کس طرح کے مشکل ترین حالات کا سامنا کرنا پڑا۔زمانے کی ٹھوکریں کھائیں ،لوگوں کی باتیں سنیں مگر ہار نہیں مانی اور مسلسل آگے بڑھتے رہے ۔ان کامیاب افراد کی باتیںنہ صرف نوجوانوں کا عزم و حوصلہ بڑھانے کا کام کرتی ہیں بلکہ رہنما اصول ،منزل کے حصول میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ امریکی مصنف اسٹیفن آر کووے نے تو اپنی کتاب ’’پر اثر لوگوں کی سات عادات ‘‘میں اس سمندر کو کوزے میں بند کردیا ۔لیکن آپ ہمارے ہاں کسی بھی کامیاب فردسے بات کرکے دیکھ لیں ،چاہے وہ کوئی بڑا مصنف ہو ،شاعر یا ادیب ہو ،جج ہو ،جرنیل ہو ،سیاستدان ہو ،ڈاکٹر یاانجینئر ہو ،سول سرونٹ ہو ،ماہر معیشت ہو ،گلوکار یا اداکار ہو،کرکٹر ہو ،بزنس مین ہو ،وہ نہایت عاجزی و انکساری سے کہے گا ،مجھ میں تو کوئی کمال نہیں ،کسی قسم کی خوبی نہیں بس پروردگار کا کرم ہے ،ماں باپ کی دعائیں ہیں ،پتہ نہیں خدا کو میری کونسی ادا پسند آگئی ہے ،کیا معلوم کس کی بدولت یہ رزق مل رہا ہے ۔جملے اور الفاظ میںمعمولی رد وبدل ہوسکتا ہے ،انداز شاید منفرد ہو مگر بات یہی سننے کو ملتی ہے ۔اور یہ محض مذہبی رجحانات کے حامل افراد کامعاملہ نہیں ،وہ افراد جو دنیاوی معاملات کے اعتبار سے خاصے لادین دکھائی دیتے ہیں ،وہ بھی اپنی کامیابی کو اوپر والے کی نظر کرم قرار دیتے ہیں۔
عاجزی و انکساری اپنی جگہ مگر اس ’’مذہبی ٹچ‘‘کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ پہلے سے تساہل کاشکار نوجوان مزید ہڈ حرام ہوجاتے ہیں ۔جب وہ ارب پتی افراد کے منہ سے یہ بات سنتے ہیںکہ سب نصیب کی بات ہے تو وہ اپنی حالت سنوارنےکیلئے جدوجہد کرنے کے بجائے مقدر کالکھا سمجھ کرسب کچھ قبول کرلیتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کبھی ان کی دعائیں قبول ہوں گی تو وارے نیارے ہوجائیں گے۔جب آپ اپنی کامیابی کی حقیقی داستان چھپاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ مجھ میں تو کوئی خوبی ،کسی قسم کی انفرادیت اور کوئی خاص بات نہیں ہے بس اوپروالے کی بندہ پروری ہے ، تو دراصل آپ اس فلسفے سے انکار کررہے ہوتے ہیں کہ محنت میں عظمت ہے یا پھرسورۃ النجم کی اس آیت کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں کہ’’ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے‘‘۔سننے والے اس مغالطے کاشکار ہوجاتے ہیں کہ جب ،جتنا مقدر میں لکھا ہے ،اس سے زیادہ مل ہی نہیں سکتا ،تو بھاگ دوڑ کرنے کا کیا فائدہ ۔محنت و مشقت اور ریاضت میں توانائیاں ضائع کیوں کریں ۔بس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں ،نہ غم امروز نہ فکر فردا۔اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنی عادات و اطوار اور افکار واعمال کے سبب کامیاب یاناکام ہوتا ہے ۔کامیابی کی ہر روداد جو بظاہر بہت پرکشش اور دلکش محسوس ہوتی ہے اس کے پیچھے طویل جدوجہداور انتھک کاوشوں کی لازوال داستان موجود ہوتی ہے ۔آپ کسی شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی کی منازل طے کرنے والے شخص کی کتاب زیست پڑھ کر دیکھ لیں ،اس کا سفر تگ و تاز سے عبارت ہوگا۔اگر لاکھوں اور کروڑوں کاروباری افراد میں سے کوئی ایک ترقی و خوشحالی کی منازل طے کرتا ہے تو اس کے مزاج ،کام کرنے کے انداز،حکمت عملی ،سوچ اور طریقہ کار میں کوئی نہ کوئی فرق ضرور ہوتا ہے ۔ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی شخص میں کوئی خوبی نہ ہو،کسی قسم کی انفرادیت نہ ہو اور وہ کامیاب ہو جائے ۔عاجزی و انکساری کے سبب آجکل یہ کہنا فیشن بن گیا ہے کہ میں سیلف میڈ نہیں بلکہ اللہ میڈ ہوں ،اس کامیابی میں میرا کوئی کمال نہیں ۔ ایسا کہنے والے نہ صرف نوجوان نسل کوگمراہ کرتے ہیں بلکہ خالق کائنات کے بنائے ہوئے اصولوں کا بھی انکار کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیںکہ کائنات کا نظام عدل وانصاف پر استوار نہیں بلکہ محض نظر کرم پر چل رہا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کوئی حادثہ ،کرشمہ یا پھر عنایت نہیںبلکہ شعوری طور پر اختیار کیا گیا راستہ اور انتخاب ہے۔