جھوٹی سچی معلومات،تجزیوں اور تبصروں کی بھرمار اور یلغار میں ہم سب ایک عجیب اذیت ناک منظر کا حصہ بن چکے ہیں۔جہاں خوشی کا معصوم پرندہ پر مارنے کی جرات نہیں کر سکتا اسلئے کہ ہمارے مزاج کی برہمی اور تلخی اسے ادھر کا رخ کرنے نہیں دیتی۔پرندے اور جانور رویوں کی زبان سمجھتے ہیں۔اپنائیت بھرے لہجے اور محبت میں رچے احساس کے ذریعے رابطے قائم ہوتے ہیں۔جب خوشی کا معصوم پرندہ ہم سے فاصلہ کر لیتا ہے تو ہمارے اندر بھی اڑنے،لہرانے،چہچہانے اور کِھلکھلانے کی خواہش دم توڑنے لگتی ہے۔کھڑکی کے باہر موجود فطرت کے دلکش منظر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔اسلئے کہ ہم انہیں اہمیت ہی نہیں دیتے۔ہماری نظریں اس اسکرین سے جمی رہتی ہیں جہاں گلے شکوے، سوالات، اعتراضات ،خدشات اور بے یقین رْتوں کا ڈیرہ ہوتا ہے۔ہم بے معنی سوال و جواب اور تکرار میں گھرے رہتے ہیں کیونکہ دوسرے ہمیں قائل کر پاتے ہیں اور نہ ہم انہیں اپنی رائے سے اتفاق کرنا سکھا سکتے ہیں۔یوں ہجوم کا ہر فرد تنہا لڑتا جھگڑتا مزید دکھی اور تنہا ہوتا جا رہا ہے۔کبھی کبھار ہم اپنے وجود پر بٹھائے گئے مصنوعی پہرے ہٹا کر اپنی اصل کے مطابق جینے کی کوشش کرتے ہیں تو دل سے ہنستے ہیں،بچوں کی طرح کھلکھلا کر زندگی جینے کا لطف حاصل کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر فاطمہ حسن ایک ہفتے کیلئے کراچی سے لاہور تشریف لائیں تو شدید اسموگ کے باوجود لاہور کی ادبی محفلوں کی رونقیں دوبالا ہو گئیں ، ڈاکٹر فاطمہ حسن اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ،خوبصورت شاعرہ، محقق ،دانشور اور منتظم ہونے کے ساتھ صوفیانہ مزاج رکھنے والی انسان ہیں۔دنیا بھر سے کراچی آنے والے ادیبوں کی پذیرائی میں پیش پیش رہتی ہیں۔اْن کی شخصیت کی اپنائیت اور مہربان رویے کے باعث نئی نسل کے لوگ ان سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔لاہور سے ڈاکٹر فاطمہ کے گہرے تعلق کے حوالے ان کے دور طالبعلمی کے دوست غزالہ نثار، اسلم ملک اور خوبصورت شاعر منیر نیازی ہیں۔ پچیس برس قبل منیر نیازی سے محبت و عقیدت ہی میری ڈاکٹر صاحبہ سے دوستی کی وجہ بنی اور وقت کے ساتھ یہ دوستی گہری ہوتی گئی کہ دونوں طرف اخلاص کی فراوانی تھی۔ ڈاکٹر صاحبہ کو دوسروں کو عزت دینے اور اْن کی پذیرائی کرنے میں کمال حاصل ہے۔وجدان کی طرف سے ان کے اعزاز میں ایک محفل کا اہتمام کرنا چاہتی تھی لیکن انہوں نے اپنی تعریف و توصیف پر مبنی اپنے تذکرے کی بجائے اسے پروین شاکر اور شاہدہ حسن کی سالگرہ سے جوڑ دیا اور دن بھی 24 نومبر کا چنا گیا جس دن احتجاج کے باعث راستے مسدود اور رابطے مفقود ہو چکے تھے۔دوست ہماری گزارش اور ڈاکٹر فاطمہ کی محبت میں آسان اور مختصر سفر کے طویل اور دشوار گزار مرحلوں سے گزر کر پہنچے تو بہار کا گمان ہوا، سلمی اعوان، یاسمین حمید،غزالہ نثار ،حسین مجروح، نیلم احمد بشیر،ڈاکٹر شاہدہ دلاور،الماس شبی،فرزانہ نیناں،ڈاکٹر غافر شہزاد،پروفیسر اعجاز احمد ،عدیل برکی،عامر اور ثمرین کی شرکت میں علمی گفتگو ، شاعری اور سنگیت کا راج رہا ، پروین شاکر اور شاہدہ حسن کی سالگرہ کے کیک کاٹے گئے۔ایسی ہی ایک محفل شعیب بن عزیز کے گھر کینیڈا سے تشریف لانے والے بے مثل شاعر اشفاق احمد کے اعزاز میں منعقد ہوئی، شہر کی قد آور علمی ادبی ہستیوں کی سنگت میں ہلہ گلہ غالب رہا، سب نے اپنے اندر مقید آوازوں کو کھل کر رہائی دی۔ کسی جگہ بھی نہ سیاسی گفتگو چھیڑی گئی نہ بے وجہ بحث مباحثے اور غم وغصے کی کیفیت کو طاری ہونے کا موقع دیا گیا۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بے مقصد بحث کے بوجھ سے آزاد ہو کر خود کی بات بھی سنیں اور خوشی کے معصوم پرندے کیلئے کھڑکی بھی کھلی رکھیں۔بہت سی بیماریوں ، ڈپریشن اور اضطراب سے نجات ملے گی۔ مسائل ہمارے پریشان رہنے ، لڑنے جھگڑنے اور تکرار سے حل نہیں ہوں گے، عمل سے بتدریج کم ہوتے جائیں گے۔ آخر میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کی غزل کے شعر پڑھ کر لطف اندوز ہوں۔
خواب تصورچاند اور راتیں
خود سے باتیں تم سے باتیں
خوشی ہے اک معصوم پرندہ
جسکے چاروں اور ہیں گھاتیں
آس امید بساط سے باہر
کیسی چالیں کیسی ماتیں
تم بن موسم ایک ہی جیسے
سردی ،گرمی خزاں برساتیں
ساتھ تمہارے کٹ جاتے تھے
لمبے دن اور چھوٹی راتیں
ریت پہ جاکر لکھ آئوں گی
اپنے دل کی ساری باتیں
دوطبقوں میں بٹی ہوئی ہیں
اعلیٰ ذاتیں ، ادنیٰ ذاتیں
ہجرت کرگئی چاند کی بڑھیا
گوگل پہ اب چرخا کاتیں