• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جہاں بھوک او رفاقوں سے مر نے والوں کیلئے دیگیں پکیں، جہاں گرمی اورلُو سے جاں بحق ہونے والوں کی میتیں یخ بستہ مردہ خانوں میں ہوں ، جہاں ہر قندیل بلوچ مجرم اور ہر مفتی عبدالقوی معصوم ، جہاں برانڈڈ پوشاکوں اور مہنگے میک اپ والیو ں کو ایدھی صاحب کی سادگی پسند ، جہاں ظالموں اور غاصبوں کے آئیڈیل ایدھی صاحب اور جہاں بھٹو بھی شہید اور بھٹو کو شہادت کے درجے پر فائز کرنے والا ضیاء الحق بھی شہید وہاں شرم یا تبدیلی تبھی آئے گی کہ جب دیکھو دیکھو کون آیا کہنے پر شیر آیا یا شیر کا شکاری آیا کی بجائے لوگوں کو عقل آئے گی۔
میں جب دیکھوں کہ ایک طرف صرف ایک ریفرنڈم ہارنے پر وہ ڈیوڈ کیمرون استعفیٰ دے کر گھر چلا جائے کہ جسکی وزارتِ عظمیٰ (عوامی مینڈیٹ) کے ابھی 4سال باقی ، جو وزیراعظم ہو کر بھی گھر کی شفٹنگ کرتے ہوئے فریج کی ساری چیزیں، خاندان کے سارے جوتے، بچوں کے سب کپڑے اور کچن کی ہر چیز خود Pack کرے، جو 6سال وزیراعظم رہ کر بھی اتنا سفید پوش کہ اسے وزیراعظم ہاؤس (10ڈاؤننگ اسٹریٹ) سے نکل کر اپنے دوست کے ہاں شفٹ ہونا پڑے کیونکہ اس کا آبائی گھر اس لئے کرائے پر کہ یہ کرایہ جمع کر کے ڈیوڈ کیمرون کی بیوی ایک فیشن ہاؤس کھولنے کی خواہشمند اور جب میں دیکھوں کہ ایک طرف ملکہ برطانیہ اپنی قومی ائیر لائن کی ایک معمول کی فلائٹ پر سفر کرے اور واشنگٹن میں کرائے کا گھر ڈھونڈتا امریکی صدر اوباما اب تک 9گھر صرف اس لئے رد کر دے کہ وہ اتنا کرایہ افورڈ نہ کرسکے تو پھر دوسری طرف یہ دیکھ کر سر شرم سے جھک جائے کہ پاکستان کے سارے اسپتالوں اور تمام ڈاکٹروں کو چھوڑ کر بیوی بچوں اور رشتہ داروں کے ساتھ 48دن لندن میں گزارنے والے دھاندلی سے پانامالیکس تک ’’میں نہ مانوں‘‘ فیم میاں نواز شریف کے کھانے پینے، اسٹاف کے خرچے، مہمان نوازی اور تیمارداری کیلئے آتے جاتے بیوروکریٹس اور وزراء کے سب اخراجات سرکار کے کھاتے میں ڈالنے کیلئے نہ صرف ان کی لندن کی رہائش گاہ کو وزیراعظم کا کیمپ آفس ڈکلیئر کردیا گیا، نہ صرف دو درجن وی آئی پیز کیلئے 350سیٹوں والا قومی ائیر لائن کاجہاز 6ہزار کلومیٹر دور منگوانے، جہاز کی سیٹیں نکال کر وزیراعظم کیلئے بیڈ روم اور دفتر بنانے اور پھر 6ہزار کلومیٹر واپسی کے اس شاہانہ سفر سمیت سب خرچہ حکومت کے ذمے لگا بلکہ لاہور ائیرپورٹ سے اپنے 5ہزار کنال والے گھر جاتے ہوئے میاں صاحب نے جو ہیلی کاپٹر استعمال کیا اسکے پٹرول کا بل بھی بھوکی ننگی قوم کے سر ہی چڑھا ۔
مجھے شرم تب بھی آئی کہ جب چند دن پہلے ایک غیر ملکی خاتون صحافی اپنی زندگی کے Funny Moments بتاتے بتاتے یہ بتانے لگی کہ ’’میں پاکستان کے ایک بڑے کا انٹرویو کرنے گئی تو پہلے تو مصافحہ کرتے ہوئے ہی موصوف کافی دیر تک میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لئے دباتے رہے، پھر اپنی کرسی پر بیٹھنے کی بجائے وہ بڑی بے تکلفی سے میرے ساتھ صوفے پر ہی بیٹھ گئے اور پھر اس سے پہلے کہ میں بات شروع کرتی بڑے رومینٹک انداز میں وہ بول پڑے ’’آج جو پوچھو گی، بتاؤں گا، آج کی شام، تمہارے نام‘‘ پھر جب میں تمام سوال پوچھ چکی تو وہ بچوں جیسے ضدی لہجے میں بولے ’’نہیں۔نہیں۔ابھی اور سوال پوچھو‘‘ جب چند مزید سوال کر کے میرے پاس مزید پوچھنے کیلئے کچھ نہ رہا تو ایک ٹھرکی مسکراہٹ پھینک کر میری طرف جھکتے ہوئے بڑی آہستگی سے انہوں نے پوچھ لیا ’’آپکا کوئی فرینڈ ہے‘‘ اس غیرمتوقع سوال پر میں حیران و پریشان ہو کر بولی ’’جی بہت سارے فرینڈز ہیں‘‘ انہوں نے دائیں بائیں دیکھ کر آہستہ سے کہا ’’میں خاص والے فرینڈ کی بات کر رہا ہوں‘‘ میں نے کہا ’’خاص والا فرینڈ۔ اچھا اچھا آپ بوائے فرینڈ کی بات کر رہے ہوں گے‘‘ اپنی ہنسی روکنے کی ناکام کوشش کے بعدمیں بولی ’’بوائے فرینڈ تھا مگر اب میرا اس سے Break Upہو چکا ‘‘ یہ سنتے ہی ان کا چہر ہ کھل اُٹھا کہنے لگے ’’بریک اپ ہوگیا، گڈ۔ ویری گڈ، پھر ہڑ بڑا کر کہا ’’میرا مطلب Sad ویری Sad‘‘ اور پھر تھوڑی دیر بعد جب ان کو غیرمحسوس طریقے سے آہستہ آہستہ صوفے پر اپنی طرف کھسکتے دیکھ کر میں نے باہر بیٹھے اپنے کیمرہ مین کو آواز دی تو وہ افراتفری میں سیدھے بیٹھ کر بولے ’’ویسے آپ کو کیسا بوائے فرینڈ پسند ہے‘‘ اب مجھے شدید غصہ آرہا تھا مگر میں نے لہجے کو حتی الامکان خوشگوار رکھتے ہوئے کہا’’ میرا بوائے فرینڈ جوان، لمبا، اسمارٹ اور ہینڈ سم ہونا چاہئے‘‘وہ زیرِ لب مسکرا کر بولے ’’گو کہ آپ کو جوان، اسمارٹ، لمبا اور ہینڈ سم بوائے فرینڈ چاہئے اور گو کہ میں بوڑھا، موٹا اور چھوٹے قد کا مگر پھر بھی میں آپ سے فرینڈ شپ کرنا چاہتا ہوں، کیا آپ میری فرینڈ بنیں گی‘‘ یہ سن کر میں ایک مصنوعی قہقہہ مار کر اُٹھی اور انہیں خدا حافظ کہہ کر تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی اور دروازے تک پہنچتے پہنچتے میںنے فیصلہ کر لیا کہ یہاں سے سیدھا مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے کیونکہ میرا سر درد سے پھٹ رہا تھا۔
مجھے یہ سن کرہی شرم آئے کہ مضبوط افغانستان، مستحکم پاکستان کی ضمانت، قوم کو یہ سبق رٹاتے سب استادوں سے پوچھنا یہی کہ وہ کس افغانستان کی بات کررہے، وہ افغانستان جو موساد، را اور سی آئی اے سے لبالب بھراہوا یا وہ افغانستان کہ جہاں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پاکستان اور پاکستانیوں سے نفرت کی جائے ، وہ افغانستان کہ جس کے لوگ ایسے بے دید کہ 35لاکھ افغانیوں کا بوجھ اُٹھانے اور 10 لاکھ افغانیوں کو نوکریاں دینے والے پاکستان سے افغان آرمی کی وردی پہن کرسینکڑوں وہ افغانی بھی لڑائیاں لڑیں کہ جن کے اپنے بیوی بچے پاکستان میںاور جو خود بھی چھٹیاں گزارنے پاکستان آئیں یا پھروہ افغانستان کہ جس کے حکمران ایسے پاکستان مخالف کہ ابھی چند ہفتے پہلے تاشقند میں شنگھائی سربراہ کانفرنس کے دوران افغان صدر پہلے تو پاکستانی سربراہ سے ملنے سے ہی انکار کر دیں ، جب انہیں بتایا جائے کہ یہ ملاقات پہلے سے طے اوریوں میٹنگ منسوخ کرنا سفارتی آداب کے خلاف تو اشر ف غنی بولے ’’ پاکستانی سربراہ کو میرے پاس لے آئیں میں اس کے پاس نہیں جاؤں گا‘‘ ،یہ جواب سن کر کانفرنس کے میزبانوں نے سمجھایا کہ’’ حضور ایک تو میٹنگ کی جگہ پاک افغان حکومتوں کی مرضی سے طے ہوئی تھی اور دوسرا ا س وقت میٹنگ کی کوریج کیلئے بین الاقوامی میڈیا بھی پہنچ چکا‘‘ ، خیر کافی منتوں سماجتوں کے بعد افغان صدر آئے ،پاکستانی سربراہ سے ہاتھ ملایا اور اپنے لکھے 7نکات پڑھ کر چلتے بنے جبکہ ہمارا بڑا بیٹھا منہ ہی دیکھتا رہ گیا ، اب ہمارے ساتھ یہ اس لئے ہوا کہ’’ مضبوط افغانستان اور مستحکم پاکستان‘‘ کے چکر میں ہم ایسے لیٹ چکے کہ جس کا جب جی چاہے جوتے مار کر چلتا بنے۔
مجھے شرم تب بھی آئی کہ جب بار بار یہ بتایا اور سمجھایا جائے کہ بہترین مارشل لا سے لولی لنگڑی جمہوریت بہتر، ان سب حضرات سے کہنا صرف یہی کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ وہ کسی لولی لنگڑی خاتون سے شادی کرلیں یا گھرکے کام کاج کیلئے کوئی لولی لنگڑی نوکرانی رکھ لیں، مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر جب کوئی اپنا گھر کسی لولی لنگڑی کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تو 20کروڑ افراد لولی لنگڑی جمہوریت کے حوالے کرنے کی کیا منطق ،مگر مجھے معلوم کہ وہاں یہ سب سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ جہاں بھوک او رفاقوں سے مر نے والوں کیلئے دیگیں پکیں ، جہاں گرمی اور لُو سے جاں بحق ہونے والوں کی میتیں یخ بستہ مردہ خانوں میں ہوں ، جہاں ہر قندیل بلوچ مجرم اور ہر مفتی عبدالقوی معصوم ، جہاں برانڈڈ پوشاکوں اور مہنگے میک اپ والیو ں کو ایدھی صاحب کی سادگی پسند ، جہاں ظالموں اور غاصبوں کے آئیڈیل ایدھی صاحب اور جہاں بھٹو بھی شہید اور بھٹو کو شہادت کے درجے پر فائز کرنے والا ضیاء الحق بھی شہید وہاں شرم یا تبدیلی تبھی آئے گی کہ جب دیکھو دیکھو کون آیا کہنے پر شیر آیا یا شیر کا شکاری آیا کی بجائے لوگوں کو عقل آئے گی۔
تازہ ترین